• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سول-ملٹری تعلقات : جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔۔۔ایمل خٹک 

سول-ملٹری تعلقات : جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔۔۔ایمل خٹک 

وزیراعظم ھاوس میں قومی سلامتی کے حوالے سے حال ہی میں ایک اھم اجلاس منعقد ھوا ۔ جس میں متعلقہ فوجی اور سویلین حکام نے ملک کو درپیش چیلنجز اور خطرات پر تفصیلی غورو حوض کیا ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق کئی اھم ایشیوز پر سول اورملٹری حکام میں اختلاف نظر تھا ۔ اجلاس میں بحث و مباحثے کے بعد ھونے والے فیصلے بڑے دور رس اثرات کے حامل ھیں بشرطیکہ اس پر خلوص نیت اور صدق دل سے عملدرامد کیا جائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ فیصلے آبیل مجھے مار ثابت ھونگے یا واقعی قومی قیادت میں اصلاح احوال کا جذبہ موجود ہے ۔

دو فیصلے اھم اور قابل ذکر ہے ۔ ایک تو اندرون ملک عسکریت پسندوں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی اور اس کیلئے تمام متعلقہ صوبائی قانون نافذ کرنے والے اور انٹلی جنس اداروں کے سربراہان کو ھدایت کہ وہ اس کاروائی میں کس قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ دوسرا بھارت کے الزامات کے جواب میں پٹھان کوٹ واقعے کی تفشیش اور ممبئ حملے کی عدالتی کاروائی کو مکمل کرنا ہے۔

سویلین اداروں کو شکایت ہے کہ جب بھی وہ عسکریت پسندوں پر ھاتھ ڈالتے ھیں تو بعض ایجنسیاں ان کو چھڑانے کیلئے دباؤ ڈالتی ہے۔ بڑھتے ھوئے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر حکومت کا عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کا فیصلہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ وہ فارسی کا مقولہ کہ دیر آید درست آید۔ کیونکہ دھشت گردی کے مکمل خاتمے میں اچھے اور برے عسکریت پسند کی تمیز کی پالیسی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔

جہاں تک پٹھان کوٹ کے دھشت گرد حملے کی مشترکہ تحقیقات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پاکستان کی تفتیشی ٹیم نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور پھر جواب میں بھارتی ٹیم نے بھی پاکستان آنا تھا۔ مگر اس کو آنے نہیں دیاگیا۔ بھارت یا کسی بھی ملک کا کسی پاکستانی عسکریت پسند تنظیم پر دھشت گردی کا الزام ایک سنگین مسلہ ہے۔ اگر ھم چور نہیں تو تفشیش میں کوئی قباعت نہیں الٹا تفشیش میں معاونت سے انکار یا ٹال مٹول ھمیں مشکوک بنا سکتی ہے۔ اور اس کو عزت کا مسلہ بنانا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔

اگر کسی اور ملک میں سفارتی تنہائی یا ناکامی کا الزام وزارت خارجہ کو دیا جائے تو بجا ھوگا لیکن پاکستان کے معاملے میں وزارت خارجہ کو مورد الزام ٹہرانا سراسر زیادتی ھوگی ۔ تمام اھم اور حساس فیصلوں میں وزارت خارجہ کا کردار نہ ھونے کے برابر ہے۔ پہلے ان فیصلوں کی عملدرامد میں کسی حد تک اس کا رول تھا جو اب وہ بھی کم ھوتا جارہا ہے۔ بعض قومی معاملات پر سفارت کاری اب برائے راست فوج کر رہی ہے ۔ آرمی چیف کے بیرون ملک دورے وزیراعظم سے کچھ کم نہیں ۔ اب اس میں سے کتنے دورے خالصتا پیشہ ورانہ اور کتنے سفارت کاری کے زمرے میں آتے ھیں یہ تو متعلقہ ادارے بتا سکتے ھیں ۔ اس طرح فوجی ترجمان کی اھم قومی خارجہ معاملات پر بیان بازی عام بات ہے ۔

ملک کی سفارتی تنہائی کے ذمہ دار زیادہ تر عسکریت پسندی کی حمایت کی ریاستی پالیسی ہے۔ اور سب کو پتہ ہے کہ یہ پالیسی کس نے بنائی اور کون چلا رہا ہے ۔ کھلم کھلا یا در پردہ عسکریت پسندوں کی حمایت کی پالیسی اور علاقے میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان سخت بیرونی دباؤ کا شکار ہے ۔ یہ عسکریت پسندوں کی کاروائیاں ہے جو سرحدوں پر کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ چاہے بھارت کے ساتھ سرحد ہے یا افغانستان اور یا ایران کے ساتھ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ غیر محفوظ ہے اور کشیدگی رہتی ہے۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی غیر ریاستی عناصر کے کردار پر کڑی نکتہ چینی کی گی اور ملک میں بڑی تعداد میں ان کی موجودگی اور ان کی دندناتے پھرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ھوئے ان سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ غیر ریاستی عناصر کو سفارتی تنہائی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا اور ان کی وجہ سے پاکستان کو شدت پسند ملک قرار دینے کی کوششوں کی بات کی گی۔

عسکریت پسند اب اثاثے کی بجائے بوجھ بن گئ ہے جس کو پاکستان کا ناتواں وجود زیادہ عرصہ کندھوں پر اٹھا نہیں سکے گا۔ کیونکہ تمام علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں بشمول چین کا عسکریت پسندی کے خاتمے کیلئے بلا امتیاز کاروائی کیلئے دباؤ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اندرون ملک بھی اس پالیسی کے حوالے سے شدید تحفظات اور مخالفت موجود ہے۔ کیونکہ اس پالیسی کے فائدے اگر ھو بھی تو اس کا عام لوگوں کو پتہ نہیں مگر اس کے نقصانات زیادہ ہے۔ اس پالیسی کے مضر اثرات عام لوگوں کے علاوہ اب پالیسی سازوں کے گھروں کی دھلیز تک بھی پہنچنا شروع ھوگے ھیں۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ریاست کی سرپرستی اور منظم پروپیگنڈا نے عسکریت پسندی کے بیانیوں کو اتنا پھیلایا ہے کہ اس کے جراثیم معاشرے کے رگ رگ میں پھیل چکے ھیں ۔ اس سلسلے میں جذباتیت اتنی عام ہے کہ کوئی بھی اختلاف رائے یا مختلف نکتہ نظر برداشت نہیں کیا جاتا۔ اتنی تباہی اور بربادی کے بعد بھی عسکریت پسندی کے وجوھات اور عوامل پر سنجیدہ بحث و مباحثے کا فقدان ہے اور مسلے کے اصل وجوھات اور عوامل سے توجہ ہٹانے کیلئے ریاستی اداروں کی چالاکی اور پھرتیاں جاری ہے۔

اگرچہ ماضی کی نسبت جنرل راحیل شریف کے دور میں وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقاتیں کافی کثرت سے ھو رہی ہے ۔ اھم قومی معاملات پر مشاورت کی سطح نسبتا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ ایک سال ( جون دو ھزار پندرہ سے جولائی دو ھزار سولہ ) کے دوران دونوں راھنما انتیس ملاقاتیں کر چکے ھیں ۔ مگر اس کے باوجود سول اور فوجی قیادت میں اعتماد کا فقدان ہے۔ اور اس بداعتمادی کے جراثیم دونوں اور خاص کر فوجی افسران میں بہت نیچے تک پھیل چکے ھیں۔ حالیہ موٹروے پولیس واقعے میں یہ بد اعتمادی کھل کر سامنے آگی جب فوجی افسران نے واقعے کو معمولی واقعہ گردانتے ھوئے حکومت پر غیر ضروری طور پر معاملہ کو اچھالنے کا الزام لگایا۔ اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ مریم نواز شریف کی سوشل میڈیا ٹیم کو اس حوالے سے مورد الزام ٹہرایا گیا۔

میاں نواز شریف اور اس کی حکومت کے حوالے سے فوجی حلقوں میں شدید نفرت پائی جاتی ہے ۔ نواز شریف حکومت کی ھمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں کی سخت مخالفت موجود ہے۔ موجودہ حکومت کی بھارت کے ساتھ دوستی کی خواہش کو ملک دشمنی اور بھارت کی ایجنٹی قرار دیا جا رہا ہے۔ نوازشریف حکومت سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات ھو سکتے ھیں مگر اس کو سیکورٹی رسک قرار دینا ایک انتھائی بیوقوفانہ بات ہے۔

دھرنوں کے پس پردہ کون سی قوتیں تھی اور تھرڈ ایمپائر سے کیا مراد تھا اور دھرنا کرنے والے کس ایمپائر کے انگلی اٹھنے کے انتظار میں تھے یہ پاکستانی سیاست کے کھلے راز ہے ۔ وہ دن گے جب گل خان فاختے اڑایا کرتے تھے ۔ اب فاختہ کے اڑنے سے پہلے سب کو اور سب کچھ پتہ چل جاتا ہے ۔ جیسا کہ آجکل راولپنڈی کے ایک راھنما کے زریعے اسلام آباد کو بند کرنے والوں کو پہنچائے گئے کسی پیغام کی افواہیں زیر گردش ہے ۔ اس طرح پارلیمنٹ کی مشترکہ اجلاس میں شرکت کے حوالے سے پی ٹی آئی کے موقف میں تین دن کے اندر اندر اچانک تبدیلی کو تجزیہ نگار شک کی نظر سے دیکھ رہے ھیں ۔

آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع نہ لینے کے واضع اعلان کے باوجود اس سلسلے میں چہ میگیوں اور افواہوں کا سلسلہ ختم نہیں ھو رہا ہے۔ اس طرح فوجی حلقوں میں حکومت کی جانب سے کسی ممنون شریف کو اس مسند پر بٹھانے کے حوالے سے شکوک وشبھات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ نئے چیف کی تقرری کا فیصلہ ابھی تک ھونا چائیے تھا۔ لگتا ہے کہ فیصلے میں سرپرائز کا عنصر ڈالنے کیلئے تاخیر ھو رہی ہے۔

ریاستوں اور نجی دوستی اور دشمنی میں فرق ھوتا ہے ۔ اس کے معیارات بھی مختلف ھوتے ھیں ۔ ھمیں سفارت کاری کے گُر اپنے بعض ھمسایہ ممالک سے سیکھنا چائیے۔ چین کا تائیوان کے مسلہ پر برطانیہ اور بھارت سے سرحدی تنازعات موجود ہے۔ سرحدی تنازعے پر بھارت اور چین کی جنگ بھی ھو چکی ہے ۔ مگر اس کے باوجود دونوں ممالک سنگین تنازعات کو ایک طرف کرکے ایک دوسرے کے ساتھ سیاسی اقتصادی حتی کہ فوجی تعلقات بھی استوار رکھے ھوئے ھیں ۔ چین-بھارت تجارت تقریباً ستر بلین ڈالر اور چین – پاکستان کا بارہ بلین ڈالر ہے ۔ چین اور بھارت سال دو ھزار سات سے انسداد دھشت گردی کی مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی ھے۔ اور ابھی تک پانچ مشقیں ھو چکی ھیں۔

ھمارے ھمسایہ ممالک اپنے سفارتی تعلقات میں اقتصادی مفادات کو مقدم رکھتے ھیں اور ھم نظریاتی۔ اگر ھم افغانستان کی مثال لیں تو بھارت اور ایران وہاں اقتصادی ، سیاسی اور ثقافتی زرائع کو بروئے کار لاکر اپنے مفادات کو آگے بڑھاتے ھیں اور ھم عسکریت پسندوں کے زریعے۔

حال ہی میں برسلز میں افغانستان کے حوالے سے ایک اھم اجلاس میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔ جس پر عام افغان یہ کہہ رہے ھیں کہ بیشک پاکستان ھمیں ایک پیسہ نہ دے مگر طالبان کی حمایت اور سرپرستی چھوڑ دیں تو ھم پر اس سے بڑا احسان کوئی اور نہیں۔ دنیا ھم پر طالبان کی سرپرستی کا الزام لگانے میں بالکل حق بجانب ھیں کیونکہ ملا عمر کی ھلاکت سے لیکر ملا اختر منصور کی تاجپوشی اور پھر ڈرون حملے میں اس کی ھلاکت یا نئے امیر کی تاج پوشی وغیرہ تمام پاکستان کی سرزمین پر ھوئی ہے۔

تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ کے مطابق کام کرنا ھوگا۔ اور نئے رول اُف دی گیم وضع کرنے ھونگے۔ ورنہ مذید تباہی اور بربادی کو ٹالا نہیں جاسکتا۔ ادارہ جاتی تعصب سے بالا تر ھو کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

یہ دونوں فیصلے شیر کے منہ میں ھاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ لگتا ہے سول -ملٹری تعلقات خطرناک دور میں شامل ھوگئے ھیں۔ نا امیدی کا تو شکار نہیں مگر اسٹبلشمنٹ ابھی تک حساس فیصلہ سازی سول لیڈرشپ کو دینے کیلے تیار نہیں۔ ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ھوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایسے مواقع پر سول حکومتوں کی چھٹی کرائی گئی ہے۔ آیا اسٹبلشمنٹ ان فیصلوں پر خاموشی سے عملدرامد کرئیگی یا نیم دلی اور محض خانہ پری کیلئے کاروائی کرئیگی اور یا گستاخی کرنے پر سول حکومت پر وار کرئیگی۔ اسٹبلشمنٹ اپنی برسوں کی محنت اور کام کو ایسے آسانی سے جانے نہیں دیگی۔ بس خداوند تعالی سے خیر اور بہتری کی دعا ہے ۔ باقی جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ کا صاحب مضمون سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply