مکالمہ کانفرنس کا پیر

یوں تو الحمدللہ مکالمہ کو "اللہ والی ویب سائیٹ" ہونے کا شرف حاصل ہے کہ اکثر متقیوں کا یہی ٹهکانہ ہے۔ مرشدی انعام رانا نے مکالمہ پر ہمارے لکهنے کی راہ ہموار کی اور یوں لوگ ہمیں بهی لکهاری شمار کرنے لگے البتہ ہم خود کو لکهاری بالکل نہ سمجهتے تهے تا وقتیکہ فیس بک پر "میں ہوں لکهاری، میں ہوں لکهاری" کی گونج نہ سنائی دی. جب بےشمار لوگوں کو لکهاری ہونے کا دعویدار دیکها تو سوچا اتنے لکهاریوں میں ایک آدها میرے جیسے بهی چل ہی جائےگا… جیسے اکثر پاکستانی پهٹا ہوا نوٹ زیادہ نوٹوں میں چلا دیتے ہیں۔ تاہم ہمیں اپنے لکهاری اور دانشور ہونے کا کامل یقین تب ہوا جب انعام رانا نے مہمانوں کی فہرست شائع کی اور مہمانان گرامی میں ناچیز کا نام بهی شامل کردیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ فہرست میں رانا تنویر عالمگیر کے نام کے ساتھ "محترم" کا لفظ بهی لکها گیا تها۔ خیال آیا کہ خدا جسے چاہتا ہے، عزت سے نوازتا ہے۔ اگر خدا نے مجهے علم و دانش سے نوازا ہے تو لوگوں کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ میرا اکرام کریں، اگر مجھ میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں اور لوگ مجهے لیڈر سمجهتے ہیں تو اس میں برا بهی کیا ہے؟

معزز مہمانوں میں میرا نام شامل کرنے پر میں نہ صرف انعام رانا کی مردم شناشی کا قائل ہوچکا تها بلکہ مجھ پہ لیڈری کا نشہ بھی مکمل طور پر سوار ہوچکا تها نیز مجهے مکالمہ و مکالمہ کانفرنس سے حد درجہ پیار بھی ہوچکا تها۔ البتہ لوگوں کی بےحسی پر غصہ آرہا تها کہ کمبخت انهوں نے ابهی تک ٹکٹ کیوں نہیں خریدے؟ یہی بےحس ہمارے معاشرے کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔

اس کے فورا بعد مکالمہ کانفرنس میں ہونے والے اپنے خصوصی خطاب کی تیاری شروع ہوگئی۔ سوچا مولویوں پہ غصہ بهی نکالنا ہے، پهر انهیں رام بهی کرنا ہے۔ لبرلز پہ بهی تنقید کرنی ہے، ملحدوں کو بهی مسلمان ہونے کی اشارتاً دعوت دینی ہے۔ سامعین کو گرویدہ بنانا ہے، چاہنے والوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ آپ کی چاہت کا فیصلہ نا صرف درست تها بلکہ آپ کی نظروں نے واقعی مرد حق کا انتخاب کیاہے۔ اس طرح کے اشعار پڑهنے ہیں… ایک ہی صف میں کهڑے ہوگئے محمود و ایاز…. تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں…. دین ملا فی سبیل اللہ فساد وغیرہ وغیرہ….. علامہ اقبال کے ترک مہمانوں والا واقعہ بهی ٹهیک رہے گا جسے لیکر اقبال نے مولوی پہ تنقید کی…" ورائے سجدہ غریبوں کو اور کیا ہے کام" اور ہاں "مولوی صاحب جنت میں" بهی ٹهیک ہے… نہیں نہیں، "رندی اور زاہد" زیادہ مناسب ہے۔ ساتھ اس طرح کے جملے " "مسلمانو! اسلاف کو پکڑ لو"… ارے نہیں نہیں اس کا تو مولوی غلط مطلب نکال لیں گے… مسلمانو! اسلام کو تهام لو… اسلام ہی میں نجات ہے… سوچو ہم کہاں آگئے….

میرے عزیز ہموطنو..
گهٹا سر پہ ادبار کی چها رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکهلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
یہ چاروں طرف سے ندا آرہی ہے
کہ کل کون تهے، آج کیا ہوگئے ہم
ابهی جاگتے تهے، ابهی سو گئے ہم
مسلمانوں ہندوستان کے مایہءناز شاعر نے یہ اشعار ہمارے آج کے لیے ہی کہے تهے وغیرہ وغیرہ…. اس کے بعد اسلام کی موجود حالت کا نقشہ، مولویوں کے اسلام پر مظالم گنواؤں گا..
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاؤں ہائے دل
خطاب تیار کرنے کے بعد روز اس پر ایک نظر ڈالتا اور کهیتوں میں درختوں اور پودوں کو اپنا فقید المثال خطاب سنا کے آتا اور ان سے ڈهیروں داد وصول کرتا… اسی اثناء میں مجهے اپنی خوش الحانی سے بهی عشق ہوگیا۔
مکالمہ کانفرنس میں دن 2بجے کے قریب جب میں ہال میں داخل ہوا تو ہجوم قابل دید تها۔ بہت سے لوگ عقیدت سے ملنے کو لپکے۔ چاہنے والوں کے ہجوم میں سٹیج تک پہنچ گیا، اسٹیج کے قریب فرنٹ لائن میں مہمان خصوصی مکرمی و مرشدی سید طفیل ہاشمی تشریف فرما تهے، ان کے ساتھ قابل صد احترام ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب بیٹهے تهے۔۔۔ محترم عمار خان ناصر صاحب، مفتی محمد زاہد صاحب، خالد محمود صاحب، پروفیسر محمد شہباز منج صاحب، محترمہ صغریٰ صدف صاحبہ اور انتہائی خوش اخلاق و ملنسار درویش صفت جناب عامر ہاشم خاکوانی صاحب بھی اسی صف میں تشریف فرما تهے۔ مجهے بهی انہی کے ساتھ بیٹهنے کا حکم ملا۔ سب نے اپنے ساتھ کرسی اور دل میں بیک وقت جگہ دی. ہمارے ساتھ ہی دیگر معزز مہمان محترم وقاص خان نوجوان، میچور پرسنیلٹی سعید ابراہیم صاحب، حساس و حسین مصنفہ سعدیہ سلیم بٹ بهی تشریف فرما تهیں۔ سب کو آداب عرض کیا۔

ذرا سائیڈ پہ نظر گئی تو دادا فرنود عالم غصے میں بهرے دکهائی دئیے۔۔۔ شاید انهیں ہمیشہ کی طرح وقت کی کمی کا غصہ تها۔ لالہ عارف خٹک کو دیکها تو میری طرف دیکھ کے مسکرا رہے تهے۔ ان کی معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر سوچا کہ لالہ سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔ مرشدی انعام رانا پہ نظر گئی تو مجهے گهور رہے تهے… آنکهیں آن لائن ہوئیں تو کہہ رہے تهے کہ ہتھ ہولا رکهنا، نعرے نہ لگوا دینا.. عائشہ اذان کو سوچوں میں گم پایا.. سمجھ گیا کہ سوچ رہی ہے " اچها کیا اس کی کتاب پڑهنے سے انکار کردیا تها" جیسا خود ہے، ویسی ہی کتاب لکهی ہوگی۔ صباء فہیم دیکھ کر ہنس رہی تهی… اے لو… میں نے اسے "سر" کہا تها .. اس کی کتاب میں کیا ہوگاجو پڑهنے کی خواہش کر بیٹهی….. ڈاکٹر اسمارا پہ نظر گئی… ہوووووں.. کتاب تو ٹهیک ہی لکهی ہے …پر…. خیر سانوں کی…. ڈاکٹر زری….. ملتان میں بہتیرا چهپی اس سے مگر یہاں اس بڑبولے سے ملنا ہی پڑے گا…. سیدہ آپی فرح رضوی کی آنکهوں میں اپنائیت اور محبت کی چمک دیدنی تهی… مرشد حافظ صفوان عجیب و غریب نظروں سے دیکھ رہے تهے جیسے اندر ہی اندر غصے سے دہک رہے ہوں… یہ انعام نے بهی نا ایسے ہی اس کو سر پہ چڑها لیا… یہ ضرور دین کا نقصان کرے گا… ثاقب ملک بڑے ریلیکس دکهائی دئیے جیسے انعام رانا سے کہہ رہے ہوں.. " ہور چوپو"

بهائی ظفراقبال مغل، عامر کاکازئی اور خوبصورت بهیا محسن حدید بڑے خوش ہیں اور اشاروں میں کہہ رہے ہیں کہ اگر اسٹیج پہ نہ گئے تو تمہاری خیر نہیں… خوبصورت دل و دماغ کے مالک محترم جین سارتر (رانا اظہر کمال) نے ہمارے اسٹیج پہ آنے کی نوید سنائی۔ اسٹیج پہ پہنچ کر جیب میں ہاتھ ڈالا تو تقریر والی پرچی ندارد…
ہاتھ پاوں پهول گئے… دل کو سنبهالا کہ ٹهہرو… ابهی اور بهی جیبیں ہیں… رعشے کے عالم میں سب جیبیں دیکه ڈالیں… کاغذ کہیں نہ ملا… تمام ہال آنکهوں کے سامنے چکر کهانے لگا. دل نے زور زور سے دهڑکنا شروع کردیا… ہونٹ خشک محسوس ہوئے۔ جی چاہا زور زور سے رونا شروع کردوں۔ بے بسی کے عالم میں ہونٹ کاٹنے لگا۔ میں ایک نامعلوم طاقت کے زیراثر کهڑا تها، دنیا میری آنکهوں کے سامنے تاریک ہورہی تهی۔ تقریر شروع کہاں سے کرنا تهی… ختم کہاں پہ کرنا تهی… ابتدا میں کونسا شعر تها… بڑی مشکل سے کہا.. میرے عزیز ہموطنو…. آواز بہت باریک نکلی.. دو چار لوگ ہنس پڑے… گلے کو صاف کیا.. کچھ اور لوگ ہنس پڑے… جی کڑا کر کے کہا میرے عزیز ہموطنو… آواز بہت بلند نکلی… اس پر بہت سے لوگ کهلکهلا کے ہنس پڑے…
پهر ذرا سنبهل کے کہا… میرے عزیز ہموطنو…. اس کے بعد ذرا دم لے کے کہا… میرے عزیز ہموطنو… اب کے لوگوں کی ہنسی سے میں جل گیا.. اپنی توہین برداشت نہ ہوئی… اتنے میں اکثر لوگ اٹھ کهڑے ہوئے… کچھ لوگوں نے موقع کو غنیمت جانا اور میری طرف لپکے.. میرے کانوں میں کافی نامناسب جملے پہنچ رہے تهے۔ یہ سن کر میں گیٹ کی طرف بهاگا۔ مجهے اپنے پیچهے مشتعل ہجوم بهاگتا محسوس ہوا… میں نے اپنی رفتار تیز کردی اور ذرا اوٹ میں ہوکر ایک ٹهیلے کے نیچے چهپ کے بیٹھ گیا۔ مشتعل ہجوم میرے پاس سے گزر رہا تها۔

Advertisements
julia rana solicitors

(یہ خیال پطرس بخاری کے مضمون "مرید پور کا پیر" سے لیا گیا ہے)

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply