مظلوم اس وقت تک مظلوم رہتا ہے جب تک وہ خود کو مظلوم سمجھتا رہے. مظلوم کا واحد جرم اکثر یہی ہوتا ہے کہ وہ مظلوم بنا رہے.
اس سے انکار نہیں ہے کہ ظالم ظلم ڈھاتا ہے ، تب ہی متاثر شخص مظلوم قرار پاتا ہے. میرا اعتراض تو اس پر ہے جو اپنے لئے مظلوم کا خطاب مستقل قبول کرلے. اقبال نے سچ کہا ہے … ‘ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات’… ہم کتنا ہی واویلا کریں ، کتنی ہی نظر چرائیں .. حقیقت یہی ہے کہ اس درالامتحان میں ‘survival of the fittest’ کا قانون جاری ہے. یہاں ہر چھوٹی مچھلی اپنے سے بڑی مچھلی کا نوالہ بنتی ہے. ہر کمزور قوم طاقتور قوم سے زیر ہوکر رہتی ہے.
وہ ملک جو خود سے طاقتور ملک کو ظالم کہتا ہے ، وہ خود اپنے شہریوں پر ہر ممکن ظلم ڈھا رہا ہوتا ہے. وہ شہری جو حکومت کے مظالم کا رونا روتا ہے ، وہ اکثر ذاتی مفاد کیلئے اپنے ماتحت ملازمین کو روند ڈالتا ہے. وہ ماتحت جو اپنے افسر کے ظالم ہونے کی دہائی دیتا ہے، وہ کئی بار اپنے بیوی بچوں کے حقوق پامال کردیتا ہے. وہ بیوی جو اپنے شوہر کے ظلم کو روتی ہے ، وہ خود سے کمزور پر کبھی ساس بن کر، کبھی نند بن کر اور کبھی بہو بن کر کسی ظلم کے کرنے سے نہیں چوکتی.
جس کا جبڑا جتنا بڑا ہے، وہ کمزور کی اتنی ہی بڑی بوٹی اتار لیتا ہے. اس حقیقت کو جان لیں اور خود کو اس مظلومیت کے خول سے کھینچ نکالیں. ظالم کے پاس طاقت و اختیار ہے ، اس کا شکوہ نہ کریں بلکہ خود طاقت و اختیار کے حصول کیلئے جت جائیں. ایسا نہ کریں گے تو ظلم سے چھٹکارا تو درکنار ، یہ بھی ممکن ہے کہ خود کو مظلوم جان کر ہمدردیاں اور دلاسہ لینے کا نشہ آپ کے حواسوں پر مسلط ہوجائے.
میں کتنے ہی ایسے لوگوں سے واقف ہوں جو اپنی زندگی کی محرومیوں کو مظلومیت کے لبادے میں چھپائے رکھتے ہیں. یہاں انگلینڈ میں کتنے ہی ایسے پاکستانیوں سے آگاہ ہوں جو اپنی معاشی ناکامی کو انگریز کی نسل پرستی کا نام دے کر سسکتے رہتے ہیں. کتنی ہی ایسی خواتین کو میں نے دیکھا ہے جو اپنے شب و روز یہی ثابت کرنے میں لگی رہتی ہیں کہ عورت کتنی مظلوم اور مرد کیسا ظالم ہے۔
اگر آپ واقعی ظالم کے چنگل سے نکلنے میں سنجیدہ ہیں تو سب سے پہلے خود کو مظلوم سمجھنا اور کہنا چھوڑ دیں. جس دن آپ نے کمزوری کا گلہ کئے بناء مقابلے کی ٹھان لی اور خود کو یہ بتا دیا کہ ‘ میں ہرگز مظلوم نہیں ‘ .. بس جان لیں کہ اسی لمحے آپ کی ظالم سے رہائی ہوگئی . اب ظالم حد سے حد آپ کے رستے میں ایک عارضی رکاوٹ ہے مگر قدموں کی زنجیر ہرگز نہیں ہے.
عقاب جب جھپٹ پڑے تو فاختہ بھی لڑ گئی
یہ طاقتوں کی جنگ نہ تھی، سوال یہ بقاء کا تھا
Facebook Comments
ﮯﺳ ﮯﮐ ﻮﮕﺘﻔﮔ ﮟﯿﻣ ﻥﺍﺭﻭﺩ ﮯﻧ ﺎﮩﮐ ﮧﮐ ﻩﺩﻮﺟﻮﻣ ﮧﻧﺎﻣﺯ ﮟﯿﻣ ﮯﮐ ﮞﻮﻧﺎﻤﻠﺴﻣ ﮯﻨﻬﮑﻟ ﻡﺎﻤﺗ ﺭﻭﺍ ﮯﻨﻟﻮﺑ ﮞﻮﻧﺎﻤﻠﺴﻣ ﮯﻟﺍﻭ ﮯﮐ ﺮﭘﻭﺍ ﯼﺮﺳﻭﺩ ﮞﻮﻣﻮﻗ ﮯﮐ ﻢﻟﺎﻈﻣ ﯽﮐ ﻥﺎﯿﺑ ﻥﺎﺘﺳﺍﺩ ﮯﺗﺮﮐ -ﮟﯿﮨ ﮧﯾ ﺕﺎﺑ ﺕﺍﺬﺑ ﺩﻮﺧ ﺢﯿﺤﺻ ﮯﻫ ﮧﮐ ﻥﺎﻤﻠﺴﻣ ﺱﺍ ﺖﻗﻭ ﮧﮕﺟ ﺮﮨ ﯼﺮﺳﻭﺩ ﮯﮐ ﮞﻮﻣﻮﻗ ﻢﻟﺎﻈﻣ ﺩﺯ ﮯﮐ ﮟﯿﻣ -ﮟﯿﮨ ﺮﮕﻣ ﮧﯾ ﮧﯿﺒﻨﺗ ﯼﺪﻧﻭﺍﺪﺧ ﮯﻫ ﮧﻧ ﮧﮐ ﻢﻠﻇ -ﺭﺎﯿﻏﺍ ﮞﻮﻧﺎﻤﻠﺴﻣ ﻥﺍ ﮯﻧ ﺕﺎﻌﻗﺍﻭ ﻢﻠﻇ ﻮﮐ ﺭﺎﯿﻏﺍ ﮧﻧﺎﺧ ﮯﮐ ﮟﯿﻣ ﻝﺍﮈ ﺎﻬﮐﺭ ﮯﻫ ﮯﺌﻟ ﺱﺍ ﻥﺍ ﮯﮐ ﺭﺪﻧﺍ ﻑﺮﺻ ﺎﮐ ﺝﺎﺠﺘﺣﺍ ﻦﮨﺫ ﺮﻬﺑﺍ -ﮯﻫ ﺎﮨﺭ ﺮﮔﺍ ﻥﺍ ﻩﻭ ﺕﺎﻌﻗﺍﻭ ﮧﺒﻨﺗ ﻮﮐ ﯼﺪﻧﻭﺍﺪﺧ ﮯﺘﻬﺠﻤﺳ ﻥﺍ ﻮﺗ ﮯﮐ ﺭﺪﻧﺍ ﺡﻼﺻﺍ ﺎﮐ ﺶﯾﻮﺧ ﮧﺑﺰﺟ ﺍﺪﯿﭘ -ﺎﺗﻮﻫ
25 ﯼﺮﺋﺍﮈ ﺮﺑﻮﺘﮐﺍ 1992
ﺎﻧﻻﻮﻣ ﻦﯾﺪﻟﺍﺪﯿﺣﻭ