بلیک میلر مولانا فضل الرحمان

23 دسمبر 2016 کو گلوبل ویلج سپیس ڈاٹ کام پر ایک آرٹیکل شائع ہوا۔جس میں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن ، جے یو آئی کے سینئر رہنما مولانا محمد خان شیرانی اور جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے اخباری بیانات پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ آرٹیکل لکھنے والے سابق لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی صاحب نے بڑی مہارت سے ان تینوں سیاستدانوں کی پاکستان کے خلاف سازش کو آشکارکیا اور اپنے مضبوط دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ مذکورہ تینوں سیاستدان ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ آرٹیکل پڑھ کر مارے حیرت کے میری گگھی بندھ گئی کہ دنیا کی نمبر ون خفیہ ایجنسی کے ہوتے ہوئے بھی ایسے خطرناک لوگ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کے محبوب سیاسی رہنما کیسے بن گئے۔ اور نہ صرف رہنما بن گئے بلکہ ملک کے کلیدی عہدوں تک بھی پہنچ گئے۔
جنرل صاحب نے مولانا شیرانی کے بارے میں لکھا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی جانے کے بعد منظر عام پر آئے اور آتے ہی ہمیں اس خوف میں مبتلا کر گئے کہ ملک پانچ حصوں میں تقسیم ہونے جا رہا ہے۔ جنرل صاحب اس بات پر ناراض تھے کہ مولانا شیرانی صاحب نے ایسا بھیانک سانحہ ہونے سے پہلے ہمیں خبردار کیوں کیا۔ جنرل صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ مولانا شیرانی کو ان موضوعات پر ہماری رہنمائی نہیں کرنی چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ وہ اللہ اللہ کریں اور اسلام کی وہ صوفیانہ تشریح قوم کو سمجھائیں جس میں شدت پسندی کی مخالفت کی جائے کیونکہ سرخ ریچھ کو شکست دے کرہم نے گرم پانیوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا ہے۔ مجھے جنرل صاحب کا مشورہ بے حد پسند آیا۔ وہ بالکل ٹھیک فرما رہے تھے۔ آخر کیا ضرورت پڑگئی ہے قوم کو یہ بتانے کی کہ اپنے لسانی، قومی اور جغرافیائی اختلافات کو مخالفت اور منافرت نہ بنائیں۔ اگر یہ خرابیاں دور نہ بھی ہوں تو کونسا بھونچال آ جانا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ملک ہی تو ٹوٹے گا سو ٹوٹنے دیں ۔ پہلے بھی تو ہم ایسے زخم سہہ چکے ہیں۔
لیکن اس سے بھی زیادہ بہتر مشورہ انہوں نے محمود خان اچکزئی صاحب کو دیا۔ جنرل صاحب نے لکھا کہ اچکزئی صاحب کی رفتار بہت تیز ہے۔ کسی زمانے میں وہ اٹک سے لے کر افغان بارڈر تک کے علاقے کو خیبر پختون خواہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ مطالبہ پورا ہوا تو اب وہ اس خطے کو الگ صوبہ بنا کر اس کانام افغانیہ رکھوانا چاہتے ہیں۔ کسی زمانے میں وہ پٹھان تھے اب افغان کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ اچکزئی صاحب آنے والے دنوں میں اسی افغانیہ صوبے کو افغانستان کا حصہ بنا دیں گے۔ اندازہ کیجئے جنرل صاحب کی خداداد ذہانت کاکہ کیسے انہوں نے اچکزئی صاحب کے چند اخباری بیانات کے ذریعے پوری سازش کا سراغ لگایا۔اور ان تمام پختونوں کو ملک دشمن ڈیکلیئر کر دیا جو صوبہ افغانیہ کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جنرل صاحب کہنا چاہتے ہوں گے کہ پختونوں کو اپنی نسل یعنی افغان نام لینے کی بجائے خیبری خیبری کا نعرہ لگانا چاہیے۔ یا پھر خیبر پختون خواہ کے پرانے نام کی نسبت شمال مغربی سرحدی قوم کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے اور اپنے نام و نسب کو انیس سو سینتالیس سے پہلے کے تمام بڑوں سے پاک صاف کر دینا چاہیے۔
دیکھتے ہیں اچکزئی صاحب کو جنرل صاحب کا یہ مشورہ پسند آتا ہے یا نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ جو انکشاف جنرل صاحب نے تینوں سیاستدانوں اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کیا ہے اس پر پوری قوم انہیں سلیوٹ پیش کرے گی۔ مولانا کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے جنرل صاحب نے لکھا کہ مولانا فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کو نہیں مانتے بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ فاٹا میں ریفرنڈم کرایا جائے اور عوام کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے کہ آیا وہ الگ صوبہ چاہتے ہیں، خیبر پی کے میں ضم ہونا چاہتے ہیں یا جوں کا توں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا افغان ریفیو جیز کی ملک بدری کے بھی خلاف ہیں۔ مولانا کہتے ہیں کہ انہیں پاکستانی شہری کے طور پر قبول کرتے ہوئے پاکستان میں جذب کر دیا جائے۔ ذرا سوچیے مولانا نے کیسا غیر جمہوری بیان دیا ہے۔ آرمی آکیوپائڈ پاکستان اوہ سوری اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام کو ان کے مستقبل بارے فیصلہ کرنے کا اختیاردینا غیر جمہوری اور غیر دانشمندانہ ا قدام ہے۔ مولانا کو چاہیے تھا کہ وہ فاٹا میں ایف سی آر جیسے ظالمانہ قوانین کی حمایت کرتے۔ ملکوں کی ہاں میں ہاں ملاتے تاکہ فاٹا مزید ستر سال کے لیے جہنم بنا رہے اور فاٹا کے باسی عزت دار شہری کی حیثیت سے اس ملک میں اپنی پہچان نہ بنا پائیں۔ لیکن مولانا تو ٹھہرے بلیک میلر۔ اس لیے انہوں نے ملک دشمن ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے فاٹا میں ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا تاکہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی راہ ہموار ہو سکے اور ساتھ ساتھ افغانیوں کی ملک بدری کی بھی مخالفت کر دی تاکہ کل کو سارے افغانی اس نئے صوبے میں رہائش اختیار کریں اور مولانا کے زیر بار احسان رہیں۔ جن کے سہارے مولانا ہمہ وقت مرکزی حکومت کو بلیک میل کر سکیں اور جب کبھی انہیں موقع ملے اس صوبے کو ملک سے جدا کر کے الگ ریاست قائم کردیں۔
ارے صاحب یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ جنرل صاحب نے اپنے تہلکہ خیز کالم میں لکھا ہے۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ اس لیے شک و شبہے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔جنرل صاحب کے وزڈم اور سراغ رسانی کی داد دیں کہ اچکزئی، شیرانی اور مولانا کی عشروں پر محیط سیاست کے خفیہ مقاصد کو بھانپ گئے ہیں۔ اور نہ صرف بھانپ گئے ہیں بلکہ قوم کو بتا کر اپنے حصے کی شمع بھی جلا گئے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ ہماری قوم کی محسن کشی چہار دانگ عالم میں مشہور ہے لیکن پھر بھی میں ہاتھ جوڑ کر التجا کروں گا کہ خدارا جنرل صاحب کے انکشافات پر کان دھریں اور تینوں سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنا دیں۔ خبردار جو آئندہ انہیں ووٹ دیا۔ ورنہ یہ لوگ آپ کو آپ کے حقوق دلوانے کی کوشش کریں گے۔ آپ کے آئینی مطالبات کو حقیقی شکل دینے کی جدوجہد کریں گے۔ ملک کو درپیش چیلنجز اور آنے والے خطرات سے آگاہ کریں گے۔
اور ہاں بھول کر بھی کبھی ان لوگوں کی نہ سنیے گا جو کہتے ہیں کہ سابق فوجی افسران بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔ اور نہ ہی ان لوگوں کو وقعت دیجیے گا جو کہتے ہیں کہ وردی والے سیاستدانوں کو غدار سمجھتے ہیں۔ اور ان کی تو بالکل بھی نہ مانیے گا جو یہ لاجک پیش کرتے ہیں کہ سابق فوجی افسران خدانخواستہ نیم پاگل ہوتے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو خود ان کا اپنا ادارہ انہیں ریٹائر کر کے گھرنہ بھیجتایہ الگ بات ہے کہ وہ گھر جا کر یاداللہ میں مصروف ہونے کی بجائے تہلکہ خیز مضامین لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔۔

Facebook Comments

وقاص خان
آپ ہی کے جیسا ایک "بلڈی سویلین"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply