جمہوری سلطان اور کپتان

شہزادی مریم : یہ لیجئے تازہ پھل، آج ہی چچا جان نے سرگودھا سے بھجواے ہیں

نواب صاحب : بہت خوب ذائقہ ہے ، سبحان الله. ہم ایک بات سوچ رہے تھے کیوں نہ اس برس ماہ ربیع الاول میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجاز مقدّس چلیں

شہزادی مریم : بہت عمدہ خیال ہے، ہم ابھی ابّا حضور سے اس بابت مشورہ کرتے ہیں

شہزادی مریم : آداب، ابّا حضور

بادشاہ : جیتی رہو دختر شریف

شہزادی مریم : آپ کی طبیعت کچھ ناساز معلوم ہوتی ہے ابّا حضور

بادشاہ : دل کی میری بیقراری مجھ سے کچھ نہ پوچھو
شب کی میری آہ و زاری مجھ سے کچھ نہ پوچھو
آپ کہیے کیسے آنا ہوا

شہزادی مریم : کپتان صاحب اس برس ماہ ربیع الاول میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجاز مقدّس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں

بادشاہ : حد ادب مریم، میں دیکھ رہا ہوں جب سے آپ کو چند ارب روپوں کا مالک بنایا گیا ہے تب سے آپ کچھ گستاخ ہو گئی ہیں، آپ میرے سامنے کپتان کا تذکرہ کر رہی ہیں

شہزادی مریم : معذرت خواہ ہوں مگر میں تو اپنے مجازی خدا، سابقہ کپتان، نواب صاحب کے بارے میں بات کر رہی تھی

بادشاہ : اوہ میں کچھ اور سمجھا، خیر آپ کہیے

شہزادی مریم : میں یہ کہہ رہی تھی کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم سب ماہ ربیع الاول میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے واسطے حجاز مقدّس کا قصد کریں

بادشاہ : یہ بہت فضیلت کی بات ہے مگر ریاست کے حالات کچھ اچھے نہیں، پھر بھی ہم اس پر ضرور سوچیں گے
دیکھو تو یہ شور کیسا ہے

(شہزادی جھروکوں سے باہر کی جانب جھانکتے ہوے)

ابّا حضور، قلعے کی فصیل کے ساتھ تا حد نگاہ عوام کا ایک جم غفیر موجود ہے

وزیر داخلہ : آداب عالی جاہ، اجازت کے بغیر مخل ہونے کی معافی چاہتا ہوں، "کپتان آن پہنچا

بادشاہ : یہ کیسی جرات ہے، تمہیں معلوم ہے، مجھے کپتان کا تذکرہ قطعا پسند نہیں

وزیر داخلہ : آپ کا حکم سر آنکھوں پر، مگر کپتان خان قلعے کی دیواروں کو گرانے کا عزم لے کر ایک جم غفیر کے ہمراہ پہنچ چکا ہے

بادشاہ : فورا امیر پنجاب سے رابطہ کرو ان سب کو وہاں کیوں نہ روکا گیا

وزیر خزانہ : تسلیمات، ابھی ابھی خبر آ ئی ہے کہ ایک اور کپتان قلعے کی جانب چل نکلا ہے

بادشاہ : کیا تم میں سے کوئی بھی میری ازیتوں سے واقف نہیں، کون کپتان

وزیر خزانہ : ایک چھوٹے سے مدرسے کو چلانے والا کپتان اپنے چند ساتھیوں کے قتل کا بدلہ لینے کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچ رہا ہے

بادشاہ : تم سب کے ہوتے ہوے یہ کیا ہو رہا ہے میری پر سکون ریاست میں، چند فسادی کپتان, میرا مطلب ہے انتشار پھیلانے والے لوگ نہیں سنبھالے جا رہے
میں ابھی حکم دیتا ہوں کہ کسی بھی انتشار پھیلانے والے کو گرفتار کیا جائے یا مزاحمت پر سر قلم کر دیا جائے اور اس کے لیے جتنی طاقت کی ضرورت ہو وہ استعمال کی جائے

وزیر دفاع : عالی جاہ, فوج کے کپتان نے عوام کے خلاف آپ کے دیے گئے کسی بھی حکم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے

بادشاہ : مشیر خارجه، آپ فورا ہمارے دوست ملک سے رابطہ کیجیے اور کسی بھی ہنگامی حالت سے نبٹنے کے انتظامات کیجیے

مشیر خارجه : حضور والا، حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوے دوست ملک نے پہلے ہی سے دو خصوصی طیارے بھیج رکھے ہیں جو آپ کی بہن کے نام سے منسوب ہوائی اڈے پر موجود ہیں

بادشاہ : شہزادی مریم

شہزادی مریم : جی ابّا حضور

بادشاہ : نواب صاحب سے کہو کہ عمرہ کے سفر پر جانے کے لئے زور و شور سے تیاریاں شروع کی جایں

شہزادی مریم : جو حکم ابّا حضور

وزیر قانون : خبر ہے کہ عدالت عالیہ کے قاضی نے آپ کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے

بادشاہ : اس کی یہ جرات

وزیر قانون : حضور والا “سابقہ” قاضی صاحب کی مدت ملازمت ختم ہو چکی ہے

وزیر معدنیات : عالی جاہ, عوام نے دوست ملک کے طیاروں کا تیل استعمال میں لانے کے بعد طیاروں کو بحفاظت ثقافتی ورثے کے محکمہ کے سپرد کر دیا ہے

بادشاہ : ابھی تک میرا رابطہ امیر پنجاب سے کیوں نہیں کروایا گیا

وزیر اطلاعات : آداب, بہت ہی بری خبر ہے، آپ کے دست راست امیر پنجاب کو قتل کے مقدّمے میں گرفتار کر لیا گیا ہے

بادشاہ : آج کونسا دن ہے

وزیر مذہبی امور : محرم الحرام کا مہینہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ماہ صفر کی شروعات ہے

بادشاہ سلامت اپنا شاہی جبہ اور تاج اتارکر بیت الخلا کی جانب جاتے ہوے : تازہ وضو کر لوں، آپ سب یہیں
میرا انتظار کیجیو، میں ذرا ابا جی کی قبر پر سلام کر کے ابھی آیا
ایک صاحب نہایت جلدی جلدی دربار کے اندر داخل ہوتے ہوے : تسلیم حضور والا، میں آپ سے تنہائی میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں

بادشاہ : آپ تشریف رکھیے، عابد کو بھیجا ہے دہی بھلے لینے کے واسطے بس آتا ہی ہو گا، تب تلک آپ تارڑ صاحب سے مشورہ لیجیے

عمر دراز مانگ کر لاے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

~ بہادر شاہ شریف کی آپ بیتی “کپتان بیتیاں” سے ایک اقتباس

Facebook Comments

سہیل اجنبی
ایک سافٹ ویئر انجنیئر، اپنی مٹی کے ساتھ محبّت کرنے والا عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply