نابر کہانی، حصہ اول۔۔۔تحقیق و تحریر: لالہ صحرائی

تاریخ انسانی کے اس دوسرے معتبر سر کی کہانی جسے دس محرم کے دن نماز میں اتار کر نیزے پر سجایا گیا۔

محرم کی آمد کے ساتھ ہی امام عالی شان کی لازوال شہادت کا پیغام عام کیا جاتا ہے کہ خدا کے سوا کسی کے سامنے سر جھکانا حرام ہے، یہ کہنا آسان ہے اور اسپر عمل کرنا مشکل نہیں فقط جان لیوا ہے، اس مشکل کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا تھا، چوں مے گوئم مسلمانم بلرزم … کہ دانم مشکلات لاالہ را

پھر جو اس مشکل پر قابو پالے اسے مرد کہا

قبائے لاالہ رنگیں قبا است … کہ بر بالائے نامرداں دراز است

امام حسین علیہ السلام کی سنت کو ہر کسی نے اپنی اپنی اہلیت کی بنیاد پر سمجھا اور قبول کیا لیکن کوئی ایسا نہ نکلا جو سیدالشہداء کی مثل کربلا جیسے میدان میں کھڑا ھوا ھو بجز میرے دوسرے ممدوح کے جس نے ٹھیک ایک سو انسٹھ سال پہلے راوی کے کنارے اٹھنے والے طوفانِ جبر کے سامنے ایسا نابر دکھایا کہ کارل مارکس بھی داد دئے بغیر نہ رہ سکا اور جب یہ داستان بہادر شاہ ظفر تک پہنچی تو اس نے بھی بہت سراہا

(ڈیلی ٹریبیون، اکیڈمی آف پنجاب نارتھ امریکہ)

نابر نام ہے حریت پسند کا، جبر کے سامنے بیعت سے انکار کرنے والے کا، نابر کہانی اس دوسرے معتبر سر کی ہے جسے نماز میں اتار کر نیزے پر سجایا گیا، اس بہادر سپوت نے بیعت و نیابت قبول نہ کی اور لارڈ برکلے کے ساتھ ایک بھرپور جنگ کرکے راوی کے دائیں کنارے جھامرہ میں ابدی نیند سو گیا، اس کے کئی سال بعد جب لارڈ برکلے کا بھائی گوگیرہ کا کمشنر بن کے آیا تو حالات ابھی بھی اچھے نہ تھے۔

لارڈ نے شہید کے بیٹے محمدخان کو ملاقات کا پیغام بھیجا جسے رد کر دیا گیا، پھر اس نے کہا، آؤ ھم راوی کو آباد کرنا چاہتے ہیں، ایک ملاقات ضروری ہے، محمد خان جب گوگیرہ بنگلے پہنچے تو ایک سرکاری اھلکار نے کہا، آگ اور پانی ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہو سکتے، شیر اور بھیڑیئے کی کوئی دوستی نہیں، پھر کیسے آنا ہوا؟ محمد خان نے بتایا، لاٹ صاحب نے صلح کا پیغام بھیجا ہے، ایک میرے پیش ہونے سے راوی کا امن بحال ہو جائے تو مجھے انکار نہیں، اہلکار نے کہا، ہم روزی روٹی کے زخم خوردہ لوگ تمہارے وقار کو دیکھ کر اپنے زخم سی لیتے ہیں، کوشش کرنا دوآبے کا سر نہ جھُکے، مجھے تم سے ایک یہی توقع ہے۔

 لارڈ نے اپنے سامنے اس تنومند جوان کو دیکھا تو حیرت سے دیکھتا رھا، بلکل اسی طرح جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کے باپ کو دیکھا تو وہ اس کی نظروں میں اٹک گیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ ملتان کا دورہ کرکے لاہور واپس جا رہا تھا کہ سیدوالہ میں پڑاؤ ڈالا، عمائدین کو ملاقات کی دعوت دی، رنجیت سنگھ نے عمائدین پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو دائیں طرف کھڑے سردار پر نظریں رک گئیں، مہاراجہ سب کے بارے میں پوچھتا جاتا یہ کون ہے، وہ کون ہے اور معتمد اسے سب کا تعارف دیتا جا رہا تھا، پھر پوچھا یہ جوان کون ہے؟ اس نے بتایا یہ اس علاقے کے حاکم اور اس پرگنہ کے والی صالح خان کھرل کا بھتیجا رائے احمد خان کھرل ہے۔

رائے صاحب کے آباواجداد کا سیاسی تعلق مغل ڈائنیسٹی کے شہنشاہ اورنگزیب کیساتھ رہا، وہیں سے انہیں گوگیرہ میں جاگیر الاٹ ہوئی تھی، گزشتہ ڈیڑھ صدی سے وہ اس علاقے کے رئیس اور سردار تھے، رنجیت سنگھ کو پنجاب میں زیادہ مزاحمت کا سامنا اس لئے نہیں تھا کہ اس کے پیش رو درانیوں کے دور سے اہل پنجاب بالخصوص اہل لاہور بہت تنگ تھے، رنجیت سنگھ ان پڑھ ہونے کے باوجود بہت معاملہ فہم انسان تھا، اس نے تلوار سے بھی کام نکالا لیکن بیشتر جگہ اس نے بات چیت، خوش اخلاقی اور دوستانہ طرز عمل سے فتح پائی تھی، ماضی میں رائے صاحب کے خاندان کی سکھوں کیساتھ بھی کچھ جھڑپیں ہوئی تھیں تاہم رنجیت سنگھ کی یہ بیٹھک اس حال میں برخواست ہوئی کہ رائے احمد خان کھرل کو وہ اپنا پگڑی بدل بھائی قرار دے چکا تھا، یہ تعلق زبانی جمع خرچ نہیں رہا بلکہ مہاراجہ نے اس تعلق کو خوب اچھی طرح سے نبھایا اور مقامی اہلکار بھی اپنی نوکریاں بچانے کیلئے، زمین جائداد، مال مویشی، لڑائی بھڑائی کے معاملے میں، رائے صاحب کا عمل دخل اور فیصلہ مانتے تھے۔ 

سعید بھٹہ صاحب لکھتے ہیں کہ سکھا شاہی راج میں گائے کا ذبیحہ ممنوع تھا لیکن موضع کانڈیوال تحصیل لالیاں ضلع چنیوٹ کے ایک رئیس گھرانے نے اپنی شادی کی دعوت میں سات گائے ایک ساتھ ذبح کر ڈالیں، یہ قوم کے نسوآنے کہلاتے تھے، اہلکاروں نے پرچہ درج کرکے انہیں خوشاب کی جیل میں ڈال دیا، رنجیت سنگھ نے آرڈر دیا کہ تیل اور لکڑیاں اکٹھی کرکے ان سب کو تیلی دکھا دو۔ نسوانے رحم کی اپیل کیلئے کوشاں تھے، کسی نے کہا رائے احمد خان کے علاوہ اتنا سخت آرڈر کوئی نہیں ٹال سکتا، رائے صاحب کو متاثرین کی عورتوں نے گھیر کیا، کسی نے بھائی، کسی نے شوہر، کسی نے بیٹے کا رونا رویا تو رائے صاحب نے کہا اچھا پھر جلدی چلو، کہیں ایسا نہ ہو سکھڑے اتنے آدمیوں کو ساڑ ہی دیں، اسوقت کی زبان میں یہ کل سات ویہاں آدمی تھے یعنی ایک سو چالیس، رائے صاحب کی عادت تھی جب کسی سے خاص بات کہتے تو بغلگیر ہو کر کہتے، اسی انداز میں رتنو نام کے باہمن وزیر کو کہا یہ بندے چھوڑ دے، وزیر نے کہا مہاراجہ کا سخت آرڈر ہے، کہا پھر جیل خانے کی چابیاں ہی دیدے، اس نے پھر کہا مہاراجہ کا سخت آرڈر ہے، اس بار رائے صاحب نے سختی سے کہا تو اس نے چابیاں دے دیں، رائے صاحب نے جیل کا تالا کھلوا کر کہا جو نسوآنے ہیں وہ سب باہر آجاؤ، سب لوگ رہا ہوگئے، وہ موتیوں والا راجہ، موتیوں والا راجہ کا نعرہ لگاتے باہر چلے گئے، کسی نے کہا ساٹھ کے قریب بندے ابھی بھی اندر ہیں، رائے صاحب نے کہا سب نکل جاؤ، ان قیدیوں نے کہا ہم عمر قید میں ہیں اور نسوآنے نہیں ہیں، رائے صاحب نے کہا جاؤ تم بھی نکل جاؤ، میں جانوں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ۔ مہاراجہ کا دربار لگا تو کہا، کھرل صاحب یہ بہت برا کیا جو آپ نے نسوآنے چھوڑ دئے اب اس کا ڈن بھرنا پڑے گا، رائے صاحب نے کہا جو ڈن لگاتے ہو لگاؤ، مہاراجہ نے چار ہزار کا جرمانہ رکھا، اس وقت کے پانچ روپے لاکھ کے برابر تھے تو چار ہزار پورے علاقے سے اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے، رائے صاحب نے رنجیت کے محل میں نوکر بھیجا اور کسی مہارانی سے چار ہزار منگوائے، اس مہارانی نے رنجیت سنگھ کو بتایا کہ آج آپ کے بھائی کو پیسوں کی طلب تھی تو چار ہزار اسے بھجوا دئے تھے، صبح جب دربار میں جرمانہ پیش کیا گیا تو مہاراجہ نے کہا یہ عجیب بات ہے کہ جرمانہ بھی اب میرے ہی گھر سے ادا ہو گا، رائے صاحب نے کہا تیرے میرے گھر کوئی دو تو نہیں، یہی تو اک سانجھ ہے، بس تمہارا حکم پورا ہونا چاہئے تھا وہ جیسے تیسے کر دیا، مہاراجہ اس بات پر مسکرا دیا اور کہا یہاں راج تو پھر کھرلوں کا ہی ہوا ناں، ہم تو ایسے ہی بیٹھے ہیں، مہاراجہ نے رائے صاحب کو رخصت کرتے وقت ان کے مصاحبوں کیلئے پچیس پچیس روپے نذرانے کا اعلان کیا اور رائے صاحب کیلئے کنگن اور پوشاک منگوائی۔

رنجیت سنگھ نے لاہوریوں کی ایماء پر 1799 میں لاہور پر قبضہ کرکے لوٹ مار کرنیوالوں سے پنجاب کی جان چھڑائی تھی، پھر 1802 میں امرتسر اور لدھیانہ پر قبضہ کیا تو انگریزوں کے ساتھ بھی اٹ کھڑکا شروع ہو گیا، انگریزوں کیساتھ یہ ٹسل 25 اپریل 1809 کو عہد نامہ امرتسر کے تحت ختم ہوگئی مگر انگریز نے اس معاہدے کا پاس کم ہی کیا، 27 جون 1839 میں مہاراجہ کی وفات کے بعد کھڑک سنگھ تخت نشین ہوا، اس کے بعد نونہال سنگھ، شیر سنگھ اور دلیپ سنگھ وغیرہ، یہ سب رنجیت سنگھ کے بیٹے تھے مگر آپسی چشمک کی وجہ سے کوئی بھی پائدار حکومت نہ بنا سکا پھر لال سنگھ، تیج سنگھ اور کشمیر بیچنے والے ہری سنگھ کے باپ گلاب سنگھ جیسے غداروں کی وجہ سے 1849 میں پنجاب پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا۔

دریائے راوی لاہور سے ملتان کی طرف بہتا ہے اس لحاظ سے دریا کے بائیں کنارے پر نیلی بار کا علاقہ ہے جس میں اوکاڑہ، پاکپتن اور ساہیوال آتے ہیں، یہ علاقہ اس وقت ملتان ڈویژن میں تھا، اب بھی اسی میں ہے، دریا کے دائیں کنارے پر اس وقت کا لائیلپور اور موجودہ فیصل آباد ڈویژن واقع ہے جس میں تھانہ باہلک، تاندلیانوالہ اور سمندری کا شہر قابل ذکر ہیں اسے ساندل بار اور پنجابی میں ساندڑ بار بھی کہتے ہیں۔ اوکاڑہ سے فیصل آباد روڈ پر بیس کلومیٹر پہ بنگلہ گوگیرہ واقع ھے جو اسوقت انگریز سرکار کے ڈسٹرکٹ منٹگمری کا ہیڈکوارٹر تھا اور اس کے بالمقابل دریا کے اس پار موضع جھامرہ ہے جو رائے احمد خان اور کھرلوں کا آبائی مسکن تھا۔ انگریز آگئے تو پنجاب میں امن کا دور بھی لد گیا اور سب کچھ سر کے بل نیچے آگرا، اس دوران رائے صاحب اپنے قبیلے والوں سے مزاحمت کی صلاح کرتے رہے مگر بڑوں کا کہنا تھا کہ ابھی اس لڑائی کا وقت نہیں آیا، جب وقت آئے گا تو جم کر لڑیں گے۔

نارمن جی بیرئیر نے جان بمیز کے حوالے سے لکھا ہے

“There was no law in the Punjab in those days. Our instructions were to decide all cases by the light of common sense and our own sense of what was just and

‌right.”

پروفیسر سعید بُھٹا صاحب لکھتے ہیں، “گورے دی کامن سینس تے آزاد بندے دی سینس وچ لکھاں کوہاں دے پاڑے ہن، اوہدی کامن سینس ایہا ہا کہ ایس دیس وچوں دولتاں دے ڈھگ اکٹھے کیتے ونجن تے ایس کان غلاماں دی کنھی اتے گوڈا اینج منڈھیا ہا کہ ہر گل اتے آکھن جیہڑی نیت امام دی اوہا اساڈی”

اس مقصد کیلئے انگریز نے تحصیلداروں، پٹواریوں اور تھانیداروں کو اندھے اختیار دے رکھے تھے تاکہ لوگوں کو دبا کے رکھا جا سکے، ان کے اوپر انگریزوں کا ایک اسکاٹش افسر اسسٹنٹ کمشنر لارڈ لیوپولڈ اولیور فزرڈنگ برکلے اس علاقے میں خصوصی طور پر تعینات تھا تاکہ یہاں کے وسائل سے مرکز کو بھرپور فائدہ پہنچایا جاسکے، برکلے کا باپ ھنری جیمز بریلی کے کلکٹر آفس میں ھیڈ کلرک تھا، لارڈ برکلے 1829 میں بریلی میں ہی پیدا ہوا، 1830 میں اسے بپتسمہ ملا اور 1857 میں اٹھائیس سال کی عمر میں گوگیرہ کا لارڈ متعین ہوا۔

دادا پھوگی کے مطابق جب دہلی اور میرٹھ میں بغاوت ہوئی تو لارڈ برکلے نے رائے صاحب کو بلایا اور افرادی قوت مہیا کرنے کا تقاضا کیا جو دہلی کی بغاوت کچلنے کیلئے درکار تھی اس کے علاوہ اچھی نسل کے گھوڑے بھی مانگے، برکلے کچھ عرصہ قبل ایک معتبر آدمی کی گھوڑی بھی چھین کے لے آیا تھا، اس گھوڑی کی پھرتی اور رنگت بیمثال تھی، وہ صاحب گھوڑی بیچنے پر راضی نہ ہوئے تو اس نے چھین لی، رائے صاحب نے اس وقت بھی گزارش کی تھی کہ ہمارے روحانی پیشوا کی گھوڑی واپس کر دیں، جب برکلے نہ مانا تو اسے چار ہزار روپے کے عوض خریدنے کی پیشکش کی مگر وہ پھر بھی نہ مانا۔

سعید بُھٹا صاحب لکھتے ہیں “اخیری کردیاں کردیاں احمد خان نوں وی جوش آیا بھئی ایس لڑائی اچ اساڈے ساندڑ بار کا حصہ وی ہونا چاہی دا، کیہ آکھسن، ایہہ نئیں لڑدے تے دوآ لوک لڑدا پیا ہے”

لارڈ برکلے نے کہا، رائے صاحب مجھے دہلی کیلئے بندے اور گھوڑے ہر صورت میں درکار ہیں، اس کے بدلے میں آپ کو لندن سے بڑا اہم سرکاری اعزاز لیکر دوں گا۔ رائے احمد خان کھرل نے کہا،

“ھم کبھی بھی کسی بھی حال میں اپنے گھوڑے، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے”

رائے صاحب، ان کے ساتھی سارنگ فتیانہ و دیگر لارڈ برکلے کو صاف جواب دے کر واپس اپنے گاؤں جھامرہ چلے آئے لیکن کچھ دنوں بعد ایک نئی اور ایسی گھمبیر صورتحال پیدا ہوگئی کہ رائے صاحب کو سرکار کے خلاف ہتھیار اٹھانا پڑ گیا۔

گوگیرہ کے ارد گرد نیلی بار اور ساندل بار میں لارڈ برکلے کی چیرہ دستیاں بڑھتی جا رہی تھیں یہاں کے لوگوں کا روزگار دو تین بڑی حرفتوں کے ساتھ منسلک تھا جس میں زمیندار، کسان مزدور، خدمتگار طبقہ اور مال مویشی پال کر بیچنے والے شامل تھے، سیدوالہ اور گوگیرہ اسی اعتبار سے علاقے میں اناج، اجناس اور دیگر ضروریات کی مرکزی منڈی بھی تھا، یہ سارے طبقے ہی انگریز کے خلاف تھے لیکن اپنے عہد کی سپر پاور کے ساتھ ٹکر لینے کی ہمت کسی میں نہ تھی، ان میں لوہار بھی تھے جو اسلحہ اور زرعی ھتھیار بنانے کے ماھر تھے، دیگر لوگ جنہیں عرف عام میں کمی کہا جاتا ہے وہ بھی اسلحے کے استعمال سے بے بہرہ نہیں تھے، عام لوگ جو مال مویشی پال کر گزارا کرتے تھے لڑائی بھڑائی میں وہ بھی چست تھے جبکہ سردار طبقہ مالی اور دیگر وسائل سے مالا مال تھا، لیکن اس کے باوجود سرکاری تقاضوں کے سامنے انکار کی مجال یا مقابلے کا حوصلہ کسی میں نظر نہیں آتا تھا، اس سلسلے میں ہر کسی کی نظریں رائے صاحب کی طرف ہی اٹھتی تھیں۔۔۔۔۔

رائے صاحب جیسا آزاد منش شخص جس نے اپنے علاقے اور لوگوں کے مفاد کیلئے ہمیشہ دربار سرکار میں اپنی بات منوائی اب وہ تھانہ اور سرکاری نظام میں کافی بے بس نظر آتے تھے، ان مشکلات اور ملک میں انگریزوں کے خلاف اٹھتی ہوئی مزاحمت کو دیکھ کر رائے صاحب بھی مزاحمت کا فیصلہ کر چکے تھے۔  انگریز نے دس سال کے اندر پنجاب میں پچیس جیلیں اور تھانہ کلچر قائم کیا تاکہ جو سر اٹھائے اس کا سر نیہوڑایا جا سکے، اس کے عملی مظاہرے جا بجا ہو رہے تھے، نیلی بار میں اس کا بڑا مظاہرہ اس وقت ہوا جب تعلقہ سبوکا کی جوئیہ برادری نے مالیہ اور لگان وصول کرنے والے سرکاری عملے کو انگریز کی مرضی کا بھاری معاملہ دینے سے انکار کر دیا، اس کی پاداش میں انہیں نابر، باغی، انکاری قرار دے کر پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہوا۔

جنرل منٹگمری نے لارڈ برکلے کو خصوصی ہدایات بھیجیں “اس سے پہلے کہ یہ بغاوت پنجاب بھر میں سرایت کر جائے اسے وہیں کچل دو” اس حکمنامے کے بعد اہلکاروں کے ہاتھ جو کچھ بھی لگا ان سب عورتوں بچوں اور مال مویشیوں کو ہانک کر وہ بنگلہ گوگیرہ لے گئے اور جیل بند کر دیا۔ اس موقع پر جھامرے کے قریب پتن پر ایک اجلاس ہوا جس میں وٹو برادری نے سیدوالہ پولیس اسٹیشن پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن رائے صاحب نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وھاں پیٹ کی خاطر نوکری کرنیوالے چند اپنے ہی لوگ ہوں گے جو مارے جائیں گے اس میں انگریز کا کیا جائے گا؟ کام وہ کرو جو انگریز کے تابوت ثابت ہو

پھر 26 جولائی 1857 کی رات رائے صاحب نے ایک دستے کیساتھ گوگیرہ جیل پر حملہ کیا اور تمام باغیوں کو رہا کرکے لے گئے، ان مجاہدین کے علاوہ قیدی بھی بے جگری سے لڑے، اس مقابلے میں انگریز کے پونے چار سو سپاہی مارے گئے اور رائے صاحب خود بھی زخمی ہوئے، اس معرکے کے بعد سب لوگ راوی کے جنگلات میں روپوش ہو گئے۔

گوگیرہ جیل

لارڈ برکلے نے ایک چال چلی اور رائے صاحب کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر گوگیرہ لے گیا، یہ اطلاع ملنے پر رائے صاحب نے گرفتاری دیدی لیکن وٹووں اور دیگر قوموں کے کوبکو احتجاج سے عام سماج میں بھی شورش بلند ہونا شروع ہو گئی، ڈر تھا کہ بغاوت ایک نیا رخ اختیار کر جائے گی اور بات گلی محلوں تک بڑھ جائے گی اس لئے رائے صاحب کو رہا کر دیا گیا، رہائی کے بعد رائے صاحب اور ان کے مجاہدین نے کمالیہ، چیچہ وطنی اور ساہیوال تک کا سارا علاقہ گوریلا کاروائیوں سے تین ماہ تک متاثر کئے رکھا، پھر ایک فیصلہ کن جنگ کا منصوبہ ترتیب دیا۔

کارل مارکس برصغیر میں برطانیہ کی پالیسیوں اور نظام پر امریکی اخبار “نیویارک ڈیلی ٹریبیون” میں مسلسل مضامین لکھ رہا تھا جو مارکسزم کے نیٹ آرکائیو پر بھی موجود ہیں، مارکس 1857 کی جنگ آزادی پر بھی نظر رکھے ہوئے تھا، رائے صاحب کی اس جدوجہد کو مارکس بھی نظر انداز نہیں کر سکا، اس نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ “پنجاب میں انگریزوں کے لئے مجاھدین کی طرف سے ایک نئی مشکل کھڑی ہو گئی ہے جس سے پچھلے آٹھ دنوں سے ملتان سے لاہور تک آمدورفت کا راستہ بند ہوگیا ہے اور ان لوگوں نے انگریز کے سارے رابطے ختم کر دئے ہیں جو انگریزوں کیلئے سخت تشویش کا باعث بن چکا ہے”

لارڈ برکلے جو کل تک دہلی کی مدد کرنے میں جانفشانی سے جتا ہوا تھا اب اسے اپنا علاقہ قائم رکھنے کیلئے مدد کی سخت ضرورت پڑ چکی تھی، برکلے کی درخواست اور علاقے کی صورتحال دیکھ کر ملتان اور لاہور سے دس فوجی دستے گوگیرہ روانہ ہوئے جن کی کمان یہ افسران کر رہے تھے

Col. John Paton, Capt. Blake, Capt. Chamberlaine, Capt. McAndrew, Capt. Snow, Lt. Chichester, Lt. Neville, Lt. Mitchel & Assisstant Commissioner Lord Berkley

جبکہ ان کی پشت پر چار بڑے افسر بھی موجود تھے

General Montgomery

Maj. G. W. Hamilton Commissioner of Multan

Maj. A. A. Roberts Commissioner Lahore

Mr. Elphinstone, DC Montgomery/Gogera

اتنی بڑی کاروائی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان تین ماہ میں یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسٰی، سیدوالہ، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شورکوٹ، جھملیرا، ساہوکا، پاکپتن، قبولہ اور دریائے ستلج تک پھیل گئی تھی جس میں کم و بیش 125000 سوا لاکھ مجاھدین شامل تھے، گوگیرہ کی اپنی آبادی تقریباً تین لاکھ تھی اور ملتان تک کی کل آبادی تقریباً پونے دس لاکھ کے قریب تھی جس میں سے دن بدن مجاہدین نکل کر سامنے آرہے تھے اور تحریک زور پکڑتی جا رہی تھی۔

جولائی اگست اور ستمبر میں بھی چھاپہ مار کاروائیاں جاری تھیں، اس دروان لڑائی کا دائرہ مؤثر بنانے کیلئے علاقے کے سرداروں سے رابطے بھی جاری تھے اس سلسلے میں مراد فتیانہ کے بھائی بہاول فتیانہ نے بہاولپور کے نواب کو ایک لاکھ مجاہدین کیلئے اسلحہ اور مالی امداد کیلئے خط لکھا، نواب نے امداد کیا کرنی تھی الٹا وہ خط لیجا کر گورنر کو دے دیا جو پنجاب سیکریٹیریٹ کے آرکائیو ڈیپارٹمنٹ میں محفوظ ہے (اکیڈمی آف پنجاب، نارتھ امریکہ)

انگریزوں کی جمع شدہ طاقت کو دیکھتے ہوئے جس مجلس میں انگریزوں کے ساتھ باقائدہ فیس ٹو فیس میچ۔لاک شروع کرنے فیصلہ ہوا اس میں کمالیہ کے سرفراز کھرل اور دیگر بہت سے سردار شامل تھے، رائے صاحب واپس جھامرے آئے اور حملے کیلئے دریا پار اترنے کی تیاری کرنے لگے جبکہ سرفراز کھرل اور جیوے خان مخبری کرنے رات گئے بنگلہ گوگیرہ ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچ گئے۔

ڈپٹی کمشنر گوگیرہ الفنسٹون نے کمشنر ملتان میجر ہملٹن کو لکھا “جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں احمد خان کی سربراہی میں گوگیرہ جیل توڑی گئی ہے اس موقع پر قیدیوں کی جانوں کا خاطرخواہ نقصان ہوا، میں نے برکلے کو بیس گھڑسواروں کے ساتھ احمد خان کے پیچھے روانہ کیا تھا تاکہ وہ اسے راوی پار کرنے سے پہلے پکڑ لائے لیکن برکلے کا جواب آیا کہ وہ راوی پار کرچکا ھے، پھر اس نے خود حاضری دی اور کہا کہ وہ تاج برطانیہ کا وفادار نہیں بلکہ اس کی وفاداری مغل شہنشاہ کے ساتھ ھے۔ ڈپٹی کمشنر نے مزید لکھا کہ کمالیہ کے سرفراز کھرل رات گئے مجھ سے ملنا چاھتے تھے ان کا کہنا تھا کہ انتہائی اھم اطلاع دینا مقصود ھے، ملنے پر اس نے بتایا کہ راوی کے سب سردار میرے پاس مدد حاصل کرنے کیلئے جمع ھیں اور وہ ایک جم غفیرکے ساتھ ایک بڑی بغاوت برپا کرنیوالے ھیں۔

رائے صاحب نے ملاحوں سے کہا ساری بیڑیاں ملنگ والے پتن پہ کھہنچ لاؤ، سارنگ نے کہا راء جی سامنے توپیں ہیں، انگریز جھامرے کو مونج کی طرح کوٹ کر پھوگ بنا دیں گے، ایسے ہی تحفظات چند دیگر ساتھیوں کے بھی تھے، آدھی رات کا وقت تھا، سارنگ کے جواب میں رائے صاحب نے مجاھدین سے کہا سب سے پہلے میرا بیٹا اللہ داد کشتی پر سوار ہوگا پھر میں تاکہ کل کو تم یہ نہ کہو راء جی نے بیکار میں سب کو مروا دیا اور خود کنارہ کرگئے، لائیلپور کے قریب رڑانے کے جج تھے وہ رعیت بھی تھے، شیرخان جج نے کہا راء جی ایہہ لڑکا کوئی لوہے کا تو ہے نہیں جو توپ کا وار روک لے گا، ہم سارے جج اس پتن پر لڑ مریں گے اور زندگی بھر یہ ججاں والا پتن کہلائے گا، شیرے جج نے یہ کہہ کر اللہ داد کو کشتی سے اتار دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔باقی دوسرے حصے میں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”نابر کہانی، حصہ اول۔۔۔تحقیق و تحریر: لالہ صحرائی

Leave a Reply