• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آئمۂ مساجد کی سرکاری تنخواہ اور حق گوئی۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

آئمۂ مساجد کی سرکاری تنخواہ اور حق گوئی۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

کے پی کے حکومت کی جانب سے آئمہ مساجد کے لیے تنخواہ کا اعلان خوش آیند ہے ، بشرطیکہ اس پر عمل درآمد بھی ہو۔ سرکاری تنخواہوں کے نتیجے میں علما کی حق گوئی متاثر ہونے کا خدشہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے سرکاری ڈاکٹرز، پروفیسرز اور دیگر ملازمین سرکاری تنخواہ لینے کی وجہ سے سچ بولنے سے محروم ہو گئے ہیں۔ جس محلے یا گاؤں میں کوئی پیش امام ہوتا ہے، اس کے باسیوں سے تنخواہ لے کر اگر وہ ان کے غلط رویوں پر تنقید کر سکتا ہے، تو انھی کے سامنے قابلِِ گرفت عمومی معاشرتی اور حکومتی رویوں کو کیوں ہدفِ تنقید نہیں بنا سکتا! سامنے موجود اور براہِ راست مخاطب لوگوں کے رویوں پر تنقید زیادہ آسان ہے یا بالواسطہ مخاطب وجود پر یا حکومتی مشینری وغیرہ پر! آج کل سوشل میڈیا ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ ہے، اس پر سرکاری ملازمین دن رات سرکار کی پالیسیوں اور رویوں کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔
ویسے بھی عمومی معاشرتی رویوں پر تنقید چاہے وہ حکومتی اداروں ہی کے ہوں ، کسی پارٹی کی حکومت اسے ہر حال میں اپنے خلاف بغاوت کیوں سمجھے گی؟ مثلاً اگر کوئی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ہماری پولیس میں فلاں خرابی ہے، رشوت خوری عام ہے ، اس کی اصلاح کرنی چاہیے، تو حکومت یا برسرِ اقتدار پارٹی کو اس سے کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ اس طرح کی تنقید کو تو حکومت ویلکم کرے گی کہ اس سے حکومتی مشینری کے اخلاقی رویوں میں بہتری کی توقع باندھی جا سکتی ہے۔ ہاں ریاست کے وجود کے خلاف یا اس سے غداری ناقابل ِبرداشت ہوتی ہے، لیکن وہ ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ اس میں سرکاری اور غیر سرکاری کی بھی کوئی قید نہیں ،اگر آپ پرائیویٹ حیثیت سے ریاست کے خلاف غداری کے مرتکب ہوں تو پھر بھی قابلِ گرفت ہوں گے اور ریاست آپ پر مناسب قدغن لگانے یا سزا دینے کی مجاز ہو گی۔
آئمہ مساجد کی سرکاری تنخواہ کے ساتھ تو میرے خیال میں ان کے اندر اپنے براہِ راست مخاطبین کے سامنے زیادہ اعتماد اور وقار سے بات کرنے کا حوصلہ پیدا ہونے کی توقع ہے۔وہ باتیں جو وہ کمیٹی یا کمیونٹی کے خوف سے سینے میں چھپائے رکھتے ہیں، وہ بھی کہنے کی ہمت اپنے اندر پائیں گے۔
بات سرکاری یا غیر سرکاری کی نہیں ایمان اور ضمیر کی ہے۔ خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے کام نکلوانے والوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں بھی یہی کام کرنا ہوتا ہے اور گورنمنٹ سیکٹر میں بھی۔ اگر ایسا مولوی ہو گا تو وہ جہاں ضروری سمجھے گا اپنے سرکاری باس کی بھی خوشامد کرے گا اور پرائیویٹ باس کی بھی۔ محکمے کے سربراہ کے خوشامدی بھی موجود ہیں اور محلے یا گاؤں کے چوہدری یا ڈونر وغیرہ کے خوشامدی بھی، یہ بات شخصیت اور رویوں کی ہے ، تنخواہوں کی نہیں۔

 

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply