قبلہ شاہ صاحب اور نیر تابانیاں

قبلہ شاہ صاحب اور نیرتابانیاں
احمد رضوان
ہمارے بچپن میں پرائیویٹ اسکول خال خال اور خالی خالی ہی ہوتے تھے کہ تب سرکاری اسکولوں پر ابھی وہ پیمبری وقت نہیں آیا تھا کہ سب یوسف بےکارواں ہو ں۔ استادانِ گرامی اور ان کے پلے پلائے “مولا بخش” دونوں خوب عزت افزائی کروایا اور آگے کیا کرتے تھے ۔تب دوستیاں بھی پہلی کلاس سے کالج ،یونیورسٹی تک چلنے کے ساتھ ساتھ خاندان کے دوسرے افراد تک پھیل جایا کرتی تھیں ۔بڑے بھائی کے دوست آپ کے بڑے بھائی کے برابر ہونے کا حق بھرپور استعمال کیا کرتے تھے ۔
پرائمری کرکے مڈل حصہ میں پہنچے تو کچھ کچھ سینئر ہونے کا تفاخر پیدا ہونا شروع ہوگیا ،تاوقتیکہ اپنے سے بڑے قد کاٹھ اور ڈیل ڈول کے ایک نئے لڑکے نے کلاس میں داخلہ لے لیا ۔ کلاس کے نگران استاد سید صغیر حسین شاہ صاحب تھے ،کیا نستعلیق انسان ہیں اللہ ان کو صحت و سلامتی سے رکھے اگرچہ شاگرد مدت مدید سے رابطے میں نہیں ہے۔انگریزی ان کا خاص مضمون تھا اور جتنا ٹینس (Tense ) ہم تب ٹینسس ( Tenses ) یاد کرتے ہوا کرتے تھے کہ گرامر کی غلطی صرف غلطی نہیں ہوتی تھی گناہِ کبیرہ کے برابر سمجھی جاتی تھی اور سزا کان کی لو کو کچی پنسل سے دبا کر یا ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان پنسل بھینچ کر دی جاتی تھی اور” اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو” کا سماں بندھ جاتا تھا ۔اگر کسی کے کان کی لویں اب “یوسفی صاحب” کے مضمون کی طرح کی گئی تعریف سے سرخ نہیں ہوتیں تو یقیناََ دوسری توجیہ ہی قابل توجہ ہے ۔مڈل کلاس کے طالب علم بلا مبالغہ میٹرک پاس طلباءکو چیلنج کرتے تھے مقابلہ کی غرض سے،( ایسے بے لوث اساتذہ تھے) ۔ تب کی سیکھی ہوئی انگریزی آگے کالج ،یونیورسٹی اور عملی زندگی میں بہت کام آئی جس کا اب احساس ہوتا ہے ۔
خیر یہ نیا طالب علم جو پرائیویٹ اسکول سے سرکاری اسکول میں الٹی گنگا بہانے آیا تھا، اس نے آتے ہی اپنے جثے سے ذیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور اسے ملنے والے پروٹوکول اور آؤ بھگت نے ہمیں نکرے لگا دیا ۔قبلہ نے بھی سب کو اپنی گم گشتہ اور گذشتہ رعیت سمجھ کر قبول کرلیا ۔آہستہ آہستہ جوہر کھلے اورکچھ ہم آگے بڑھے تو بہت ساری عاداتِ بد اور شوق مشترکہ نکل آئے ۔جلد ہی سات آٹھ دوستوں کا ایک ایسا گروپ تشکیل پا گیا جس کے پیر فرتوت بمعہ کرتوت اور پشتیبان قبلہ کی ذات والا صفات تھی ،نمایاں خوبیوں میں سے ایک خوبی اسم با مسمیٰ نیر تابانی تھی،حضرت داغ کی طرح جہاں بیٹھ گئے وہیں میلہ لگا لیا ۔مشترکہ شوق میں سے ایک کتب بینی تھی جس میں قبلہ اشتیاق احمد کی انسپکٹر جمشید سیریز اور مظہر کلیم کی عمران سیریز کے پکے عاشق ِ صادق تھے ہاں امین نہیں تھے کہ ماسٹر امین صاحب کے بید کے سامنے بڑے بڑے بیدِ مجنوں کی طرح کانپتے تھے ۔پہلے اسکول کے دوست بنے پھر گھر سے اسکول آنے جانے کے راہی جس میں پہلا پڑاؤ چاچا قاسم کا گھر آتا ،وہاں سے نکلتے تو رستے میں ٹھیلوں سے کچھ نا کچھ ٹھونگتے ،خالص مٹی ( کسر نفسی سے مٹی لکھا ورنہ آپ جانتے ہیں اصل میں تو وہ گھوڑوں اور خرِ عیسیٰ کی ۔۔۔) پھانکتے، سائیکلوں پر ریس لگاتے گھر پہنچتے اور اگلے دن پھر ملنے کی تمنا دو آتشہ ،کبھی کبھار اسی دن پھر ملنے کے لئے شام میں پہنچ جاتا اور بڑے شاہ صاحب کی دعائیں ملتیں اور قبلہ کے برادر ِ بزرگ ،جوانِ رعنا اختر بھائی جو تب کالج میں ہوتے تھے سے دنیا جہان کی رنگ برنگی باتیں اور ان کی مدھر آواز میں لتا اور مہدی حسن کے گانے سننا ایک یادگار تجربہ ہوتا تھا ۔
آٹھویں تک آتے آتے دانت کاٹی دوستی لنگوٹیا بننے کے تمام مراحل طے کر چکی تھی ،ان ہی دنوں ایک سیکرٹ سروس کا ڈول ڈالا گیا قبلہ کی طرف سے اور اپنے آپ کو انہوں نےایکس ٹو کا عہدہ بھی تفویض کردیا ،ہمیں آپ چند دیگر ممبران میں شامل کرلیں ہاں جولیانا فٹزواٹر تب بھی نہیں تھی اب بھی نہیں ہے (اگرچہ کچھ لالہ عارف کے تجویز کردہ لختئی قسم کے لڑکے اس عہدہ پر فائز کیے جاسکتے تھے کچھ معمولی ترامیم کے ساتھ) ۔باقاعدہ ایک خفیہ مقام پر میٹنگ کال کرکے تنظیم کاایجنڈا، جھنڈا بغیر ڈنڈا اور بَیج کی رونمائی کی گئی اور جاسوسیانہ منصوبہ جات پر روشنی ڈالی گئی (قبلہ ایک عدد پنسل ٹارچ،نقشہ ،جھوٹ موٹ کا واکی ٹاکی اور بڑے بڑے گاگلز بھی ساتھ لائے تھے )
پہلے مشن پر اردو پڑھانے پر معمور استاد گرامی کوخفیہ دھمکی آمیز خط لکھا گیا جو اپنے مولا بخش سے سب کی تشریف لال کر دیا کرتے تھے اور طلباء اس تشریف آوری پر گال کی بجائے لال تشریف سہلایا کرتے تھے۔خط ملنے پر استاد بھی آخر استادتھے فوراََ پہچان گئے کون ہوسکتا ہے ۔سب کی لکھائی چیک کی گئی کسی کی لکھائی سے نہ ملی (خط ایک دوسرے اسکول کے دوست سے لکھوایا گیا تھا ) ۔سب سے جسمانی طور پر کمزور مگر فطانت میں سب سے تیز بچے کی شامت آگئی، اس دن سب کے رنگ یوں فق تھے کہ گورے بھی کیاہوتے/کرتے ہوں گے ،مگر آفرین اس بہادر سپوت کے ،مان کر ہی نہ دیا اور سب کی مار خود سہہ گیا ،(بچپن کے دوست سونے سے زیادہ خالص اور قیمتی ہوتے ہیں)
۱۹۸۴ سے اب تک بتیسی نکالتے نکالتے بتیس سال بیت گئے اس دوستی کے رشتے میں بندھے، یہی کل کا قصہ لگتا ہے ،لکھنے بیٹھا ہوں تو ان گنت قصے، واقعات نوک قلم پر آکر رک گئے ہیں کسے لکھوں،کسے چھوڑوں،اک دبستان ہے یادوں سے بھرا ہوا جس کے ہر موڑ اور اوڑھ سے کوئی قصہ جھانک رہا ہے ۔لکھ تو قبلہ کے بارے رہا ہوں مگر لگتا ہے اپنی ذات کے پرت کھول رہا ہوں ۔آپ اسے ان کی بجائے میری آپ بیتی یا پاپ بیتی بھی کہہ سکتے ہیں کہ یارانِ دم ساز کے ذکر مذکور کے بغیر کوئی قصہ مکمل نہیں ہو سکتا ۔چند کلیوں پر قناعت کیجیئے گرچہ آپ نادان نہیں ہیں اور چاول کے چند دانے ہی پوری دیگ کا پتا دے دیتے ہیں۔مشت از خروارے چند بیان کر دیتا ہوں
ایف ایس سی میں ہم پری میڈیکل گروپ میں تھے اور قبلہ پری انجیئنرنگ گروپ ایک دوسرے کالج میں مگر رابطہ جوں کا توں ہی تھا ،بورڈ کے امتحان کے دوران سن گن ملی کہ پیپر آؤٹ ہو رہے ہیں اورکچھ ہارڈ ورکنگ کی بجائے ہارڈلی ورکنگ ہم خیال دوستوں نے چندہ کرکے مستفید ہونے کا فیصلہ کیاہے، قبلہ ٹھٹھرتی رات میں تین بجے کہیں سے قیمتاََ ریاضی کا پرچہ لے آئے اور فرداََ فرداََ سب کو گھر پر پہنچا کر( ہم ان میں شامل نہیں تھے ہاں ریکارڈ کی درستی کے لیے بتا دیں ایک فزکس کا پرچہ ہمارے ہاتھ لگا تھا مگر اسی ظالم میں سب سے کم نمبر آئے) خود گھر آکر تکان کے مارے سو رہے ۔کچی پکی نیند میں پیپر دے آئے پوچھا کیسا ہوا تو بولے پتا نہیں میں سارا پڑھ ہی نہیں سکا ۔ساون سب کی پیاس بجھاتا ہے ساون کی کون بجھائے والا معاملہ تھا۔ رزلٹ آیا تو قبلہ کی ناکامی کا نقارہ پوری شان سے بج چکا تھا ،مایوس ہوکر تین حرف انجینئیرنگ پر بھیج کر پرائیویٹ ایف اے اور پھر بی اے کرلیا ۔
قبلہ پڑھائی سے زیادہ عملی تجربے پر یقین رکھتے تھے اور جتنی خواری اس سلسلہ میں خود اٹھائی اس سے دگنی ساتھ ہم نے بھی ۔ دوران ایف ایس سی ڈش انٹینا بنانے کا سوداسر میں سمایا ، ۱۲ فٹ کی ڈش ویلڈر گھر پر بلا کر خود بنوائی ڈرائنگ کرکے اور اسے موٹر لگا کر آٹومیٹک کرلیا نیچے بیٹھے بیٹھے مرضی سے ایک سیٹلائٹ سے دوسرے پر پروگرام دیکھے جاتے، کراچی سے ریسیور اور ایل این بی منگوائے گئے اور اسی ڈش پر ہم نے ۱۹۹۲ کا ورلڈ کپ مل کر دیکھا اور جب پاکستان جیتا تو ہمارے فلک شگاف نعرے اور بڑے شاہ صاحب نے اپنی دو نالی بندوق سے فائر داغنے شروع کر دیے ۔ یہ بندوق بڑے شاہ صاحب کو ڈاکو پکڑنے پر ایوب خان کی حکومت کی طرف سے انعام میں ملی تھی اور اب ان کے نام کا جزوبن چکی تھی اور انہیں بندوق شاہ کے معروف نام سے پکارا جاتا تھا اسی نسبت سے قبلہ شاہ جی کوہم پیار سے کارتوس شاہ پکارتے ہیں۔
ہمارے ایک قریبی عزیز جو ڈیپوٹیشن پر عراق گئے تھے آتے آتے ایک نازک سا پیناسونک کا ٹیپ ریکارڈر لائے جو ہماری اماں کو تحفتاََ ملا اور اس پر تلاوت کلام سے لے کر تلاوت غم سب کچھ سنا جاتا ،جب کچھ خرابی کرنے لگا تو قبلہ سے برسبیل تذکرہ ہوا تو کہنے لگے میں سروس کر دیتا ہوں یہ کون سا کام ہے ،لا کر سپرد کردی اور آج تک واپسی کی راہ تکا کرتے ہیں،یوا یوں کہ قبلہ اس عفیفہ کے پیچ و خم دیکھ کر ایسے لہلوٹ ہوئے کہ سدھ بدھ کھو بیٹھے ،اس کے تار و پود ایسے بکھیرے کہ دوبارہ واپس جوڑنا ناممکن ہوگیا،ان کو یہ سمجھ نہ آئے اتنے سے ریکارڈر میں جاپانیوں نے اتنا کچھ کیسے فٹ کردیا تھا ( اسی لئے چھوٹے قد والے جاپانیوں نے بڑے بڑے عالی دماغوں کو چت کر دیا تھا) ،پوچھنے پر عقدہ کھلا کہ الیکٹرانکس کھولنے کی تربیت لے لی تھی دوبارہ بند کرنے کی تربیت ہنوز باقی ہے اس بات کو۲۴ سال بیت گئے آج بھی مرحومہ قبلہ کے آبائی گھر کے مدفون خزانوں میں کہیں موجود ہے اور صاحب عالم کی دید کی تشنہ طلب،دیکھئے کب نگاہِ کرم پڑے۔
جب پہلی سوزوکی ایف ایکس خریدی تو قبلہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ہمارے اور والدہ محترمہ کے اتالیق ٹھہرے،آنے والے کئی دنوں تک راہ چلتے راہگیروں اور سائیکل سواروں کا خون خشک ہوتے اور حواس باختگی میں سڑک چھوڑکر کچے میں اترنا قبلہ کی تربیت کا عملی نمونہ ہوتا تھا ۔ آج بھی جب سڑک پر ڈرائیونگ کرتے جو غلطیاں ہم سے سرزد ہوتی ہیں اور دوسروں کی مغضوب الغضب نگاہوں کا نشانہ بنتے ہیں اور ہماری شان میں جو قصیدے پڑھے جاتے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم خرماہم ثواب کی نیت سے استاد کی خدمت میں ساتھ کے ساتھ روانہ کردیتے ہیں ۔
بی اے کے بعد قسمت کی دیوی یوں مہربان ہوئی کہ قبلہ کو ایم اے نفسیات گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا اور وہ دیوی جس سے بعد میں عقد ہوا وہ بھی یہیں کلاس فیلو تھی اور راویانِ حال بتاتے ہیں کس قامت اور قیامت کا یہ جوڑا تھا ،اشفاق احمد اور بانو آپا والا ہی سمجھ لیں ۔ہم بھی ان دنوں بوائز ہاسٹل اور گورنمنٹ کالج کی روشوں میں شدہ شدہ پائے جاتے تھے ۔قبلہ کو ایک انگلش کتاب ترجمہ کرنے کا پراجیکٹ ملا جس کا نام تھا “سائیکالوجی آف وومن” ۔اس کا ایک باب ہمیں بھی تھما دیا ترجمہ کرنے کے لئے، ہم جیسے ناکتخدا کے لئے یہ شجرِ ممنوعہ موضوع تھا اس لئے شوق شوق میں حامی بھر لی مگر صاحبو کیا عورتوں کی نفسیات ایک کتاب کا مضمون ہے ؟ایک عمر تو ناکافی ہے اس موضوع پر اسی لئے بعد از مرگ ۷۲ کا وعدہ ہے کہ آرام سے ،سہج سہج سے ،اچھی طرح سے تحقیق کرنا ہر زاویے اور قوسین پر عمودی پرکار سے کاری وار کرکے ۔
تگڑم کا ایک کونا قاسم چاچا تب ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی میں کر رہا تھا اور قانون کو پٹیاں پڑھا رہا تھا اور نیو کیمپس ہاسٹل نمبر ۱۶ ہم سب کا غیر قانونی مستقر تھا ،انہی دنوں ہم تینوں ایوننگ کلاس میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ جرمن زبان سیکھنے جایا کرتے تھے جہاں آج کل (Chen One) ہوتا ہے ۔وہیں پہلی بار انتظار حسین، ڈاکٹراین میری شمل اور ڈاکٹر مبارک علی کے لیکچر سننے کاموقع ملا اس پر پھر کبھی علیحدہ مضمون لکھوں گا۔
گرمیوں کی کتنی سخت دوپہریں ، برسات میں بھیگتی شامیں اور تاروں بھری خوشگوار راتیں ان کی معیت میں منڈوا دیکھنے، سٹیج ڈرامے یا لکشمی چوک سے واپسی پر راستے میں بشیر دارالماہی یا مزنگ چوک میں آلو کے پراٹھے کھا کر عیاشی کرتے گزری ، رات گئے نیو کیمپس واپسی ان کی سی ڈی ۷۰ پر تینوں ٹرپل سواری کرتے آتے ،پابندی تو ڈبل سواری پر ہوتی تھی ٹرپل پر تو نہیں ،اور ناکوں اور پولیس سے کیسے بچا جاتا ہے یہ ایک سیکرٹ سروس والے سے بہتر کون جان سکتا ہے۔
قبلہ شاہ صاحب آپ اور آپ کی دوستی کا میں مقروض ہوں اور جب تک یہ آنکھیں دیکھ رہی ہیں ان کی عید آپ کی دید ہے ۔آج اگر میرے قلم میں کچھ روانی اور جولانی ہے اور خیال مجتمع کرنے کا ڈھنگ کچھ سیکھا ہے تویہ آپ کی معیت میں اس مشاہدے کی دین ہے جب آپ نفسیات پڑھتے تھے اور ہم انسانوں کو پڑھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ آج آپ کے جنم دن پر صرف اتنا ہی کہوں گا، الفاظ شائد جذبات کو مکمل لبادہ نہ اوڑھا سکیں۔ رب العزت سے دعا گو ہوں عرب سے ایران و کشمیر سے ہوتا ہوا یہ سیدزادہ جو اب نور پور شاہاں کے قرب و جوار کو منور کر رہا ہے اسی نیر تاباں کی طرح ہمیشہ جگمگاتا رہے اور اس آستانے اور خانوادے کی علمی وراثت کو جس میں شاہ چن چراغ،باوا لال شاہ ،پیر مہر علی شاہ جیسے بطلِ جلیل ہیں کو مزید بڑھاوا دینے کا سبب بنے ۔آمین .

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply