برما میں انسانیت سوز مظالم۔۔۔ سلمان اسلم

ظلم و ستم (آزمائش ) اسلام کی فطرت کا حصہ ہے۔ اسمیں آنے والا ہر ذی روح آزمایا گیا ہے اور آزمایا جائے گا۔ یہ اب سے تو نہیں۔۔ کیا  حضرت آدم علیہ السلام کو شجر ممنوعہ کی صورت میں آزمایا نہیں گیا تھا؟ کیا ایوب علیہ السلام نے 18 سال آزمائش میں نہیں گزارے ؟ کیا ابراھیم علیہ السلام کو آگ میں نہ ڈالا گیا ۔ اور اس سے بڑھ کر محبوب علیہ الصلوات والسلام کے جسم مبارک پہ طائف میں پتھر نہیں برسائے گئے تھے؟ نعلین مبارک سرخ رنگ خون سے آلود نہ ہوئے تھے ؟ کیا معاذاللہ ثم معاذاللہ العظیم کائنات عظیم بادشاہ کو اپنے محبوب ترین بندوں اور پھر اپنے حبیب پر کوئی شک یا گمان تھا کہ وہ پورا نہ اتریں گے؟ وہ بندگی بجا نہ لائیں گے؟ طائف کے موقع پہ تو عرش کے فرشتے آب ریزاں ہوگئے تھے اور غصب انکا دیکھنے والا تھا جب خدمت پاک میں حاضری فرمائی کہ محبوب حکم تو فرمائیں مسل کے رکھ دوں اس وادی کو ۔ کیا وہ آزمائش کم تھی جب محبوب پاک چارپائی مبارک پہ بے حال ہوئے جا رہے تھے کتنے دنوں کے فاقے سے، کیا ساری کائنات کا ذرہ ذرہ سونا جواہر نہ بنتا اگر مرے مولا سرکار اک لفظ ادا فرماتے۔ خدا کی قسم ہوجاتا ۔۔مگر نہیں، وہ آزمائش تھی آنے والے امت کے لیے سبق و درس تھا ۔ کہ آزمائشیں آئیں گی ،مگر پسپا نہیں ہونا ۔ہمت نہیں ہارنا ۔ کیا بلال بن رباح المعروف بلال حبشی رضی اللہ عنہہ سے بھی زیادہ ہیبت ناک و خوفناک عذاب و سختی کسی نے دیکھی ہے ؟ کیا ابوجندل رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد  جب واپس بھیجے جا رہےتھے تب روتے اور، اپنے ساتھ ہونے والا ستم کا دل لرزادینے والے حالات نہ سنائے تھے۔ لیکن یہ سب رب قدیر  کی  آزمائش ہے تاکہ معلوم ہو کون اپنے ایمان میں پکا و سچا ہے ۔۔۔
دور حاضر میں برما کی اندوہناکیاں دیکھنے سے بھی حالت غیر ہونے والی ہوتی ہے ۔
برما میں اس سے پہلے اس طرح کے مظالم کیے جاتے رہے۔ بادشاہوں کی طرف سے صرف کتابوں میں پڑھا ، لیکن ان مظالم میں بیشتر آج برما میں ہوتے ہوئے دیکھ لیے۔ دریائے نیل کے پانی کا رنگ سرخ ہوگیا تھا آج برما میں بھی انسانی خون سےسرخ پانی کے نالے بہتے ہوئے دیکھ لیے۔ انسانیت سوز ظلم کہ کسی کو ننگا کرکے گلے میں چھری سے ایسے نہر کرتے ہوئے دیکھا جیسے کہ اونٹ کو نہر کیا جاتا ہے تو انسانوں کو زندہ جلاتے ہوئے بھی دیکھ لیا۔ ریڑھیوں پہ انسانوں کی لاشوں کو کوڑا کرکٹ کی مانند لاد کر لے جانے کی داستان پڑھی تو زندہ انسانون کو درگور کرتے ہوئے دیکھ لیے۔ سب کچھ دیکھا پھر بھی حیران ہوں کہ نہیں پٹھا تو کلیجا نہ پٹھا اپنا ۔ عقل دھنک رہ گئی مگر دماغ کی نسیں اپنا توازن رکھ پائی ۔
خدایا آج تک بربریت کو، سنا پڑھا تھا آج آنکھوں نے دیکھ بھی لیا۔ حیران ہوں آنکھیں نم نہ ہوئیں جبکہ اپنے محبوب نے بے رخی دکھائی تو آنکھیں باہر کو آ رہی تھیں سانس جیسے زبان سے سرکتی ہوئی نظر آ رہی تھی اور وہ آج بھی بے رخی رکھائے دن میں ہزار بار بھی دکھائے تو ہزار بار مری سانس روح جسم سے نکلتی محسوس ہوتی ہے مگر انسانوں کو بچوں کو ماووں کو کٹتے مرتے ، نہر ہوتے جل کے راکھ ہوتے ہوئے  دیکھا مگرکچھ بھی نہ ہوا ۔۔۔۔۔ یاخدایا یہ بے حسی ہے مری یا ایمان کی دم توڑتی ہوئی حالت ۔میں نے تو مان لیا ایمان کمزور پڑگیا ماند پڑگیا مگر خدایا اسلامی دنیا کے باقی 55 ممالک اور عرب کے تعداد پہ مشتمل 42 ملکوں کے مسلمانوں کےایمانوں کو کیا ہوا ۔ لاکھوں کے عازم حج ادا کرنے والے ہر طرح سے اپنی حاضری ادھر لگواتے ہیں ، حج کرکے حاجی بھی برابر کہلوائے جاتے ہیں مگر حدیث پاک کے مفہوم پہ سوچتا ہوں کہ مسلمان اک جسد واحد کی مانند ہوتے ہیں اک حصے میں درد اٹھے تو پورا بدن تڑپے مگر ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارا بدن نہ تڑپا۔ ہم اپنے ہی عید کے عیدی میں اپنے جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے اسکے خون سے خود کو برکت کے لیے سرخ خون کا رنگ چڑھاتے ہوئے مصروف عمل ہیں اور اسکے بعد ہم مختلف لذتوں کے کھانوں میں مصروف رہے جبکہ جسد واحد کا اک حصہ ادھر اپنے تن بدن کے قربانی دے رہا ہے  ۔ کسی لمحے تو انہوں نے بھی سوچا ہوگا کہ خدایا ہمارے حصے میں بھی قربانی کے لیے جنتی بھیڑیں نازل فرما اور ہماری قربانی بھی قبول فرما۔ ۔۔۔
خدایا اتنے ہی الفاظ ہیں مرے پاس برما کے حال پہ رحم فرما ۔۔۔ انکی یہ قربانی باری عالی بارگاہ میں مقبول فرما۔

Facebook Comments

سلمان اسلم
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply