بازگشت کے بونے۔۔۔شاہد خیالوی

اس بستی کے لوگ شروع سے ایسے نہیں تھے۔ آس پاس کی بستیوں والے بتاتے ہیں کہ یہ جو عجیب و غریب لوگ نظر آتے ہیں ان سے بہت مختلف تھے ان کے بڑے۔ اونچے لمبے قد والے، اونچی ناک، خوبصورت رنگ، روشن آنکھیں، صبیح پیشانی اتنے بڑے اور اونچے سروں پر جب پگ باندھتے تو اس پگ کا آخری بل بادلوں کو چھو رہا ہوتا۔ ایک اور عجیب و غریب بات بھی سننے کو ملی کہ ان لوگوں کے دلوں سے پاک پانی کے چشمے ابلتے تھے شیشے جیسے دلوں سے جب وہ پانی گذرتا تو ان کے دل اور اجلے ہوجاتے۔ دھوپ جب اس پانی میں سے گذرتی تو قوس قزح سے خوبصورت رنگ بناتی۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ روئی کے تھے لیکن ان روئی کے ہاتھوں میں وہ کرامت تھی کہ پہاڑوں کو کاٹ سکتے تھے، زمینوں کو کھود سکتے تھے ، بڑے بڑے درختوں کو زمیں بوس کر سکتے تھے۔ بستی چاھل کے چاچا اللہ ڈوایو کا باپ اس زمانے میں پڑھنا لکھنا جانتا تھا سننے میں آیا ہے کہ اس نے یہ پڑھنا لکھنا انہی لوگوں کے بزرگوں سے سیکھا تھا۔

اس نے ایک جگہ لکھ رکھا ہے کہ ان لوگوں کی آنکھوں سے شبنم کی پھوار نکلتی تھی اس پھوار کا کمال یہ تھا کہ وہ جس کو بھی دیکھتے اس پر یہ پھوار پڑتی اور اس کا جسم تروتازہ ہو جاتا اور چہرے کی چمک بڑھ جاتی۔ اللہ سائیں نے انکی گندم بھی عجیب بنائی تھی۔ ایک دانہ ہوتا تو عام سے حجم کا تھا لیکن پتا نہیں کیا ہوتا کہ جب تک یہ دانا ایک آدمی کے ہاتھ میں رہتا چھوٹا سا رہتا لیکن جب دو ہتھیلیاں مل کے اس کو پیستیں تو وہ ٹیلے جتنا ہو جاتا بس پھر کیا ایک ہی دانے سے ایک دن نکل جاتا۔ پھر یہ اس طرح کیسے ہو گئے کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں سے شعلے نکلنے لگتے ہیں، ایک بندہ بہت اونچی قامت پر ہوتا ہے اچانک اس کا قد گھٹتے گھٹتے آٹھ انچ کا رہ جاتا ہے۔ دل میں سے کالے سیاہ رنگ کا دھواں خارج ہوتا ہے۔ پیشانیاں سکڑ کر انگوٹھے جتنی وہ جاتی ہیں۔ یہ بیماری تب تک رہتی ہے جب تک یہ ایک دوسرے کے سامنے رہیں جونہی یہ عام لوگوں میں جاتے ہیں تو پھر ویسے قد، ویسی آنکھیں، ویسی پیشانی اور وہی طمطراق۔ اس بیماری نے ان کی گندم پر بھی حملہ کیا ہے گندم کے دانے چیونٹی کے پاؤں جتنے ہو جاتے ہیں اور سخت اتنے کے چاچا میرو کی چکی بھی مشکل سے پیس پاتی ہے۔ ایک آدمی ایک من گندم کھا کر بھی سیر نہیں ہوتا ۔ سننے میں آیا ہے کہ یہ بیماری ان کی عورتوں میں پیدا ہوئی۔ سب سے پہلے دو عورتوں میں نام و نسب پر جھگڑا ہوا۔ ایک نے کہا میں فلاں اور تو فلاں، دوسری نے کہا میں فلاں اور تو فلاں۔ بس ان کلمات کے نکلنے کی دیر تھی کہ ان عورتوں کے ان کے مردوں کے اور بیٹیوں بیٹوں کے قد چھوٹے ہوتے چلے گئے۔ آنکھوں سے پھوار کی جگہ آگ پھوٹنے لگی۔ دل سے سیاہ دھواں نکلنے لگا۔ بھڑولی میں پڑی گندم سخت اور چھوٹی ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سننے میں آیا ہے کہ شام کو پوری بھڑولی سے ایک فرد کا پیٹ بھی نہیں بھرا۔ اب کیا تھا ان کے منہ سے سیٹی جیسی آواز نکلنا شروع ہو گئی بڑی منحوس آواز اس نے ساری بستیاں کی عورتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بس اس دن سے جب یہ عورتیں بچے کو دودھ پلاتی ہیں تو ان کے منہ سے ایک سیٹی جیسی بھیانک آواز نکلتی رہتی ہے اس آواز کو سن کر شیشے جیسا دل کالا سیاہ ہو جاتا ہے، آنکھوں کی پتلیوں میں آگ بھر جاتی ہے۔ یہ منحوس سیٹی کی آواز جب تک آتی رہتی ہے بھڑولی میں پڑی گندم چھوٹی ہوتی رہتی ہے۔ تو ان کے بزرگوں نے علاج نہیں کروایا اپنی عورتوں کا۔ بیٹا بہت علاج کروایا کچھ عورتوں کو بیس بیس سال کے لیے میلعت بابا کی درگاہ پر چھوڑا لیکن اس بیماری نے کم کیا ہونا تھا اور بڑھتی گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ ان میں سے بعض لوگ اسی میلعت کی درگاہ سے فیض پا گئے۔ اب ان کے قد اپنے آباء سے بھی اونچے ہیں میلعت کی درگاہ سے فیض پانے والوں کی گندم کا حجم تھوڑا بڑھ گیا لیکن جونہی یہ ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اس منحوس سیٹی کی آواز ان کے کانوں میں بازگشت کی طرح گونجنے لگتی ہے۔ پھر یہ اچانک چیونٹیوں جتنے ہو جاتے ہیں۔
بابا اس بیماری کا نام کیا ہے
بیٹا اسے من وتو کی بیماری کہتے ہیں۔

 

Facebook Comments

شاہد خیالوی
شاہد خیالوی ایک ادبی گھرا نے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ معروف شاعر اورتم اک گورکھ دھندہ ہو قوالی کے خالق ناز خیالوی سے خون کا بھی رشتہ ہے اور قلم کا بھی۔ انسان اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور خالق کا شاہکار ہے لہذا اسے ہر مخلوق سے زیادہ اہمیت دی جائے اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا لیا تو قلم کوآسودگی نصیب ہو گی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply