دین،سیاست اور ملائیت (قسط8)۔۔۔عنایت اللہ کامران

گذشتہ سے پیوستہ:

معلوم ہوا کہ تمام معاملات میں ما انزل اللّٰہ کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ہیں، اور اقامتِ دین حکومت و عدالت کی کرسیوں پر اسی طرح ضروری اور لازم ہے جس طرح اقامتِ صلوٰۃ کے لیے اوقات کے لحاظ سے ادایگی نماز اور مسجد کی تعمیر اور اُس کا انتظام۔ اور یہ کہ یہ سب فرائض اقامتِ دین کا حصہ ہیں۔۔۔۔۔

اب مزید آگے پڑھئے۔۔۔۔۔۔

نئی قسط:

اقامت دین فرامین ِ رسولﷺ کی روشنی میں:
تمیم داری روایت کرتے ہیں:
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات کا سلسلہ موجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ شہروں اور دیہات کا کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جس میں یہ دین داخل نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ تو عزت پائیں گے اور کچھ ذلیل ہوں گے۔ عزت تو اللہ تعالیٰ اسلام کو بخشیں گے جبکہ ذلت اہل کفر کا نصیب بنے گی۔”
(مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)۔
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔”

(مسلم، رقم ۵۱۴۴)۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہو گا۔ اور جب قیصر کی حکومت (شام کے علاقے سے) ختم ہو جائے گی تو دوبارہ کبھیقائم نہیں ہوگی۔ اور اللہ کی قسم، ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔”(بخاری، رقم ۲۸۸۸)۔
سلمان فارسی سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ بشارت دی:
”اے سلمان، یہ وہ فتوحات ہیں جو تمھیں میرے بعد حاصل ہوں گے۔ شام فتح ہوگا اور ہرقل بھاگ کر اپنی مملکت کے پرلے کنارے کی طرف چلا جائے گا اور تمہیں شام پر غلبہ حاصل ہوگا اور کوئی اسے تم سے چھیننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اور یمن بھی لازماً فتح ہوگا اور یہ مشرق کے علاقے بھی تمہارے قبضے میں آئیں گے جس کے بعد کسریٰ قتل کر دیا جائے گا۔”
(المغازی ۲/۴۵۰)۔
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ نے فرمایا:
”کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دوں؟ صحابہ نے اپنی سواریوں پر چلتے چلتے کہا: یا رسول اللہ، کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ایک فارس کا اور دوسرا روم کا۔ اور اس نے حمیر کے بادشاہوں کے ذریعے سے میری مدد کی ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس راہ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کھائیں گے۔”
(المغازی ۳/۱۰۱۱)۔عدی بن حاتم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:
”سنو، مجھے معلوم ہے کہ تمہارے اسلام لانے میں کیا چیز مانع ہے۔ تم یہ سوچتے ہو کہ اس کی پیروی تو بس کچھ کمزور اور بے حیثیت لوگوں نے ہی اختیار کی ہے اور پورا عرب ان کے مقابلے پر کھڑا ہے۔ کیا تم حیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا، میں نے دیکھا تو نہیں لیکن اس کے بارے میں سنا ہے۔ آپ نے فرمایا، پس اللہ کی قسم ہے کہ اس دین کا غلبہ اس طرح قائم ہوگا کہ حیرہ سے ایک عورت اونٹ پر سوار ہو کر تن تنہا بیت اللہ کا حج کرنے آئے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہوں گے۔ میں نے تعجب سے پوچھا: کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے۔اور مال اتنا وافر ہو جائے گا کہ کوئی اس کو لینے والا نہیں ملے گا۔عدی بن حاتم کہتے ہیں: یہ دیکھو، حیرہ سے خاتون تن تنہا سوار ہو کر آتی ہے اور بیت اللہ کا حج کرتی ہے۔ اور میں خود ان لشکر میں شامل تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور بخدا، تیسری پیش گوئی بھی پوری ہو کر رہے گی، کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔”
(مسند احمد، رقم ۱۷۵۴۸)۔
عباس بن عبد المطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
اس دین کو غلبہ نصیب ہوگا یہاں تک کہ اس کے حدود سمندروں سے آگے چلے جائیں گے اور اللہ کے راستے میں سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیے جائیں گے۔(تفسیر القرطبی ۱/۱۸)۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم فارس اور روم کو فتح کر لو گے تو پھر کیا کرو گے؟ عبد الرحمن بن عوف نے کہا: ہم وہی کریں گے جو اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔”(مسلم، رقم ۵۲۶۲)۔
ابو ذر بیان کرتے ہیں:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم مصر کو فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس کے سکے کا نام قیراط ہے۔ پس جب تم اس کو فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ (ان کا دہرا حق ہوگا) وہ اہل ذمہ بھی ہوں گے اور ان کیساتھ رشتے داری بھی ہے۔”(صحیح مسلم، رقم ۴۶۱۵)۔
برائے حوالہ: http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/Ggalba-e-Deen-6

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply