ذمہ دار کون؟۔۔ڈاکٹر ابرار ماجد

پاکستان آجکل اپنی تخلیق کے مقصد کو سیاسی نعروں کی گونج میں کہیں پانے سے قاصر ہے۔ یوں تو ہر کوئی اپنے بیانیے کو قائد کے فرمودات سے جوڑ رہا ہے اور اپنے فعل کو جہاد اکبر کا درجہ دے رہا ہے مگر آئین پاکستان انکے کارناموں سے شرمسار ہے۔

حقوق اور ذمہ داریاں محض کتابوں کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں اور قانون کی تشریح خواہشات کے تابع ہوچکی ہے۔ عدالتیں صرف ریاست کے معاملات تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں جو کبھی رات کے بارہ بجے جاگتی ہیں تو کبھی دن کو بھی اونگھ رہی ہوتی ہیں اورہزاروں سائل نظر کرم کی امیدیں لگائے مایوسی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔

سیاستدانوں کی جد و جہد اقتدار کو ملک کی تقدیر سے منسوب کیا جارہا ہے۔ قول و فعل کا تضاد اور منافقت کی انتہا دیکھیے کہ پاکستان قرضوں تلے دبتا جارہا ہے اور سیاستدان راتوں رات امیر ہوتے جارہے ہیں۔ ہے کوئی ایسا سیاستدان جس کے ذخائر میں کمی آئی ہو۔ عجب اتفاق ہے کہ پوری دنیا میں اتنے کرائسز آئے مگر کوئی پاکستانی سیاستدان ان سے متاثر نہیں ہوا۔ جلسے جلوسوں میں معیار زندگی دیکھیں یوں گماں ہوتا ہے کہ یہ کسی ترقی یافتہ ریاست سے سیر و تفریح پر آئے ہوئے ہیں۔ ہے کوئی جو ان کے اخراجات کا تخمینہ لگا کر ان سے حساب مانگے کہ یہ دولت کہاں سے آرہی ہے۔

حقوق و فرائض کے جنگ میں ناحق خون بہہ رہا ہے۔ کوئی اسے ریاست کی رٹ کے نام پر شہادت قرار دے رہا ہے تو کوئی حقیقی آزادی کے نام پر غازی کا رتبہ پا رہا ہے۔ مگراس عمل میں جان کی بازی ہارنے والے کی لاچار بیوی کو خاوند کے فرائض کی ادائیگی کا صلہ بیوگی کا تمغہ ملا۔ میں پوچھتا ہوں کہ ان پانچ معصوم بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم کرنے کا کوئی جواز ہے کسی کے پاس۔ وہ یتیم اس لئے ہوگئے کہ وہ ایک ادنیٰ سے سرکاری اہلکار کی اولاد تھے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہر چند ماہ بعد کوئی نہ کوئی ایسا سیاسی کھیل شروع ہوجاتا ہے جس میں بے گناہ پولیس والے امن عامہ کے نام پر ذبح کر دئے جاتے ہیں اور ان کی اولادیں ریاست کے رحم و کرم پر انصاف کی تلاش کے لئے تھانے کچہری بھٹکتی پھرتی ہیں اور ان کے بچوں کا مستقبل عدم برداشت کے رویے کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ سیاستدانوں کا کیا جاتا ہے وہ خزانے سے چند ٹکے ادا کرکے سمجھتے ہیں جیسے بہت بڑا احسان کردیا ہو۔

تحریک انصاف کے سابقہ دھرنے کی صوتحال، اپنی تقاریر میں خونی انقلاب جیسے الفاظ کا استعمال، نوجوانوں سے اشتعال انگیز خطاب، لاہور میں پولیس نوجوان کا ان کے کارکنوں کے ہاتھوں قتل اور ابھی ڈی چوک پہنچنے کا اعلان حکومت کے خدشات کو تقویت دے رہا ہے۔

نہتے معصوم شہریوں کو ظلم و تکبر کے سامنے جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے کہ وہ سیاست اور مذہب کے نام پر ان نام نہاد قائدین کی چالوں میں آجاتے ہیں۔

احتجاج، آزادی حق رائے ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن امن عامہ کو قائم رکھنا بھی ذمہ دار اداروں کا فرض ہے۔ ہم حق کی آواز تو اٹھاتے ہیں مگر ذمہ داریوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ حقوق کی حقیقی خوبصورتی اس کے ساتھ متعین حدود و قیود سے ہوتی ہے۔

ان کا تعین آئین پاکستان کرتا ہے اور ان کی ادائیگی اس پر عمل درآمد سے منسوب ہے اگر ہم اس کو مقدم نہیں سمجھیں گے پھر ہمیں حقوق کے مطالبے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حقوق کی پاسداری ہونی چاہیے تو پھر ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کرنا ہوگا۔

نظام کی بے بسی کہوں یا عدم برداشت کی ستم ظریفی، حکمرانوں کی بے حسی کہوں کہ عوام کی بے توجہی کہ ایک جماعت ایک صوبے کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے وفاق پر دھاوا بولنے کے لئے تیاریاں کر رہی ہے تو دوسری طرف سیاسی جماعتوں کا ایک اتحاد وفاق کو بچانے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے نا قابل شکست بنانے کی کوششوں میں تن  من دھن کی بازی لگائے بیٹھا ہے۔

عمراں خان اور دوسرے چند مرکزی قائدین کا پشاور سے جلوس کی سربراہی کرنا بھی سوال اٹھا رہا ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ اپنے اپنے حلقوں کے عوام کی راہنمائی کرتے اور اگر خواتین اور نوجوانوں کو شرکت کی ترغیب دے رہے ہیں تو اس کا اطلاق اپنے اوپر بھی کرتے۔ تاکہ ان کے قول و فعل میں ہم آہنگی بھی نظر آتی۔

آزادی اور غلامی کا مفہوم جذبات کے روش میں ڈوبی خواہشات کے پس پردہ عوام کی توانائیوں اور بے وقوفیوں کے بیچ تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ ایک حقیقی آزادی کے نام پر ریاست کے مدمقابل کھڑا ہے تو دوسرا انتشار کو شکست دینے کے لئے عوام کی چاردیواریوں کو پھلانگ رہا ہے۔

سیاست اور حکومت کی آنکھ مچولی سے پیدا شدہ معاشی غیر یقینی اور عدم استحکام کی صورتحال میں تجارتی اہداف پریشان لگ رہے ہیں۔ منافع کجا سودی قرضے کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف لگ رہا ہے۔ جہالت اور کم ظرفی نے خدا کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ ترقی کے خواب منہ چڑھا رہے ہیں۔

غیر ذمہ دارانہ رویوں اور عدم برداشت کے ماحول نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایک آزادی کے نام پر خونی انقلاب جیسے بچگانہ نعروں سے انتشار کو ہوا دے رہا ہے تو دوسرا اس انتشار کو روکنے کے لئے چادر چاردیواری کے تقدس کو پامال کررہا ہے۔

انتشار کا سبب بننے والوں کو واقعی کڑی سزا ملنی چاہیے مگر بے گناہ عوتوں اور بچوں پر تو بے جا ظلم نہیں ڈھانا چاہیے۔ کل ناصرہ جاوید اقبال کا بیان سن کر انتہائی دکھ ہوا کہ ایک ریٹائرڈ جج خاتون لاقانونیت کا نشانہ بننے کی گواہیاں دے رہی ہے۔

اس ٹکراؤ اور کشمکش میں نقصان کس کا ہوگا؟ ملک و قوم کا۔

ہر ایک سے گزارش ہے کہ اس خونی کھیل کو جتنی جلد ہوسکے ختم کیا جائے۔ تحریک انصاف کو بھی پر امن رہنے کی ضمانت دینی چاہیے اورجہاں مزاحمت ہو وہیں پڑاؤ ڈال لیں۔ وفاق کی حکومت کو بھی جمہوری حقوق پر قدغن لگانے سے باز آنا چاہیے۔

عوام کو بھی چاہیے کہ اس ذاتی مفادات کے کھیل کا حصہ نہ بنیں۔ اچھے برے کی تفریق کو سمجھیں اور ہر غلط، خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، کی حوصلہ شکنی کریں اور ہر اچھی سوچ والے اور پر امن کا ساتھ دیں اور جو تشدد کی راہ اختیار کرتا ہے اس کا سماجی بائیکاٹ کریں۔ ان نام نہاد قائدین کے فرمودات کو ان کے عمل سے ملا کر بھی دیکھ لیا کریں آپکو صاف سمجھ آجائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابھی تو ایک جان گئی ہے اور پوری قوم سوگوار دکھائی دیتی ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ کشمکش زیادہ بڑھی تو نقصان کا کون ذمہ دار ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply