دہشت گردی کی وجوہات اور اسکا تدارک

آج دہشتگردی کا عفریت پوری دنیا کے امن کیلیے سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے، پچھلی صدی سے لیکر آج تک بلا مبالغہ کروڑوں انسان اس ناسورکا شکار بن چکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری دنیا کے اہل فکر اس مسلے کی شدت کا رنگ، نسل، مذہب اور دیگر ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر نہ صرف جائزہ لیں بلکہ اس کے حل کے لیے عملی تجاویز بھی پیش کریں۔ دہشت گردی کی تاریخ، اقسام، اسباب، اثرات اور اسکے تدارک پر غور کرنے پر میرے نقطہ نظر کے مطابق یہ امور سامنے آتے ہیں کہ دہشت گردی کو ہم ریاستی، لسانی، نسلی، مذہبی اور معاشی اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

آج دنیا میں غیر ریاستی دہشت گردی کی بازگشت تو بڑی واضح ہے لیکن ریاستی دہشت گردی کا ذکر بوجوہ گول کر دیا جاتا ہے، حالانکہ غیر ریاستی دہشت گردی کو مہمیز دینے میں ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔پچھلی صدی کے آغاز میں جہاں مغرب میں صنعت و حرفت اور سائنسی ترقی کا انقلاب زبردست طریقے سے برپا ہورہا تھا، وہیں دنیا میں نوآبادیاتی مفادات کی کشمکش اور اقوام پر بزور طاقت قبضے کی جنگ نے جنگ عظیم اول کی شکل میں زبردست تباہی مچائی، بعد ازاں دوسری جنگ عظیم نےاقوام کے درمیان نسلی تفاخر کی عصبیت کی صورت میں اپنا بد ترین روپ دکھایا، اس جنگ کا ایندھن بھی کروڑوں انسان بنے اور اس نیلے آسمان کے نیچے آگ، خون، بارود اور نفرتوں کا راج رہا۔ ایٹم بم جیسے انسانیت کش ہتھیار متعارف کروائے گئے۔

جب اس جنگ کے شعلے ماند پڑے تو اسکی راکھ سے جہاں کافی حد تک نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا وہیں اسرائیل کی صورت میں ظلم، نا انصافی و بربریت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، برصغیر میں انڈیا اور پاکستان کی صورت جہاں دوممالک وجود میں آئے وہیں تقسیم کے وقت لاکھوں لوگ مذہبی جنون کا شکار بنے اور کشمیر کا مسلہ ان دونوں ممالک کو ورثے میں ملا جو بعد ازاں ایک رستے ہوئے نا سور کی شکل اختیار کر گیا۔ پھر دنیا کمیونزم اور کیپٹلزم کی تقسیم کا شکار ہوئی۔ دنیا ان نظاموں کےسرخیلوں، سوویت یونین اور امریکہ کے بلاکس میں تقسیم ہوئی، ویت نام میں اسی تقسیم کے اثرات کے طور پر امریکی مداخلت لاکھوں انسانوں کو نگل گئی، جنوبی اور شمالی کوریا، مشرقی اور مغربی جرمنی اسی تقسیم کی مزید مثالیں ہیں۔ بعد ازاں ویت نام کی تاریخ سوویت روس نے افغانستان میں مداخلت کی صورت دہرائی اور اسے اسکے اثرات کا یوں سامنا کرنا پڑا کہ اس جنگ میں ناکامی کے بعد کمیونزم کا جنازہ نکل گیا اور سوویت یونین تحلیل ہوگیا، بلقان کی ریاستیں بھی بکھر گئیں، وہیں دیوار برلن گرا دی گئی اور جرمنی متحد ہوگیا۔

یہ سرد جنگ بھی اپنے پیچھےظلم و بربریت کی ایک نئی داستان چھوڑ گئی۔ اب دنیا ایک یونی پولر ورلڈ کے طور پر وجود میں آئی اور دنیا کے یک وتنہا چوہدری امریکہ نے بڑی رعونت سے نیو ورلڈ آرڈر کے تناظر میں پوری دنیا کو اپنے اشاروں پر نچانے کا فیصلہ کر لیا، تہذیبوں کے تصادم کی بات ہوئی، کمیونسٹ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اسلام کو ایک نئے خطرے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ اسلام اور جہاد جو روس کو شکست دینے کیلیے امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا اب مجرم ٹھہرا۔ ادھر افغانستان میں جہادیوں کی صورت جو ایک پوری کھیپ تیار ہوئی تھی اسے ان کے ممالک نے اپنے اپنے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا، کہیں تزویراتی گہرائی اور مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروانے کے نام پر ان غیر ریاستی عناصر کی پیٹھ ٹھونکی گئی اور کہیں انھیں ویسے ہی اپنی بادشاہتوں کے لیے خطرہ سمجھ کر راندہ درگاہ بنا دیا گیا، نتیجتاً دنیا دہشت گردی کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔

ریاستی دہشت گردی اور ناانصافی کے ردعمل کے طور پر اب ان غیر ریاستی جہادی عناصر نے القاعدہ کی صورت میں ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جس نے جہاں جہاں دنیا میں مسلم آبادی پر نا انصافی ہو رہی تھی وہاں"جہاد" کا اعلان کیا اور شریعت کی بالادستی کے نام پر ہر ملک میں اپنے نظریاتی حمایتی بھرتی کرنے شروع کر دئیے، الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی جمہوری میدان میں %80 کامیابی کے باوجود جب اس کا راستہ روکا گیا تو جہادی عناصر کے ہاتھ جمہوریت کی ناکامی کی ایک عملی دلیل ہاتھ آگئی، اخوان المسلمون جیسے اسلامی نظریاتی اور جمہوری گروہوں کا وہاں کی حکومتوں نے ویسے ہی ناطقہ بند کر رکھا تھا وہ ظلم و بربریت کی ایک الگ داستان ہے۔

افغانستان میں روس کی ناکامی کے بعد وہاں کے وار لارڈز میں ملک پر قبضے کی زبردست جنگ چھڑ گئی جس کے ردعمل کے طور پر طالبان کی صورت میں ایک نئے گروپ کو مدارس کے طلباء کی شکل میں غیر معروف کردار ملا عمر کی قیادت میں ابھارا گیا، جلد ہی طالبان بد امنی سے تنگ عوام اور "بیرونی"سپورٹ کی وجہ سے افغانستان کے منظر پر چھا گئے۔ طالبان کی "جہاد"کے ذریعے کامیابی اور اخوان جیسی جمہوری فکر کی حامل قوتوں کا ریاست کی طرف سے بزور راستہ روکنے کی وجہ سےان غیر ریاستی جہادی سوچ کے حامل عناصر کے ہاتھ میں ایک نئی دلیل دے دی اور ایک الگ راستہ متعین کردیا۔ اخوانیوں اور غیر عرب ممالک میں بھی جمہوری طریقوں سے مایوس عناصر کی صورت میں القاعدہ کو بھرتی کے لیے ایک وسیع افرادی قوت میسر آگئی۔

ان جہادی عناصر نے جب اپنے سب سے بڑے ٹارگٹ امریکہ کے خلاف کارروائیاں شروع کی تو جواباً اس نے بھی ان کا پیچھا شروع کیا اور اپنی کارروائیوں سے اسے اسلام کے خلاف جنگ کا تاثر دیا جیسے بش کا صلیبی جنگوں کی بات کرنا۔9/11 کے واقعے کے بعد اس جنگ میں شدت آگئی، امریکہ نے ان غیر ریاستی عناصر کے خلاف اپنی من پسند کاروائی میں مدد نہ کرنے والی حکومتوں کو بھی اپنے دشمنوں کی صف میں کھڑا کرنے کی دھمکی دے دی۔ نتیجتاً ان جہادی قوتوں نے بھی امریکہ کی مدد کرنے والی ریاستوں کو اپنے دشمنوں کی صف میں کھڑا کردیا اورتکفیری سوچ کے تحت انہیں بھی کافروں کی مدد کرنے والے کافر قرار دے دیا۔

اب اس جنگ کا ایندھن پوری دنیا میں موجود عام عوام اور بالخصوص مسلم ممالک بن رہے ہیں، بعد ازاں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے کا فائدہ اٹھا کر مسلم ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اپنی اسلحہ انڈسٹری کو فروغ دینے کا شاطرانہ فیصلہ کیا، اس جھوٹ کا پہلا شکار صدام حسین کا عراق بنا، عراق اور افغانستان کی جنگ میں امریکہ اپنے پس پردہ مقاصدتو حاصل نہ کر سکا لیکن اپنے واحد چوہدری ہونے کا بھرم ختم کروا بیٹھا۔ یورپی اتحاد میں بھی اس کے اثرات کے طور پر شدید دراڑیں آئیں، روس نے اس ساری صورتحال کو بھانپتے ہوئے اپنےآپ کو پھر ایک مؤثر بین الاقوامی قوت کے طور پر منوانے کا فیصلہ کیا، آج دنیا دوبارہ بلاکس میں بٹنا شروع ہوگئی ہے، کل کے دوست دشمن اور دشمن دوست بن رہے ہیں۔ عراق میں صدام حکومت کےخاتمےکے بعد مشرق وسطی میں عرب بہار کا ظہور ہوا اور سالہا سال سے جمی جمائی کئی حکومتیں تہ وبالا ہو گئیں۔ نتیجتاً وہاں انارکی کا دور دورہ ہوا۔ جہادی عناصر نے اس صورتحال کو اور بین الاقوامی طاقتوں نے ان جہادی عناصر کو براہ راست یا بالواسطہ اپنے مفادات کے حصول کیلیے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ وسائل پر قبضے اور جغرافیائی غلبے کی اس جنگ میں "ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ"کے مصداق نعرے اور ہیں اور مقاصد کچھ اور۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلامی ممالک بالخصوص اس بے رحم اور استحصال سے بھرپور بساط کے مہرے ہیں، فرقہ واریت کو ایک دفعہ پھر بھرپور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے، عالم اسلام کو بالخصوص اور باقی دنیا کو بالعموم اس آگ اور خون کے کھیل میں عقل کے ناخن لینا ہونگے ورنہ مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں سے اٹھنے والے طوفان سے دنیا میں کوئی محفوظ نہ رہ پائے گا اور اپنے آپ کو بظاہر اس آگ کی تپش سے محفوظ سمجھنے والے ممالک کے آشیانے بھی اس آگ سے خاکستر ہو جائیں گے۔ دنیا کو انصاف، امن، باہمی برداشت اور رواداری پر مبنی ایک نیا ورلڈ آرڈر ترتیب دینا ہوگا، ورنہ دنیا کامقدر وقت سے بہت پہلے تباہی اور بربادی ٹھہرے گا۔

Facebook Comments

احسن سرفراز
بندگی رب کا عہد نبھانے کیلیے کوشاں ایک گناہگار,اللہ کی رحمت کاامیدوار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply