میرا جنید جمشید ۔۔۔۔۔۔۔ نہ تھا ، نہ رہا…!!!

موت برحق ہے ،، اس کا روپ کیسا ہے ، یہ کس انداز سے استقبال کرتی ہے ہمارا فہم ناآشنا ہے ، اور یہ بھی رحمت ربی ہے کہ اس لم یزل نے موت کی انجان وادی کے دریچے ، دروازے ہمیں پیشگی نہ بتلا کر زندگی کو سکون بخشا ہے ،
لکھنے کی جستجو میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہوا مخالف میں زوردار ہے ، تنقید کے دوراہے پر بیانیئے کا زور لعنتوں گالیوں سے بہہ سکتا ہے ،،لیکن میرا لکھنا مجبوری نہیں بلکہ اندھی ہوا میں اپنے چراغ کی لو کو بجھنے سے بچانا ہے ۔۔
دلی تمنا تھی کہ اس باریش داڑھی اور قد کاٹھ کے مبلغ جنید جمشید سے ملتا ، کس لئے ؟؟
سیلفی لینے کےلئے ،،، نہیں ہرگز نہیں ۔۔ تو پھر علم سیکھنے کےلئے ،،، نہیں نہیں وہ بھی ہر گز نہیں ۔
بلکہ اُنہیں صرف ایک التجا کرنے کےلئے کہ میرے محترم بھائی اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ،، نام دولت شہرت ہر چیز مقدار سے زائد ملی ،، ،۔۔ تم نے زہن بدلا ، لباس بدلا ، ، ٹوپی پہن لی ، پانچ وقت نمازی ہو گئے ، واعظ کا لہجہ اختیار کر لیا ، ، تبلیغ کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگوں کو اللہ کی راہ میں بُلانے کا بیڑا اُٹھا لیا ، آزاد منش لبرل سے سنجیدہ داعی ہو گئے ، ،،کبھی کبھی خلاف توقع تاریخ کے دُکھڑوں میں سے ایسی بات نکال کر زبان عام کہہ دی کہ فتویٰ کی لاٹھیاں ہڈیاں چور چور کر گئیں ،، لیکن ان تمام مذہبی روائتی پیش بندیوں میں کہیں بھی وہ نہیں کیا جو تم کر سکتے تھے ،، جی ہاں تم کر سکتے تھے ،،
لوگوں کو نمائشی علم و تبلیغ وقتی طور پر نجات جیسے مغالطے میں ڈال کر راغب تو کر سکتی ہے لیکن دیرپا اور مستقل نتائج کس کھیت میں پائے جاتے ہیں کبھی نہیں دے سکتے ۔
اللہ کی راہ میں بُلانا کیا ہوتا ہے ؟؟؟ کیا پانچ وقت نماز، روزہ ، زکوہ ، حج یہی اسلام ہے ؟؟ ۔
ہم نے تبلیغیوں کے جھڑمت میں صرف لفظوں کی چرب زبانی ہی پائی ۔۔۔۔ یہ میٹھے بول کنویں سے چالس ڈونگے پانی کے تو نکال رہے تھے اصل مردار کُتا وہیں پڑا سڑ رہا تھا ۔
پاکستان میں نصف سے زائد آبادی خطِ غربت کے درندہ اندھیروں میں ہر شام بھوکے شکم لئے بُلبلاتی ہے ، ایسی مد میں لوگوں کو دنیا سے نفرت سیکھا کر کس طرح اُخروی زندگی کی حوریں یاد دلائی جا سکتی ہیں ؟؟ کیا یہ عبادات جو نافذ ہی اپنے عمل میں ایک عالمگیر فکر و سوچ کے دھارے بدلنے آئی تھی محض رسم کی بارہ دری بن گئی ہے سے سود معاشیات ، سماجیات ، اخلاقیات جیسے بنیادی معاشرتی اسلوب سے نمٹا جا سکتا ہے ؟؟؟
تمہاری آواز دل دل پاکستان لوگوں کو اکٹھا کرگئی تھی،، اے کاش کہیں لوگوں کی فلاح و بہبود کےلئے مستقل بنیادوں پر شاہکار کام انجام دے جاتے تو واقعی آنے والی نسلیں تمہیں دل سے پاکستان کا بیٹا کہتی ۔اور آج تمہاری جیسی تبدیلی کو اپنا کر اپنے جیون میں مُسلمانیت کے رنگ بھر رہی ہوتی،،
تمہارے دکھ میں نوحے لکھنے والوں نے سیاہی اُگلتے ہوئے تمہیں یوتھ کا ““ آئی کون ““ کا خطاب دیا ، تمہاری دلکش مسکراہٹ ، دیدہ زیب پہناوئے کی تعریفیں کی گئی ، لیکن ذرا بھر کو اس تدبیر کی سلوٹیں درست نہ کیں کہ تمہارے پاس اس قیمتی وقت میں علامتی طور پر معاشرے کو بھوک افلاس ، صحت ، تعلیم ، روزگار جیسے المیہ سے نمٹنے کے لئے وسائل ہُنر ، تعلق ، سہولتوں کے انبار تھے پھر بھی تم جے ڈاٹ پر اپنے کپڑے ہی بیچتے نظر آئے ؟؟؟۔۔
کبھی کیٹ واک رنگین جھرمٹوں میں ایلیٹ کلاس کے آگے نعت شریف پڑھ کر اُنہیں انوکھے رنگ میں مسلمان کرتے نظر آئے ، ۔۔۔ کیا تمہارے ذمے یہی انداز فکر تھا جس سے واقعی اُس تبدیلی کو خراج تحسین پیش کیا جاتا جس نے تمہیں سات سروں کی مالا سے نکال کر سوز و گدازِدل کے نہ مٹنے والے نقوش بخشے ،،،
قصور تمہارا بھی نہیں ہے ۔۔۔ تم جس خیمہ بستی میں روح کے سکون کےلئے گئے وہاں ایسی ہی تاولیوں سے کام چلایا جاتا ہے ۔،،، زندگی آمد برائے بندگی کے مصداق ان کے ہاں صرف وہی اندازِتہذیبی ہیں جو شاید اپنی ذات سے باہر نکل کر دیکھ ہی نہیں سکتے ۔۔۔۔
مجھے تمہاری انمناک موت پر صدمہ ہے ،، لیکن اس سے زیادہ دل اس لئے ڈوبا ہوا ہے کہ تم نے اپنی زندگی کو جہاں وقف کرنا تھا تم اُس نہج سے ناآشنا تھے ، تمہیں معلوم نہ تھا کہ تم اس معاشرے کی شناخت ہو ، تمہارا عہدہ بڑا ہے ، تم بڑے کام کر سکتے ہو ،، لیکن تم ایسی جگہ بھٹکتے رہے جہاں کی لفاظیوں نے کبھی تاریک گھر کے صحن روشن نہیں کیئے ۔۔۔ یک رنگ ٹوپیوں کے سیلاب نے کبھی بھوکے کے لئے عملی لائحہ عمل تیار نہ کیا ،، ،،، اب بھی وقت ہے رونق بازار بننے کےلئے بازار کے ہر مفلس کی جھولی مستقل بھرنے کا سوچیں ،،، اپنی استعاعت کا بھرپور استعمال کیجئے ،، اپنی فکر و خیال کو نجات کے بجائے فلاح کی چوکھٹ کا سوالی بنایئے ۔۔۔۔ اپنے حصے کا کام جانیں ،،،
ورنہ موت لمحے کا انتظار برداشت نہیں کرتی ۔۔۔!!!
مجھے تمہاری انمناک موت پر صدمہ ہے ،، لیکن اس سے زیادہ دل اس لئے ڈوبا ہوا ہے کہ تم نے اپنی زندگی کو جہاں وقف کرنا تھا تم اُس نہج سے ناآشنا تھے ، تمہیں معلوم نہ تھا کہ تم اس معاشرے کی شناخت ہو ، تمہارا عہدہ بڑا ہے ، تم بڑے کام کر سکتے ہو ،، لیکن تم ایسی جگہ بھٹکتے رہے جہاں کی لفاظیوں نے کبھی تاریک گھر کے صحن روشن نہیں کیئے ۔۔۔ یک رنگ ٹوپیوں کے سیلاب نے کبھی بھوکے کے لئے عملی لائحہ عمل تیار نہ کیا ،، ،،، اب بھی وقت ہے رونق بازار بننے کےلئے بازار کے ہر مفلس کی جھولی مستقل بھرنے کا سوچیں ،،، اپنی استعاعت کا بھرپور استعمال کیجئے ،، اپنی فکر و خیال کو نجات کے بجائے فلاح کی چوکھٹ کا سوالی بنایئے ۔۔۔۔ اپنے حصے کا کام جانیں ،،،
ورنہ موت لمحے کا انتظار برداشت نہیں کرتی ۔۔۔!!!

Facebook Comments

شاکرجی
میری سوچ مختلف ہو سکتی ہے ۔۔ میری کاوش غیر سنجیدہ نہیں ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply