قربانی اور خواہش

قربانی کا مقصد کیا تھا؟…فرمایا اللہ کو گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔.. تو مقصد تھا تقویٰ۔ تقویٰ کیا ہے؟ بچنا۔ کس بات سے بچنا؟ اس بات سے کہ کہیں ہماری خواہش ہمیں خدا کی نافرمانی کی طرف نہ لے جائے۔ تو پھر کس چیز کو کچلنا مقصود ہے؟ خواہش کو۔ یعنی قربانی ہے خواہش کو کچلنے کے لیے۔ بھلا کس واقعہ کی یاد ہے یہ دن؟ اللہ کے دوست کی خواہش تھی کہ اس کا ایک بیٹا ہو۔ خدا نے ستاسی برس کی عمر میں  آخر خواہش پوری کر ہی دی۔ لیکن پھر جب وہ بیٹا تیرہ برس کا ہوا، باپ کا ہاتھ بٹانے کی عمر کو پہنچا تو خدا نے اپنے دوست کو آزمانے کے لیے کہا کہ اب اس پر چھری چلا دو۔ یعنی وہ خواہش جو مدتوں بعد پوری ہو کر اب فائدہ دینے کے قابل ہونے لگی تھی اس خواہش کو کچل دو۔ بیٹا تو بچ گیا مگر خواہش ذبح ہو گئی۔

خواہش کا اصل میں مسئلہ ہے کہ بڑھتی بڑھتی خدا بن جایا کرتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔
اب دیکھیے ہوا کیا۔ مسلم نے اللہ کی بجائے اسی خواہش والے معبود کے نام یہ قربانی کر دی۔ ہیں وہ کیسے؟؟۔۔۔۔۔ وہ تو اس پر اللہ کا نام لیتا ہے۔ اچھا ٹھہریے۔ وہ اللہ روزپانچ مرتبہ چند منٹ کے لیے مسجد بلاتا ہے مگر اس مسلم کو تو فرصت ہی نہیں ملتی۔ وہ کہتا ہے یہ پہلا فرض ہے تمہارا، قیامت کو سب سے پہلے اس کا پوچھا جائے گا، مگر مسلم تو ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ خواہش کا خدا نہیں جانے دیتا۔ پھر اللہ کہتا ہے میرے بندوں کی عزت و مال کی حفاظت کرو۔ یہاں تو پسندیدہ مشغلہ ہی غیبت ٹھہرا۔ باقی رہا مال، وہ تو جتنا دوسروں سے کھینچا جا سکے اتنا ہی کم ہوتا ہے۔ بلکہ بزنس کا تو مزا ہی تب آتا ہے جب جائز حد سے زیادہ منافع جھوٹ اور دھوکے سے نکلوا لیا جائے۔ کیا نماز پڑھنے پہ پیسہ لگتا ہے؟ نہیں۔ بڑی مشقت ہوتی ہے؟ نہیں۔ کیا غیبت چھوڑنے پر پیسہ یا مشقت لگتی ہے؟ بالکل نہیں۔

تو جو انسان اللہ کے سختی سے کہنے کے باوجود یہ چھوٹے اور آسان کام نہیں کر سکتا وہ کیسے اللہ کا سخت حکم نہ ہونے کے باوجود تیس چالیس پچاس ہزار کا جانور خرید لیتا ہے؟ جس کی زندگی یہ ہے کہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔فرض تو نہیں ہے نا، اور اس بندے نے تو کبھی فرائض کی فکر بھی نہیں کی۔ پھر اتنا خرچہ کیوں؟ اور اتنی مشقت جو اس جانور کو خریدنے سے لے کر اس کا گوشت تقسیم کرنے تک جاری رہتی ہے، کیوں اٹھائی جاتی ہے؟ سمجھ میں آیا؟ بھائی نماز کیوں چھوڑتا ہے؟ خواہش کا خدا نہیں پڑھنے دیتا۔ وہ کہتا ہے مجبوری کا بہانہ کر کے لگے رہو خواہش کی تکمیل میں۔ غیبت کیوں نہیں چھوڑتا؟ خواہش کا خدا نہیں چھوڑنے دیتا۔ غیبت کی خواہش تسکین مانگتی ہے۔ تو قربانی کیوں کرتا ہے؟ خواہش کا خدا کہتا ہے کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب دائیں بائیں والے ہمسائے  قربانی کر رہے ہیں تو پھر ناک بچانے کی خواہش قربانی کرواتی ہے۔ اگر غریب ہو تو ادھر ادھر سے پیسے لے کر قربانی کرو ورنہ تمہاری ناک کٹ جائے گی۔ اور اگر امیر ہو تو لاکھ روپے والا جانور خریدو تاکہ دنیا کو تمہاری عظمت کا پتہ چلے۔ یعنی اپنی شان و شوکت کی دھاک بٹھانے کی خواہش۔ جو قربانی خواہش کو کچلنے کے لیے کرنی تھی وہی قربانی خواہش کی تسکین کے لیے ہو رہی ہے۔ قربانی کا خون خواہش کو پلا کر اسے مزید تگڑا اور توانا کیا جا رہا ہے۔ اگر قربانی کی شرط ہوتی کہ تمام لوگوں سے چھپا کررکھنی ہے اور دس ذوالحجہ کی رات کے اندھیرے میں کرنی ہے تو پھر یہ جانوروں کی منڈیاں کہیں نظر نہ آتیں۔ بستی میں کہیں اکا دکا کوئی مومن ہی قربانی کیا کرتا۔

Facebook Comments

نوید منظور
facebook.com/nvd286

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply