آزاد بھارت میں اگر دہلی کی اردو صحافت کی بات کی جائے تو محفوظ الرحمٰن کا نام ضرور لیا جائے گا۔ آپ نہ صرف اردو بلکہ ہندی اور انگریزی میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ صحافت کے علاوہ، مرحوم محفوظ الرحمٰن ایک عمدہ مترجم اور مصنف بھی تھے۔ اگرچہ انہوں نے کئی اخباروں کے ساتھ کام کیا، لیکن ان کی شناخت زیادہ تر “قائد” لکھنؤ اور “دعوت” نئی دہلی سے بنی۔ “دعوت” کا شمار ایک فکری اخبار کے طور پر ہوتا ہے، جس کے وہ چیف ایڈیٹر بھی رہ چکے تھے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اپنی چار دہائیوں پر محیط صحافتی زندگی میں محفوظ الرحمٰن صاحب نے اصولوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
آج یہاں محفوظ الرحمٰن جیسے عظیم صحافی کی وراثت کو یاد کرتے ہوئے، میں بےحد خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔ آپ سب کی طرف سے، میں انہیں دلی کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ شاید انہیں یاد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ ہم ان کی تحریروں کو پڑھیں اور ان کے مشن کو آگے بڑھائیں تاکہ اقدار پر مبنی صحافت، جو آج فراموش کی جا رہی ہے، دوبارہ سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ اپنائی جائے۔
بغیر کسی تاخیر کے، میں ڈاکٹر سید احمد خان صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے سترہویں محفوظ الرحمٰن یادگار لیکچر کے لیے مجھے منتخب کیا۔ اس انتخاب میں میری قابلیت سے زیادہ، ڈاکٹر صاحب کی محبت کا دخل ہے۔ سچ کہوں تو، ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات چند ماہ پہلے ہی ہوئی ہے، لیکن میں ان کی شخصیت اور خدمات سے بے حد متاثر ہوں۔ چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ اور شیریں زبان ان کی پہچان ہے، اور اردو کا فروغ ان کا مشن۔ اپنے ذاتی تجربے اور اردو حلقے کے دوستوں کی آراء کی بنیاد پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اردو زبان کی ترقی کے لیے بےپناہ محنت کی ہے۔ وسائل کی کمی کے باوجود، وہ سال بہ سال اردو کے حوالے سے پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر سید احمد خان صاحب نے اردو دنیا سے وابستہ گمنام ادیبوں، قلمکاروں اور صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اعزازات سے نوازا۔
محبانِ اردو کی اس جماعت میں، میں ایک معمولی سا رکن ہوں۔ اگرچہ میرا سبجیکٹ سیاسیات اور تاریخ رہا ہے، مگر اردو زبان اور صحافت سے میرا تعلق کافی پرانا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ میں نے اپنے صحافتی سفر کا آغاز اردو پریس سے کیا تھا۔ پٹنہ سے شائع ہونے والے ایک مقبول اردو اخبار نے مجھے پہلی بار ایک پلیٹ فارم فراہم کیا، جہاں بطور صحافی اور مضمون نگار میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یقین کیجیے، وقت کے ساتھ اردو سے میرا رشتہ مزید مضبوط ہوا ہے۔ آج میں پہلے سے کہیں زیادہ اردو میں مضامین لکھتا ہوں اور انہیں خود کمپیوٹر پر ٹائپ کرتا ہوں۔ انہی تجربات اور مطالعات کی بنیاد پر، آج میں آپ کے سامنے عصری صحافت کے بارے میں چند خیالات پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار کا غلط استعمال نہ ہو۔ مگر اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی سیاسی لیڈر خود ہی تمام فیصلے لینے لگتا ہے، تو جمہوریت پر آمریت کے خطرات منڈلانے لگتے ہیں۔ جمہوریت میں اقتدار کی مرکزیت اکثر عوامی فلاح کے لیے مضر ثابت ہوتی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ عوامی اداروں کے اختیارات کا مناسب بٹوارا کیا جائے اور اختلافِ رائے کو دبایا نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے نظریہ سازوں نے حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کو آئینی ضمانت دی ہے۔ مثال کے طور پر، مقننہ کا کام قانون بنانا ہے؛ عاملہ کا کام قانون کو عملی جامہ پہنانا ہے؛ جبکہ عدلیہ کا کردار یہ یقینی بنانا ہے کہ سب کچھ آئین کے مطابق چل رہا ہے۔ اس پوری کارروائی میں میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔
حالانکہ بھارت کا آئین صحافیوں کو کوئی خصوصی مراعات فراہم نہیں کرتا، پریس کے بارے میں آئین میں کوئی تفصیلی گفتگو موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ایک صحافی کو جو حقوق حاصل ہیں، وہ اسے بطور شہری حاصل ہیں۔ صحافی اپنی بات رکھنے کی آزادی آئین کی دفعہ ۱۹ سے اخذ کرتا ہے، جو شہریوں کو اظہارِ خیال کی آزادی فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے بغیر کسی بھی جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اظہارِ رائے کے حقوق ہمارے آئین کے بنیادی حقوق کا حصہ ہیں۔ بنیادی حقوق کسی بھی جمہوری آئین کی روح ہوتے ہیں کیونکہ یہ شہریوں کو ریاست کی زیادتیوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں، اور اسی لیے انہیں کسی بھی صورت میں واپس نہیں لیا جا سکتا۔ ملک کے معمارانِ آئین نے بنیادی حقوق کی اہمیت کو تسلیم کیا اور ان پر بہت زور دیا ہے۔ بھارت کے آئین کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بنیادی حقوق سے متعلق تمام اختیارات کو واضح طور پر درج کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں ان پر کوئی بڑا اختلاف نہ ہو سکے۔
تاہم المیہ یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست، جس کا آئین اظہارِ رائے کو بنیادی حق کا درجہ دیتا ہے، وہاں میڈیا کی ساکھ پر بڑے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ آخر کچھ تو غلط ہے؟ آخر کیوں اکثریتی آبادی، جن میں دلت، آدی واسی، اقلیتیں، پسماندہ طبقات اور خواتین شامل ہیں، کا بھروسہ میڈیا سے کم ہوتا جا رہا ہے؟ کیا یہ اس لیے تو نہیں کہ محکوم طبقات کے مسائل مین اسٹریم میڈیا میں اکثر جگہ نہیں بنا پاتے؟ آخر کیوں میڈیا جو دن رات جمہوریت کی بات کرتا ہے، اس کے نیوز رومز کا ماحول غیر جمہوری ہے؟ آخر کیوں محکوم طبقات اور خواتین کی نمائندگی اخباروں اور نیوز رومز میں آج بھی اطمینان بخش نہیں ہے؟ آخر کیوں دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کا میڈیا اپنے معیار کے ساتھ سمجھوتا کر رہا ہے اور اب اس کی پوزیشن دنیا کے غریب ملکوں کے میڈیا سے بھی بدتر ہوتی جا رہی ہے؟ آخر کیوں ہمارے پاس عالمی سطح کا کوئی میڈیا ہاؤس نہیں ہے؟
آپ سب جانتے ہیں کہ کچھ دن پہلے پریس فریڈم انڈیکس کی رپورٹ آئی تھی جس نے بھارتی میڈیا کو ۱۸۰ ممالک میں ۱۶۱ ویں پوزیشن دی، جو پچھلے سال کے ۱۵۰ سے بھی کافی نیچے ہے۔ اس انڈیکس پر اگر اعتبار کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارت میں پریس کے حالات جنوبی ایشیا اور افریقہ کے بہت سارے غریب ممالک سے بھی خراب ہیں۔ کیا یہ ہمارے ملک کے میڈیا کے لیے لمحۂ فکریہ نہیں ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج کا عنوان “میڈیا کا محاسبہ” بے حد موزوں ہے۔ آج ہم بھارتی میڈیا کو درپیش چیلنجز پر بات کریں گے۔ یہ گفتگو اس لیے بھی نہایت اہم ہے کیونکہ بغیر آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کے جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مرحوم محفوظ الرحمٰن کے صحافتی اقدار بھی جمہوریت کو فروغ دینے والے تھے۔
بہت سے لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ بھارت کا میڈیا آزاد اور غیر جانب دارانہ طریقے سے کام نہیں کر رہا۔ اکثر اوقات، صحافی اپنے ضوابط کو طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ اقتدار کے قریب پہنچنے کی دوڑ میں، وہ برسر اقتدار جماعت کے مفاد کو قومی مفاد بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ میڈیا سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ سچ کو بے نقاب کرے اور کسی بھی مسئلے کے تمام پہلوؤں پر بات کرے۔ کسی بھی جمہوری ملک کے میڈیا سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو اجاگر کرے اور حکومت کی کوتاہیوں پر سوالات اٹھائے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا میڈیا خبروں اور مضامین کو ایسے انداز میں پیش کر رہا ہے جیسے وہ حکومت کا ترجمان ہو۔ ارباب اقتدار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے، بھارتی میڈیا اکثر سنسنی خیز اور نفرت انگیز انداز اختیار کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری کو بھول جاتا ہے۔
مذہبی اور جذباتی مسائل میں عوام کو الجھانا میڈیا کا معمول بن گیا ہے، جبکہ وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ روزی روٹی اور دیگر بنیادی سوالات سے عوام کی توجہ ہٹا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ میڈیا نے سابقہ حکومتوں کے ساتھ بھی ہاں میں ہاں ملایا تھا۔ عوام نے ایمرجنسی کے دور کو بھی دیکھا ہے جب میڈیا پر پابندیاں لگائی گئی تھیں اور بہت سے میڈیا ادارے مطلق العنان حکومت کے سامنے جھک گئے تھے۔ مگر اب تو حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب نظر آتے ہیں۔ ایمرجنسی نافذ نہیں ہے، لیکن میڈیا ایمرجنسی کے دور سے بھی زیادہ خوف زدہ ہے اور حکومت کی گود میں بیٹھ گیا ہے، جبکہ خود کو آزاد بھی کہہ رہا ہے۔
آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ گزشتہ چند سالوں میں میڈیا تیزی سے ایک طرفہ خبریں دکھا رہا ہے اور ایک مخصوص فرقے کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے۔ نفرت انگیز خبریں بے روک ٹوک شائع ہو رہی ہیں اور عدالتیں اور پریس کونسل اس بے لگام میڈیا کو لگام لگانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو حکومت اور سرمایہ داروں کی حمایت حاصل ہے۔ حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ میڈیا حکومت سے سوال کرنے کے بجائے ہر وقت حزب اختلاف کا مذاق اڑاتا ہے۔ کسی بھی دن ٹی وی چینلز پر خبریں دیکھ لیں، آپ پائیں گے کہ دس میں سے سات یا آٹھ خبریں حکومت کی تعریف میں ہوتی ہیں، جبکہ باقی دو خبریں اپوزیشن کی ناکامیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے تھوڑی بہت امید پیدا ہوئی تھی، لیکن اس پر بھی برسر اقتدار جماعت کا کنٹرول ہے۔ سوشل میڈیا پر حکومت اپنے موافق مواد کو فروغ دینے میں کامیاب ہو رہی ہے اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والی آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔ بہت سے جہدکار صحافیوں کے سوشل اکاؤنٹ حکومت کے دباؤ میں بند کر دیے گئے، اور ان کی محنت پر پانی پھیر دیا گیا۔ جو صحافی بے باک انداز میں لکھتے اور بولتے ہیں، انہیں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافی بڑی تعداد میں جیلوں میں بند ہیں، جبکہ بہت سے صحافی شرپسند عناصر کے ہاتھوں زخمی یا قتل ہو چکے ہیں۔
کیرالہ کے بے باک صحافی صدیق کپن کو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ وہ ۲۸ مہینوں تک جیل میں قید رہے۔ ان کی گرفتاری ۵ اکتوبر ۲۰۲۰ کو ہوئی تھی، جب وہ دہلی سے ہاتھرس جا رہے تھے۔ ان کا ہاتھرس جانے کا مقصد ایک دلت لڑکی کی آبروریزی کے سانحے کی کوریج کرنا تھا، لیکن انہیں راستے میں ہی یوپی پولیس نے روک لیا اور بغیر کسی جرم کے ملزم قرار دے دیا گیا۔ تحویل کے دوران ان پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک دلت لڑکی کو انصاف دلانے کی خواہش رکھنے والا صحافی دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا عصمت دری کے خلاف قلم اٹھانا یا حکومت کی ناکامیوں پر احتجاج کرنا ملک سے دشمنی ہے؟
میڈیا اکثر یہ بات فراموش کر دیتا ہے کہ حکومت سے سوال پوچھنا ہرگز ملک کو کمزور کرنا نہیں ہوتا۔اگر حکومت سے سوالات نہیں کیے جائیں گے، تو اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ حکومتیں مطلق العنان نہ بن جائیں۔ میڈیا کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ عوامی مسائل پر زیادہ توجہ دے۔ بھارتی میڈیا کے معیار میں گراوٹ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے پیچھے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا پیسہ ہوتا ہے۔ اب تو حالات اور بھی بدتر ہوتے جا رہے ہیں، جب چند بڑے سرمایہ دار گھرانے میڈیا کے بڑے ہاؤسز کو خرید رہے ہیں۔ سرمایہ دار، پردے کے پیچھے سے اپنے میڈیا ہاؤسز کا استعمال کرتے ہوئے حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اربابِ اقتدار بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ اگر انہیں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے، تو انہیں میڈیا کا ساتھ درکار ہوگا۔
اس طرح، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سیاسی لیڈروں اور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ جمہوری اقدار کو کمزور کر رہا ہے اور میڈیا کی آزاد آوازوں کو دبا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی اور دیگر اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ میڈیا چلانا اب عام لوگوں کے بس کی بات نہیں رہی۔ دوسری بڑی پریشانی یہ ہے کہ میڈیا کے اندر سماجی تکثیریت نظر نہیں آتی۔ ایک خاص ذات اور برادری کے لوگ میڈیا پر قابض ہیں اور وہ پورے نیوز روم کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ محروم طبقات کے افراد کو نیوز روم کے اہم عہدوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔
اخبارات کے اندر ادارتی شعبے پر مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کا دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے، اور رپورٹرز اور ایڈیٹرز کی طاقت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں اخبار مالکان کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں صحافیوں کی تنخواہیں یا تو نہیں بڑھ رہیں یا پہلے کے مقابلے میں کافی کم ہو گئی ہیں۔ یونین بنانے کا حق آئین میں بنیادی حقوق کا حصہ ہے، لیکن اب صحافیوں کی یونین کہیں نظر نہیں آتی اور جو اس کی بات کرتے ہیں، انہیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی بہت سے صحافیوں کو نوکری سے نکال دیا گیا، اور اس پر میڈیا میں کوئی شور نہیں ہوا۔
آئے دن مزدوروں کے بچے ہوئے حقوق بھی واپس لیے جا رہے ہیں، مگر یہ بھی میڈیا کی بحثوں میں جگہ نہیں بنا پاتے۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم کی نجکاری، اور ریزرویشن پر حملے بھی خبروں میں زیادہ جگہ نہیں پاتے۔
میڈیا کو یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت جیسے تکثیری سماج میں لوگوں کے مفادات اکثر ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں، اور یہ ایک فطری عمل ہے جسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر، سماج کے مراعات یافتہ طبقات اکثر دبے کچلے لوگوں کے حقوق کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے غصب کر لیتے ہیں۔ میڈیا کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ سماج کے حاشیے پر موجود لوگوں کی آواز بنے، مگر اس کے برعکس، میڈیا طاقتور لوگوں کے مفادات کو قومی مفاد بنا کر پیش کرتا ہے اور محکوموں کے مفادات کو “گندی سیاست” کہہ کر خارج کر دیتا ہے۔
جب حکومت بڑے بڑے سرمایہ داروں کے کروڑوں کے قرض معاف کرنے پر بات نہیں کرتی، تو میڈیا بھی اس پر بحث نہیں کرتا۔ لیکن جب غریب عوام کے مفاد میں کوئی چھوٹی سی پالیسی بھی بنتی ہے، تو اسے “مفت کی ریوڑیاں” کہہ کر میڈیا ہنگامہ کھڑا کرتا ہے اور ملک کی ترقی کے لیے مضر قرار دیتا ہے۔
اختصار یہ ہے کہ میڈیا ایک خاص جماعت اور طاقتور طبقات کا نمائندہ بنتا جا رہا ہے اور غریب و محکوم طبقات کے مفادات پر بات کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔
ایک اور تشویشناک بات یہ ہے کہ میڈیا شخصیت پرستی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے اور ایک خاص لیڈر کو پورے ملک کے تمام مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔بھارت کی اب تک کی ساری ترقی کا سہرا ایک ہی لیڈر کے سر باندھا جا رہا ہے، جبکہ اگر ملک کے بعض مسائل ابھی بھی حل نہیں ہو پا رہے ہیں تو ان کے لیے میڈیا اپوزیشن پارٹیوں کی سابقہ حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ سالوں پہلے ڈاکٹر امبیڈکر نے شخصیت پرستی کی بیماری پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ہمارے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو اس لیے اپنایا گیا تھا کیونکہ یہ نظام شخصیت پرستی کے بجائے اجتماعی کوشش کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت وہ طرز حکومت ہے جس میں وزیر اعظم کا انتخاب منتخب ممبرانِ پارلیمنٹ کرتے ہیں، اور وزیر اعظم کو تمام فیصلے کابینہ کے وزراء کے مشورے سے لینے پڑتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت کابینہ کے وزراء کے برابر ہوتی ہے۔ اقتدار کی مرکزیت اور شخصیت پرستی کو روکنے کے لیے پارلیمانی جمہوریت مشاورت اور اجتماعی ذمہ داری پر زور دیتی ہے۔
تاہم، یہ بھارتی جمہوریت کے لیے باعث تشویش ہے کہ یہاں کابینہ کے وزراء کی سیاسی طاقت کو مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے اور پوری سیاست ایک ہی لیڈر کے گرد گھوم رہی ہے۔ میڈیا کا فریضہ ہے کہ وہ شخصیت پرستی کی مخالفت کرے اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے کام کرے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا اس کردار کو ادا نہیں کر رہا۔
ایک اور خطرناک رجحان یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا میڈیا تمام مسائل کو آئینی زاویے سے دیکھنے کے بجائے اکثر فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
اب کورونا وبا کی مثال لے لیجیے۔ ۲۰۲۰ میں جب یہ آفت پوری دنیا میں پھیل گئی اور بھارت بھی اس کی زد میں آیا، تو مین اسٹریم میڈیا نے اس پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا۔ بھارت کا میڈیا شاید دنیا کا واحد میڈیا تھا جس نے وبا کے پھیلاؤ کے لیے ایک مخصوص مذہبی فرقے کو قصوروار ٹھہرایا اور حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈال کر اپنا وقت ایک لیڈر کی کامیاب قیادت کے قصیدے پڑھنے میں صرف کر دیا۔
میڈیا نے ملک کی بدحال صحت عامہ پر سنجیدگی سے بحث کرنے کے بجائے اپنی پوری توانائی عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے پر لگا دی۔ اس مقصد کے لیے میڈیا نے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کی ایک مذہبی تنظیم، تبلیغی جماعت، کو وبا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس کے بہانے کروڑوں مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ بہت سے مسلمانوں کو تجارتی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا، اور وبا پھیلانے کے الزام میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کو جیل میں بند کر دیا گیا۔
اس دوران میڈیا کا کردار نہایت خطرناک رہا۔ وبا کے دوران ٹی وی مباحثوں کا موضوع عوامی مسائل کم اور تبلیغی جماعت پر زیادہ شور شرابا تھا۔ میڈیا نے نہ تو ادویات اور صحت عامہ پر سنجیدگی سے بات کی اور نہ ہی مزدوروں کی فاقہ کشی کو موضوع بنایا۔ نیوز رومز میں ہونے والی گفتگو مسلمانوں اور اسلام سے درپیش “خطرات” پر مرکوز تھی۔ بغیر کسی ثبوت کے میڈیا نے پروپیگنڈا پھیلایا کہ مسلمان ‘غافل’ ہیں، وہ ‘قدامت پسند’، ‘شدت پسند’، ‘جہادی’، ‘ملک دشمن’، اور ‘دہشت گرد’ ہیں۔
ہندی نیوز چینلز نے تو تمام حدیں پار کر دیں۔ مثال کے طور پر، ایک نیوز چینل نے “کورونا کی جنگ میں جماعت کا اگھات (چوٹ)” پر پروگرام نشر کیا۔ دیگر نیوز چینلز بھی پیچھے نہیں تھے۔ اُس وقت ٹی وی کی سرخیاں کچھ یوں تھیں: “دھرم کے نام پر جان لیوا ادھرم”، “نظام الدین کا ولن کون”، “کرونا جہاد سے دیش بچاؤ”۔ ایسے ٹی وی پروگراموں نے عام عوام کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا کام کیا۔
ایک صحافی کس قدر بے حس ہو سکتا ہے، یہ اُس وقت ظاہر ہوا جب ایک نیوز اینکر نے اپنے شو میں ایک مسلمان مہمان کو بلا کر ذلیل کیا۔ ایک اور اینکر نے تو تبلیغی جماعت کو “طالبانی جماعت” کہہ دیا۔ یہی نہیں، معروف عالم دین مولانا سجاد نعمانی کی بھی کردار کشی کی گئی۔
مختصر یہ کہ اس وقت فرقہ پرستی کا وائرس کورونا سے بھی تیز پھیل رہا تھا۔ مگر سچائی آخرکار سب کے سامنے آ ہی گئی۔ مہینوں بعد، ممبئی ہائی کورٹ نے تسلیم کیا کہ تبلیغی جماعت کو اس پورے معاملے میں بلی کا بکرا بنایا گیا تھا۔
پھر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ بھی سامنے آئی، جس نے سرکار کی ناکامیوں کو واضح کیا۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، بھارت میں کورونا وبا کے باعث ۴۷ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ سرکاری اعداد و شمار اور ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار میں واضح فرق ہے۔ حکومت نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ۲۰۲۱ کے آخر تک کورونا کی وجہ سے ۴ لاکھ ۸۱ ہزار افراد ہلاک ہوئے، جبکہ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد سرکاری فِگرز سے دس گنا زیادہ ہے۔صحت عامہ کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار حقیقت کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ کورونا وبا کے دوران حکومت نے عوام کو بے سہارا چھوڑ دیا تھا اور ملک بھر میں لوگ دوا، آکسیجن اور علاج کے لیے تڑپتے رہے۔ مگر مصیبت کی گھڑی میں ملک کے زیادہ تر میڈیا ہاؤسز نے عوام کا ساتھ چھوڑ دیا۔
کورونا کے دوران میڈیا کا کردار اس خدشے کو مزید تقویت دیتا ہے کہ اب میڈیا ایک کاروبار بن چکا ہے اور اس کے لیے عوامی مسائل کی اہمیت اس کے ذاتی مفاد کے مقابلے میں ثانوی ہو چکی ہے۔کورونا وبا کے دوران حکومت مسلسل عوام مخالف فیصلے لے رہی تھی، ان میں سے ایک تین زرعی قوانین کا نفاذ تھا۔کسانوں نے ان قوانین کو اپنے اور ملک کے مفاد کے خلاف سمجھا اور انہیں یقین ہو گیا کہ حکومت اب ان سے اناج نہیں خریدے گی اور زراعت کو مکمل طور پر بازار اور بڑے سرمایہ داروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ان خطرات کو سمجھتے ہوئے کسانوں نے ایک بڑی تحریک چھیڑی اور دہلی سمیت ملک کے مختلف حصوں میں دھرنے پر بیٹھ گئے۔ اس تحریک کے دوران بھی میڈیا کا کردار بہت ہی منفی رہا۔ مین اسٹریم میڈیا نے نہ صرف کسانوں کی باتوں کو واجب جگہ نہیں دی بلکہ بڑے سرمایہ داروں کے مفاد کو قومی مفاد بنا کر پیش کیا۔
دوسری طرف، دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی شبیہ خراب کرنے کے لیے میڈیا نے انہیں “خالصتانی” اور دہشت گردوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔ اس قسم کے بے بنیاد الزامات لگاتے وقت میڈیا نے یہ نہیں سوچا کہ کسانوں کی یہ لڑائی ملک کے غریب لوگوں کی لڑائی تھی۔ اگر اناج کو بازار کے حوالے کر دیا گیا تو کروڑوں لوگوں کے روزگار اور پیٹ پر لات پڑ جائے گی۔ اس دوران اخبارات کسان مخالف خبروں اور مضامین سے بھرے پڑے تھے۔ کسی اخبار نے کہا کہ کسان مبینہ طور پر اپوزیشن پارٹیوں کی “موقع پرست سیاست” کا شکار ہو چکے ہیں، جبکہ دوسرے اخباروں نے زرعی قوانین کے فوائد گنائے۔ یہاں تک کہا گیا کہ کسانوں کے احتجاج میں “خالصتانی” عناصر دراندازی کر چکے ہیں۔
ہندی کے ایک اخبار نے کسانوں کے مسائل پر بات کرنے کے بجائے یہ خبر دی کہ احتجاج کی وجہ سے دہلی کے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک اخبار نے لکھا کہ یوپی گیٹ پر دھرنے کی وجہ سے بڑا ٹریفک جام ہوگیا ہے، جبکہ ایک اور خبر میں اپوزیشن پارٹیوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ کسانوں کا استعمال حکومت کو نشانہ بنانے کے لیے کر رہی ہیں۔
کسان تحریک کے دوران میڈیا کے منفی کردار نے اس خدشے کو مزید تقویت دی کہ میڈیا کی بڑی دلچسپی بڑے سرمایہ داروں کے مفاد کو پورا کرنے اور سماجی نابرابری کو برقرار رکھنے میں ہے۔ یہ تحریک اس بات کی گواہ ہے کہ میڈیا نے عوامی مسائل سے خود کو الگ کر لیا تھا اور حکومت کے مؤقف کو قومی مفاد کے طور پر پیش کیا تھا۔
میڈیا کا منفی کردار شہریوں کے حقوق کے دفاع کے مسائل پر بھی نظر آیا ہے۔
حال ہی میں اتر پردیش میں انسانی حقوق کی پامالی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، اور ریاست کے نظم و نسق پر بھی سوالات اٹھے ہیں۔ اقلیتوں اور دیگر محروم طبقات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کئی مواقع پر پولیس نے قانونی طریقہ کار کو نظر انداز کر کے زیادتیاں کی ہیں اور متعدد انکاؤنٹر کیے ہیں۔ اقلیتوں کے گھروں کو بلڈوزر سے توڑنے کی کارروائی پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ ان تمام سنگین مسائل پر بھی میڈیا کا کردار انتہائی منفی رہا، اور آئین اور قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے، میڈیا نے بلڈوزر راج کی حمایت میں شور مچایا۔
گزشتہ سال، جے این یو کی طالبہ اور جہدکار آفرین فاطمہ کے گھر کو یو پی پولیس نے اچانک مسمار کر دیا۔ قانون کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت نے اپنے اختیارات کا صریح غلط استعمال کیا اور قانون اور آئین کا مذاق اڑایا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اتر پردیش حکومت مخصوص مذاہب اور ذاتوں کے لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور حکومت پر سیکولرازم کی آئینی اقدار کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔
مگر میڈیا ان معاملات کو نظرانداز کر رہا ہے۔ بے حد افسوس کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے ستون میڈیا نے بھی انکاؤنٹر کلچر کو ایک ڈھکی چھپی زبان میں جائز قرار دیا اور فرقہ وارانہ رنگ دیا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ “گودی میڈیا” اب “گولی میڈیا” بنتا جا رہا ہے۔
حالانکہ حالات بہت تاریک نظر آ رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ بگڑے ہوئے حالات کو درست کرنے کے لیے ہمیں ہی آگے آنا ہوگا۔
اس ملک کی جمہوریت کو بچانے کے لیے یہاں کے محکوم طبقات کو قیادت کرنی ہوگی، کیونکہ اگر جمہوریت پر خطرے کے بادل منڈلانے لگے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان کمزور اور دبے کچلے طبقوں کو ہوگا۔ حل تلاش کرنے کے لیے میں آپ کو ماہر لسانیات اور دانشور نوم چومسکی کی تحریروں کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔ یاد رہے کہ چومسکی کی کتاب مینوفیکچرنگ کنسنٹ متبادل میڈیا کے حلقے میں ایک بہت اہم تحریر ہے۔ پروفیسر چومسکی نے میڈیا کو جمہوری اقدار پر استوار کرنے کے لیے کچھ اہم باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے زمینی سطح پر چلنے والے متبادل میڈیا کی اہمیت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کو اسے چلانے کے لیے آگے آنا ہوگا۔
بھارت میں بھی کچھ اسی طرح کا تجربہ گزشتہ ۲۱ سالوں سے جاری ہے۔ آپ کاؤنٹر کرنٹس نامی متبادل انگریزی نیوز پورٹل سے واقف ہوں گے، جو ۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے بعد شروع کیا گیا تھا اور آج دنیا بھر سے ہزاروں لوگ اسے پڑھتے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ، اس کے قارئین یورپ، امریکہ، مغربی ایشیا، جنوبی ایشیا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں۔ اس ویب سائٹ پر ہزاروں کی تعداد میں خبریں اور مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ کاؤنٹر کرنٹس پر شائع شدہ خبریں اور مقالے نہ صرف لوگوں کو معلومات فراہم کر رہے ہیں، بلکہ مستقبل کے مؤرخین کے لیے اہم ماخذ بھی محفوظ کر رہے ہیں۔ اس نیوز پورٹل سے بڑے بڑے سماجی کارکنان، ادیب اور صحافیوں کی جماعت جڑی ہوئی ہے۔
اس سفر کے میرِ کارواں بینو میتھیو ہیں، جو اس نیوز پورٹل کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ ان کی زندگی متبادل میڈیا کی علامت بن چکی ہے۔ بینو میتھیو کی زندگی صحافتی برادری کے لیے ایک سبق ہے کہ پیسہ، ترقی یا شہرت کبھی بھی اصولوں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صحافی کو اقتدار کی گلیوں میں جگہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسے عوام کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ادارتی آزادی کو کیسے بچائے رکھا جائے، یہ بینو میتھیو کی اولین ترجیح ہے۔ کاؤنٹر کرنٹس کسی قسم کا اشتہار قبول نہیں کرتا اور نہ ہی کسی ادارے کی فنڈنگ کا خواہاں ہے۔ بینو میتھیو کا کہنا ہے کہ جیسے ہی کوئی ادارہ یا تنظیم کسی میڈیا کے جیب میں پیسہ ڈالتی ہے، ویسے ہی میڈیا کی آواز دبنے لگتی ہے۔
جہاں تک میڈیا کے اخراجات کا سوال ہے، تو بینو میتھیو عوامی تعاون پر منحصر ہیں۔ ملک کے مین اسٹریم میڈیا کی حالت پر وہ کافی افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے صحافی اب کھلے عام نفرت پھیلا رہے ہیں۔ لبرل طبقہ ان سے مقابلہ کرنے میں ناکام ہے کیونکہ وہ بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو تک سب کو خوش کرنے میں مصروف ہے۔ اس پس منظر میں آزاد اور خودمختار میڈیا کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات تبھی بہتر ہوں گے جب ہزاروں کی تعداد میں کاؤنٹر کرنٹس جیسے پلیٹ فارم کام کریں گے۔ وہ زور دیتے ہیں کہ عوامی صحافت مختلف زبانوں اور مختلف خطوں سے شروع کی جائے۔
سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر سرگرم صحافیوں کے لیے بھی بینو میتھیو کا پیغام ہے کہ انہیں سستی شہرت کے لیے اپنے مشن سے دور نہیں جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحافتی ادارے کو اپنے صحافیوں اور قلم کاروں پر کسی خاص نظریے کو نہیں تھوپنا چاہیے، بلکہ مختلف آوازوں کو جگہ دینی چاہیے۔ بطور صحافی، بینو کا ماننا ہے کہ دنیا کے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ہر محاذ پر توجہ دینا ضروری ہے۔ سامراجیت اور گلوبلائزیشن کی مخالفت سے لے کر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات تک پر بات کرنا ضروری ہے، مگر اسی کے ساتھ ساتھ فرقہ واریت کی مخالفت، دلت اور دیگر محروم طبقات کے حقوق کا تحفظ بھی اہم ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد اور شہری و انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اٹھانا بھی صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔
سچ پوچھیے تو کاؤنٹر کرنٹس کا تجربہ پہاڑ پر رکھے اُس چراغ کی مانند ہے جو اکیلا تو اندھیرے کو ختم نہیں کر سکتا، مگر اس نے تاریکی سے لڑنے کا حوصلہ ضرور پیدا کیا ہے اگر ہمیں اس مایوسی کے اندھیرے کو دور کر کے روشنی پھیلانی ہے، تو ہمیں کسی فرشتے کا انتظار کیے بغیر خود آگے آنا ہوگا۔ جمہوریت کو بچانے اور میڈیا کی آزادی کے تحفظ کے لیے ہمیں ایک ایک چراغ جلانا ہوگا۔ عوامی مسائل سے متعلق صحافت کا چراغ جلانا ہوگا، کیونکہ طاقتور طبقہ محروموں کی آواز نہیں اٹھا سکتا۔کمزور طبقات کو اپنا میڈیا قائم کرنا پڑے گا۔ یہ سب کسی کرشمے سے نہیں، بلکہ اجتماعی کوششوں سے ممکن ہوگا۔ بہت شکریہ۔”
یہ ۱۷ویں محفوظ الرحمٰن میموریل لیکچر کا متن ہے جو ۱۴ مئی ۲۰۲۳ کو غالب اکیڈمی، نظام الدین، نئی دہلی میں دیا گیا۔ڈاکٹر ابھے کمار مصنف اور آزاد صحافی ہیں۔ انہوں نے جے این یو کے شعبۂ تاریخ سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کی دلچسپی سماجی انصاف، اقلیتی حقوق، اور میڈیا سے جڑے موضوعات میں ہے۔
debatingissues@gmail.com
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں