کرسمس کا کیک

میں روزانہ دس بجے کے قریب اپنی دُکان پر پہنچتا تو اُسے اپنے ہتھیاروں سے لیس دُکان کے باہر کھڑا پاتا۔ وہ اِک سِپاہی کےسے انداز میں مُجھے سلیوٹ ٹھوکتا اور دُکان کھول کر اگلے پندرہ بیس مِنٹ میں اپنے حِصے کا کام کرتے ہوئے اگلی دُکان کا رُخ کرتا ۔اِس بڑی مارکیٹ کے دُکاندار اُسکی تنی ہوئی گردن اور دو گزی زبان کو چوہڑیاں دی آکڑکا نام دیتے اور اُسےبمشکل برداشت کرتے تھے۔وہ مارکیٹ میں چوڑا مائکل کے نام سے یاد کیا جاتا اور مائکل اوئے کے نام سے بُلایا جاتا تھا۔ غالِباً پوری مارکیٹ میں واحد میں ہی تھا جو اُسے پورےنام جارج مائکل سے پُکارتا تھا ۔ شائد اِس کی وجہ یہ تھی کہ مُجھے اُس کی صِفت چوہڑیاں دی آکڑسے کبھی واسطہ نہ پڑاتھا۔
اِس لعن طعن اور گالم گلوچ رویے سے جب خاطر خوا ہ نتائج نہ نِکلے تو ساتھی دُکانداروں نے مارکیٹ کی صفائی سُتھرائی اور جارج مائیکل سے جُڑے تمام معاملات میرے حوالے کر دئیے ۔اُسے لاتوں کی زبان سمجھانے والوں کو میں کوشش کے باوجودکبھی قائل نہ کر سکا کہ جانورں سے بھی بد تر ماحول میں رہنے والے وجود کے اندر پایا جاتا اِنسان فقط مردم شُماری کے کا م آسکتا ہے ۔ ایسےحیوانی وجود میں موجود علیل اِنسا ن کو صِرف پیار کی پُکار ہی تندرستی عطا کر سکتی ہے ۔ اِنسان کی روح کی غذا صرف پیار کے بول ہیں ،صِرف پیار۔۔۔ جارج مائیکل ہر شام میری دُکان پر ایک کپ چائے کے لئے بھی آتا تھا۔ میں الیکٹرک کیتلی سے چائے بنا کر اپنے اِستعمال کے لئے رکھے اِمپورٹیڈ ٹی سیٹ کی پِرچ پیالی میں بمعہ چمچ اِک سلیقے سے اُسے پیش کرتا۔ وہ محض اِس ایک کپ چائے کی خِدمت پر مُجھ سے اِسقدر خوش تھا کہ اپنی طرف سے ہر مُمکن کوشش کرتا تھا کہ صفائی کے معاملے میں مُجھے شکایت کا موقع نہ دے۔ وہ بچپن سے ہی نشے کا عادی ہو گیا تھا۔ اُس کی یہ عادت مسائل کا باعث بھی بنتی تھی مگر میں اُسکی اس عادت کو اُونٹ کی سواری میں کوہان تصور کرتے ہوئے نظرا انداز کر دیتا تھا۔ ۔ مُجھے نہیں معلوم کہ وہ کِس قِسم کا نشہ کرتا تھا البتہ اپنی آنکھوں سے میں نے اُسے کوئی دیسی قِسم کا کھانسی کا شربت ایک ہی سانس میں غٹا غٹ پیتے دیکھا تھا۔
اُس سال 24 دِسمبر کو میرا ایک کرسچین دوست ایک عدد کیک سمیت مُلاقات کے لئے حاضر ہوا۔اب یہ تحفہ تو دوست کی محبت تھی مگر اُس روز میرا کیک کھانے کا بالکُل موڈ نہ ہوا۔ میں اُن دِنوں اِس شہر میں میں بِنا فیملی کے خالص چھڑوں کی سی زِندگی گُزار رہا تھا ۔ میں نے دُکان بند کرتے ہوئے خوبصورتی سے پیک ہوا وہ کرسمس کیک جارج مائیکل کو گِفٹ کر دیا ۔ اِس تحفے کو ہاتھوں میں لیتے وقت اُس نے ایسی تشکر بھری نظروں سے مُجھے دیکھا جیسے میں اِنسانی شکل میں کوئی مسیحا ہو ں جو اُسے اِک نئی زِندگی اِک نیا نام عطا کر رہا ہے ۔وہ میرے سامنے کُرسی پر بیٹھ گیا اور اپنی زِندگی کے دُکھ پھرولنے لگا ۔ اپنی ماں کے جلدی چلے جانے کا دُکھ ۔ سوتیلی ماں کے ظالمانہ سلوک کی کہانی ۔ سرکاری محکمے میں کلرک باپ کی بےحِسی کی داستان جِس نے بارہ سالہ بچے کو گھر سے نِکال دیا۔ چھٹی کلاس میں سکول چھُٹ جانے کا ملال۔بھیڑئے کی طرح کمزور کی بوٹیاں نوچنے والی بازاری دُنیا کی سڑکوں پر گُزری لمبی ٍراتوں میں تڑپا دینے والی بھوک۔ شادی کے تیسرے مہینے بیگم کے اپنے آشنا کے ساتھ بھاگ جانے کی ٹریجڈی ۔ میں اُس کی لائف میں ہونے والی ٹریجیدیز میں بالکُل کوئی دِلچسی نہ رکھتا تھا اور اِس دوران کلائی پر بندھی گھڑی کی سوئیوں کو گھور گھور کر تیز چلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا ۔مگر اُسکی زبان ایک ایگزاسٹ فین کی طرح نان سٹاپ چلتی جارہی تھی غالباً اُس کےاندر کا گھُٹ کر مرتا ہوا اِنسان پہلی مرتبہ چیخ چیخ کر تازہ ہوا مانگ رہا تھا۔
کُچھ تازگی محسوس کرتا جارج مائیکل چند دِن ہی مزید جی سکا۔ نئے سال کا سورج دیکھنے سے پہلے ہی اُس کی جھبیس ستائیس سالہ زِندگی کی ڈوری ٹوٹ گئی ۔ وہ یکم جنوری 1998 کی صبح ،قبرستان کے گیٹ کے داہنے طرف لگے نیِم کے پیٹر تلے مُردہ حالت میں پایا گیا۔ اُسکی موت کِسی دیسی کھانسی کے شربت سےہوئی ؟ کوئی زیریلی شراب؟ یاپھِر معاشرتی نا ہمواریاں اُس کی قاتل تھیں؟ یہ سوال کِسی نے نہ اُٹھایا بس اللہ کی مرضی والا کلیہ لگا کر مِٹی ڈال دی گئی۔ مُجھے اُس کی موت کی خبر ایک دِن بعد مِلی ۔ میں نے اپنی ریوالونگ چئیرکو اِدھر اُدھر گھُما کر بس ڈھائی تین منٹ تک ہی اُس کے مرنے کا افسوس کیا۔اِ س مصروف دُنیا میں بیکار کے کاموں کے لئے وقت بچتا ہی کہاں ہے ۔بچپن میں پیارے نبی کی پیاری باتیں پڑھنے کا موقع مِلا تھا اگر میں اُن پیاری باتوں کو مشعل ِ راہ بناتاتو کم ازکم مائیکل کی قبر پر ایک عدد پھول رکھنے تو ضرورجاتا۔مگر میں تو بچپن ہی سے ہر میدان میں تینتیس نمبر لینے والا ہوں کہ جسِ نے چونتییسویں کی کبھی آرزو بھی نہ کی۔بچپن میں مولوی صاحب نے ایک بات ذہن نشین کروا دی تھی کہ نبی سے عشق کا دعویٰ ہی پاسنگ مارکس دلوا دیتا ہے ۔میرے لئے تو بس یہی تینتیس نمبر ہی کافی ہیں۔
آج بہت سالوں بعد نا جانے کیوں میرا جارج مائکل سے معافی مانگنے کو دِل کررہا ہے ۔ اپنی چالاکیوں کی معافی ۔ میں نے اُسے ہمیشہ اپنے اِمپورٹڈ سیٹ میں علیحدہ سے رکھے پِرچ پیالی میں چائے دی ۔وہ میری اِس چالاکی کو کبھی سمجھ نہ سکا اور میری اِنسانیت دوستی کے گیت گا تا رہا ۔میں نے ہمیشہ اُس کے غلیظ کپڑوں اور میلے کُچیلے جِسم سے گھِن محسوس کی اور یہ بھی ایک حقیقت کہ میرے دِل میں اُس گنوار کے لئے کوئی خاص نیک جذبات نہ تھےمگر وہ مُجھے ، غریب و لاچار لوگوں کا دِلی ہمدرد ہی سمجھتا رہا۔
میں جب بھی کوئی پبلک ٹائیلٹ اِستعمال کرتا ہوں تو دیواروں پر لِکھے غلیظ فِقرے پڑھ کر مُجھے مائکل کی یاد ضرور آتی ہے جِس نے ہمیشہ اِس بات کو یقینی بنایا تھا کہ دیواروں پر کچھ بھی لکھا نہ جائے۔مگر وہ اِک بے ہنگم سے کٹے گتے پر اُس کی اپنی ٹوٹی پھوٹی لِکھائی میں لِکھا ہو ا اِک شعر جو بیرونی دروازے کی چوکٹھ پر ہمیشہ لٹکا رہا۔
میری غُربت نے اُڑایا ہے میرے فن کا مذاق
تیری دولت نے تیرے عیب چھُپا رکھے ہیں

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply