نیا سال

نیا سال
جانی
سمندر کی یخ اور نم ہوا میرے چہرے اور وجُود کو چُھو تے ہوئے نکل کر دسمبر کی اس آخری شب میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی ۔جب میں اپنے پُر آسائش اپارٹمنٹ کی بالکُنی کے آہنی جنگلے پر کہنی اٹکاکر کھڑا سال کی آخری شب کے آخری لمحات انجوائے کر رہا تھا ۔ میری نظر کبھی دوُر اندھیرے سمندر میں کھو جاتی اورکبھی نیچےسڑک پر آنے جانے والوں پر پڑتی۔ جن میں اکثریت نیو ایئر نائٹ کی وجہ سے موٹر سائیکل سواروں کی اور باقی چمکتی گاڑیوں کی تھی ۔جن کا رُخ کراچی کی مشہور سی سائیڈ جو کہ سی ویو کہلاتا ہے کی طرف تھا۔میرا اپارٹمنٹ سمندر کےکنارے سے گُزرنے والے روڈ پر تھا جو کہ سی ویو سے خاصا قریب بھی ہے۔اس لیئے یہ تماشہ دیکھنے کو مل رہا تھا۔
نظر ادھر سے اُدھر آوارہ گردی کرتے ہوئے ایک شخص پر رُکی ۔ جو حُلیہ سے کوئی مانگنے والا لگتا تھا اور آتے جاتے راہگیروں کو سوالیہ انداز میں دیکھتا،کہ شاید کوئی کُچھ دے جائے۔تھوڑی ہی دیر میں ایک عورت اور دو بچے بھی آکر راہگیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے لگے۔اُن پر نظر ٹکنے کی وجہ یہ تھی کہ آج جب میں اپنی چمچماتی گاڑی میں وطن عزیز کے معرُوف ٹھیکیدار کے اپنی کراچی کی بُلند ترین عمارت کے لیئے بنائے ہوئے پُل کےنیچے سے گُزرتے ہوئے اپنے اپارٹمنٹ کی طرف آرہا تھا تو انہی جیسے لوگوں نے فُٹ پاتھ پر ڈیرے جمائے ہوئے تھے۔جن میں مُلک کے ننھے فرشتوں اور معماروں کی بھرمار تھی۔
اُنہیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسےایک پُورا پنڈ آباد ہوگیا ہو اور ہوتا بھی کیوں نہ کہ نیا سال جو آنے کو بے تاب تھا۔ شاید یہی ان کے کمانے کا سیزن بھی تھا۔جو کہ آج رات کو ختم ہونے جارہا تھا۔ان ننھے فرشتوں کو ابھی نئے اور پُرانے سال کی پہچان بھی نہ ہو پائی تھی کہ اپنے پیروں کی کھال ان کُھردری اور پتھریلی سڑکوں پر گھسیٹنا پڑگئی تھی۔روٹی یا دودھ کی خاطر۔جہاں پر یہ خیمہ بستیاں آباد ہوئی تھیں اُس کے ساتھ ہی شہر کی سب سے بڑی عمارت اپنے آب و تاب کے ساتھ تعمیر کے آخری مراحل میں تھی ،اور تھوڑا آگے جاکر اس شہر کے سیاہ و سُفید کے مالکان کے محل نُما گھر تھے۔۔
جہاں کے باسی شاید ہر نیا سال نئے انداز میں منانے کے عادی تھے۔جن پر نہ تو کسی قسم کی خیمہ بستیوں کا کوئی اثر ہوتا اور نہ ہی اُن میں رہنے والےگندے اور میلے کُچیلے لوگوں میں کوئی دلچسپی۔میں اپنی سوچوں میں گُم تھا کہ دھڑام دھڑام اور ٹھاہ ٹھاہ کی آوازوں سے آسمان گھونج اُٹھا اور کُچھ دیر کے لیئے آتش بازی سے رنگین و روشن۔
موٹر سائیکلوں کے شور اور کاروں کے ہارن سے جب شور شرابے میں اضافہ ہونے لگا تو میں بالکُنی سے ہٹا اور اندر والی کھڑکی بند کرکے ڈرائینگ روم میں آکر اپنے نرم صوفے پر لیٹ گیا۔اور باہر شہر والے نئے سال کی خوشی میں ہر حد عُبُور کرنے کو ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مرے جارہے تھے۔۔خیمے والوں کا کیا تھا۔۔آج یہاں تھے تو کل اپنے اپنے پنڈ کی طرف لوٹ جاتے۔۔۔ پھر کسی نئے سال ۔۔عید یا تہوار کی آمد تک۔

Facebook Comments

جانی خان
تعریف اُس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply