ادیب سے ادیب تک

اللہ درجات بلند فرمائے دادا جان ایک فلسفی انسان تھے۔ بھلے وقتوں میں اعلی تعلیم حاصل کر گئے تا دم مرگ کتاب سے ان کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ کوئی بھی مذہبی، فقہی، ادبی اور فلسفے کا موضوع ان کی فکری پہنچ سے باہر نہ تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ میں نے اپنی شعوری آنکھ عام انسانوں سے کافی بعد کھولی میرا چھوٹا بھائی اس معاملے میں مجھ سے بڑا ہے۔ اسی وجہ سے دادا جانی سے سیکھنے کا عمل کافی دیر بعد شروع ہوا اور قدرت کی ستم ظریفی وہ اتنی ہی جلد ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ دادا جانی کا چھوڑا ہوا علمی سرمایہ جو کتب کی شکل میں موجود تھا ایک عرصے کے بعد ناکافی محسوس ہونے لگا۔ بلکہ یوں کہئیے کہ سبھی کتب ایک شفیق استاد، جو دادا جان کی شکل میں موجود تھا، کا خلا پر نہ کر سکیں ساری کتب ردی کباڑ لگنے لگیں
ہمارے ہاں سکول اور کالجز میں رائج تعلیمی معیار طالب علموں کی ذہنی تسکین کیلئے کس حد تک کامیاب ہے؟
سوچ اور مشاہدے کی آبیاری کے بجائے نئی کھیپ کے منہ میں رٹے رٹائے الفاظ ٹھونس کر عملی زندگی میں ٹھوکریں کھانے کیلئے پھینک دیا جاتا ہے
میں بھی اسی طرح انٹر کرنے کیلئے کامرس کالج پہنچ گیا لکھنے لکھانے کا تھوڑا بہت شغل چلتا رہا۔ کالج میں پروفیسر جامی صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی جو گورمنٹ کالج کے پروفیسر حبیب الرحمان قاضی صاحب کی علمی و ادبی بصیرت کے بڑے معترف تھے۔ قاضی صاحب سے میرا غائبانہ تعارف ہو چکا تھا اور میں ان کے باوزن خیالات کا اثر لئے بغیر نہیں رہتا تھا جو جامی صاحب اکثر گفتگو میں بیان کرتے رہتے تھے۔ میری قاضی صاحب سے بالمشافہ ملنے کی شدید آرزو تھی مگر گورنمنٹ کالج جانے پر معلوم ہوا کہ قاضی صاحب کا تبادلہ ہو چکا ہے اور مزید یہ کہ کچھ عرصے بعد ریٹائرمنٹ اور پھر وہ کینیڈا اپنے بیٹے کے پاس جانے والے ہیں۔ میرے پاس اس کے بعد افسوس کے سوا کچھ نہ تھا
قصہ مختصر گریجویشن کے دوسرے سال میں نے ساتھ ملازمت بھی شروع کر دی اور مصروف زندگی کا آغاز ہو گیا
_________________
جنوری کی شدید دھند، رات ساڑھے نو بجے کے قریب ڈاکٹر کاشف رضا خان کی آخری کال کے بعد میں حسب معمول چرچ روڈ پہ واقع شیرا ٹی سٹال پہ آگیا۔
شیرا ٹی سٹال گھر سے باہر میرا دوسرا گھر ہے بلکہ میری طرح دو چار اور لوگ بھی یہاں کے مکین ہیں کچھ صحافی، کچھ طالب علم اور کچھ بزرگ ہستیاں جو سارا دن اور رات گئےتک یہاں ڈیرہ جمائے رکھتے تھے۔ ہمارا اچھا تکلف بن چکا تھا اسکے باوجود ایک دوسرے کے نام اور کام کے سوا مزید کوئی جانکاری نہ تھی۔ یہاں پر صرف “ملک صاحب” نامی ساٹھ ستر سالہ شخصیت سے میرا غیر معمولی تعلق تھا۔ میرے اور ملک صاحب کے درمیان ایک امر معاہدے کی شکل اختیار کر گیا تھا اور وہ یہ کہ ایک دن چائے کے پیسے ان کے ذمہ تھے اور اگلے دن میرے ذمہ تھے۔
شیرا ٹی سٹال پر ہاتھ ملتے داخل ہوا تو ملک صاحب کے ساتھ ایک صاحب، جو مہمان تھے، کرسی کی ٹیک چھوڑ کر نہایت ادب کے ساتھ کسی موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ اور ملک صاحب، جیسا ان کا انداز تھا، نہایت لا ابالی کے ساتھ کرسی پر نیم دراز ٹانگیں پھیلائے سگریٹ کے لمبے لمبے کش بھرتے ہاں ہاں میں سر ہلا رہے تھے۔
میں نے بھی ایک کرسی سنبھالی اور چائے کا اشارہ کر کے سماعتیں گفتگو کیلئے وقف کر دیں
” ملک صاحب! آپ کا وہ شعر۔۔۔۔ ”
گہرا ہوں سمندروں کی مانند
میں خود میں اترنا چاہتا ہوں
“ملک صاحب! آپکا وہ افسانہ ، درخت اور جیالہ”
“ملک صاحب! آپکی وہ نظم”
“ملک صاحب! آپ کی فلاں تخلیق”
جوں جوں وہ مہمان صاحب بولتے جا رہے تھے میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ میں حیران تھا کہ یہ ملک صاحب کب سے شاعر ہو گئے انہوں نے افسانہ کب لکھ دیا۔ یہ مہمان صاحب جو دیکھنے میں اچھے خاصے پڑھے لکھے معلوم پڑتے ہیں انکا ملک صاحب کیلئے اتنا عقیدت و احترام۔ میرے لئے تو ملک صاحب، ملک صاب ہی تھے جن کا کام روزانہ سیاست کی بینڈ بجانا تھا، سگریٹ چائے کے ساتھ صحت عامہ پر لیکچر دینا، اسپرین لینے کھ بعد ایلوپیتھک کو نیچا دکھانا اور حکمت کا جھنڈا بلند کرنا تھا۔ پر ان مہمان صاحب کے انکشافات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا
اسی مخمسے میں چائے سگریٹ کی۔ انکی گفتگو ختم ہوئی اور ملک صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے
” او نوجوان ایہنا نوں ہن پاک ایونیو چھڈ آوء”
ہوں ملک صاب! کتھے؟ پاک ایونیو
” آہو اپنے عزیز ای نیں، پاک ایونیو ایہنا دے چھوٹے پائی دا کھر اے”
ٹھیک اے ملک صاب! میں چھڈ دناں
ملک صاحب کی شخصیت کا جو پہلو آج آشکار ہوا تھا اس کے لئے ملک صاحب سے لمبی نشست درکار تھی۔ میں بزرگ مہمان کے ساتھ باہر آیا بیگ ان کے ہاتھ دھرا اور پیچھے بٹھا کر بائیک چلانے لگا۔
“سر آپ ملک صاحب کو کب سے جانتے ہیں؟”
یہی کوئی تیس پنتیس سال سے
” کس حوالے سے، اپکے عزیز ہیں؟”
نہیں نہیں، عزیز نہیں ہیں
“تو پھر؟”
میں انہیں کالج کے زمانے سے جانتا ہوں، ایک شاعر، افسانہ نگار کے طور پر، میرا انکا تعلق استاد شاگرد کا ہے
” آپ پڑھاتے ہیں؟”
ہاں جی، پڑھاتا ہوں، ملک صاحب جیسے لوگ ہمارا علمی اثاثہ ہیں، ہم ان جیسے لوگوں سے سیکھ کر آگے سکھا رہے ہیں
ابھی بات جاری تھی پاک ایونیو میں ایک گھر کے سامنے رکنے کیلئے کہا گیا، وہ صاحب اتر کر بیگ پیچھے باندھنے لگے
” سر میرا ملک صاحب سے کافی پرانا تعلق ہے پر انہوں نے کبھی بتایا نہیں۔ میں ابھی تک حیرت میں ہوں اور یقین کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہاں تو کوئی دو چار کہانیاں لکھ دے تو اپنی تشہیر کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، ادھر تو صورت ہی کچھ اور ہے
بس بیٹا، کئی گمنام لوگ ادب کی خدمت کرتے آئے ہیں جن کی اہمیت بعد میں اجاگر ہوئی۔ ملک صاحب بھی انہی میں سے ہیں بغیر طمع و لالچ کے جٹے ہوئے ہیں۔ انکا تخلیقی کام ہی ان کی ادبی شخصیت کا آئینہ ہیں۔ ان سے جتنا سیکھا جا سکتا ہے سیکھ لو ایسے لوگ بہت کم ہیں جو ہیں وہ گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
“بلکل درست فرمایا آپ نے، سر آپ آئندہ ساہیوال آئے تو ضرور ملئیے گا، بلکہ اپنا فون نمبر دیجئے رابطہ بحال رہے گا”
ہاں ضرور، یہ لیں
“اور ہاں سر اچانک اور اس قلیل ملاقات میں ہمارا تعارف نہیں ہو سکا، میرا نام عبدالباسط ہے” میں نے سلام کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہوا پوچھا
ہاں واقعی، میرا نام ، قاضی حبیب الرحمان ہے
“پروفیسر حبیب الرحمان قاضی”
جی جی میں ہی ہوں، یہاں گورنمنٹ کالج میں سترہ اٹھارہ سال درس و تدریس سے وابسطہ رہ چکا ہوں
پرجوش طریقے سے بغل گیر ہو کر قاضی صاحب چل دئیے اور میں جہاں ایک طرف ملک صاحب کی شخصیت کے حیرت کدے سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا،دوسری طرف قاضی صاحب کے ساتھ اس حیران کن ملاقات کے حیرت کدے میں ڈوب گیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply