ہم تنگیء داماں کا گِلہ کس سے کریں ۔قمر نقیب خان

 تصویر میں دکھائی دے رہے بچے  حمزہ اور شاہویر ہیں، حمزہ پانچ سال اور شاہویر چار سال کا تھا جب ان کا باپ کیپٹن عامر سنہ دو ہزار نو میں سوات آپریشن کے دوران شہید ہو گیا.. پاکستان آرمی نے کیپٹن عامر شہید کی ماہانہ پنشن پینتالیس ہزار مقرر کی اور شہید کی بیوہ کو دینا شروع کر دی.. اللہ پاک نے دو سال بعد ان یتیم بچوں سے ماں بھی واپس لے لی.. 2011 میں حمزہ شاہویر کی ماں شازیہ بھی فوت ہو گئی.. دونوں بچوں کی کفالت کی ذمہ  داری کیپٹن عامر شہید کے بوڑھے والدین پر آ گئی.. آرمی اصولوں کے مطابق شہید کی والدہ کی پنشن سات سو روپے مقرر کی گئی.. پچھلے پانچ سال میں یہ پینشن بڑھ کر تیرہ سو روپے ہو گئی… آپ اندازہ کیجئے، یتیم پوتوں کی کفالت، تعلیم و تربیت اور دیگر اخراجات… کیا یہ سب محض تیرہ سو روپے میں ممکن ہیں؟

عامر شہید کے والدین نے جی ایچ کیو میں متعدد درخواستیں دیں، کئی بار گزارش کی کہ جو پنشن شہید کی بیوہ کو دی جا رہی تھی وہی پنشن شہید کی ماں کو دی جائے تاکہ ان دونوں بچوں کے اخراجات بہتر طور سے چل سکیں. لیکن کوئی شنوائی نہ ہو سکی.. پچھلے پانچ سال میں کیپٹن عامر شہید کے والدین اپنے یتیم پوتوں پر زندگی کی جمع پونجی خرچ کر چکے ہیں.. اس مہینے آرمی چیف کی بیگم صاحبہ نے تمام شہدا کی بیواؤں اور والدین کو مدعو کیا، شہداء کے ورثا سے دس دس منٹ ملاقات کی، عامر شہید کی والدہ نے چیف صاحب کی بیگم سے بھی گزارش کی کہ تیرہ سو روپے میں دو یتیم بچوں کی کفالت ممکن نہیں، برائے مہربانی شہید کی پوری پنشن انہیں دی جائے تاکہ وہ اپنے یتیم پوتوں کی بہتر پرورش کر سکیں..

یقین دہانی تو کروا دی گئی لیکن تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا.. پاکستان آرمی اپنے ہزاروں جوانوں اور افسروں کی قربانی دے چکی ہے، شہدا کی مائیں فخر سے سر اونچا کر کے اپنے بیٹے کو شہید کہتی ہیں.. پاکستانیوں کو ان شہدا کی قدر کرنی چاہیے، شہدا کے یتیم بچوں کو سپیشل پروٹوکول اور ٹریٹمنٹ دینا چاہیے، شہید کے والدین کو سروں پر بٹھانا چاہیے مگر یہاں معاملہ برعکس ہے، یہ قوم جس طرح اپنے محسنوں کے ساتھ برا سلوک کرتی ہے یہ اپنے شہدا اور ان کے لواحقین کو بھی بھول جاتی ہے..

پاکستان میں کیپٹن عامر جیسے ہزاروں شہید ہیں، ان شہدا کے گھروں میں بے شمار ورثا ہیں، حمزہ شاہویر جیسے ہزاروں یتیم ہیں.. آپ اپنے ارد گرد شہدا تلاش کریں، آرمی کے جوان بھی اور بم دھماکوں کے شہدا بھی.. کم از کم مہینے میں ایک بار ان کے گھر چلے جائیں، یتیموں کی خیریت اور مسائل دریافت کریں، ان کی ضروریات پوری کریں، شہدا کے والدین کو بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دیں. احساس کریں اور احساس دلائیں.

میں جی ایچ کیو سے بھی گزارش کروں گا شہدا کے ہر کیس کو انفرادی طور پر ڈیل کریں، ایک ہی قانون تمام شہدا پر نہ لگائیں، قوانین بدلنے پڑتے ہیں تو بدل دیں، نئے قوانین بنائیں اور جو کرنا ہے جلدی کریں. ہر گھر کی الگ کہانی اور الگ مسائل ہیں، یہ مسائل انفرادی طور پر ہی حل ہو سکتے ہیں.. وما علینا الا البلاغ 

Advertisements
julia rana solicitors london

(نوٹ : کیپٹن عامر شہید کی والدہ میری ساس ہیں، عزت دار اور غیور لوگ ہیں، یہ پوسٹ میں اپنے طور پر لکھ رہا ہوں، ورثا نے مجھ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا. اس پوسٹ کا مقصد کیپٹن عامر شہید سمیت تمام شہدا کے حقوق کا تحفظ اور احترام ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنے پاکستانی بھائیوں کو احساس دلانا)۔

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply