بدلتے دور اور بدلتی اقدار کے مصداق اب زندگی گزارنے کا طریقہ بھی بدلتا جارہا ہے، پہلے جو لوگ بغیر شادی کے زندگی گزارنے کو ترجیح دیا کرتے تھے، اب نہ صرف شادی میں بقا ڈھونڈتے نظر آتے ہیں بلکہ شادی کو ایک فطری عمل قرار دے کر اس کو اپنا رہے ہیں۔
مرد شادی کیوں کرتا ہے؟ ہم بچپن سے یہ بات سوچا کرتے تھے اور جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے یہ خیال مزید زور پکڑتا چلا گیا کہ مرد اپنی سیدھی سادھی زندگی کو چھوڑ کر خود اتنی مشکلات بخوشی کیوں اپنے سر لے لیتا ہے۔ جب ہم جوان اور حساب کتاب کرنے کے قابل ہوئے تو یہ بات اور زیادہ شدت سے محسوس ہونے لگی کہ شادی سراسر گھاٹے کا سودا ہے، ہم نے اپنے بھائیوں کے خرچے کا موازنہ ان لڑکوں سے کیا جو شادی شدہ نہ تھے اور وہ دو تین گرل فرینڈ بآسانی افورڈ کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب ہمارے بھائی اپنی اکلوتی بیوی اور فقط ایک عدد بچہ سنبھال نہیں پا رہے تھے۔ بیوی اور گرل فرینڈ کے اخراجات کے تخمینے کے مطابق بیوی کا خرچہ تین عدد گرل فرینڈز سے زیادہ بنتا ہے مگر اس کُھلی حقیقت کے باوجود مرد شادی کرنے مصر رہتا ہے۔ مرد کو اپنی شادی پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر لاکھوں روپے اُڑا دینے کے بعد بیوی بچوں کے ضروری اخراجات کے علاوہ بچوں کی فرمائشیں اور بیوی کے نخرے بھی پالنے پڑتے ہیں۔ رہائش کا مناسب انتظام، کپڑے، کھانا اور دوسری عام و خاص ضروریات، ہسپتال اور اسکول کے اخراجات اور بیوی بچوں کے آرام و سکون کے لیے لاکھ جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کنوارے پن میں بارش کو انجوائے کرنے والا شخص اب سردی، دھوپ اور بارش کی پرواہ کیے بغیر اپنے بیوی بچوں کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ عورت کو برابری کا درجہ دینا اور اس کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنا شوہر کی اولین ذمہ داری بن جاتی ہے۔
شادی کے بعد ایسی تمام ذمہ داریاں نبھانے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ مرد کی یہ پرواہ، قربانی و ایثار والی عادت بے معنی نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ جل شانہ کی طرف سے ملنے والی ایک خاص عنایت ہے۔ اللہ تعلی اربوں انسانوں کو پیدا کر کے ان کے لیے اتنی بڑی دنیا تشکیل دیتا ہے، ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے جو کہ کسی ضرورت کے تحت نہیں بلکہ محض اپنی عبادت اور قربت کے لیے تاکہ بنی نوع انسان عبادات کے مرحلے سے گزر کر اپنے حقیقی رب کی قربت حاصل کر سکے، یعنی اللہ پاک اپنے ساتھ کسی کی شراکت کو گناہ کبیرہ گردانتے ہیں اور اپنی ایسی ہی صفت اللہ جل شانہ نے مردوں میں ڈال دی، و ہ اپنی بیوی کے لیے سب کچھ کرتا ہے، دنیا کی ہر شے مہیا کرتاہے اور ہر چیز کا خیال رکھتا ہے، جس طرح اللہ کو اپنی مخلوق پیاری ہے بالکل اسی طرح ہر اچھے مرد کو اپنی بیوی سب سے پیاری ہوتی ہے. مرد ”خدا“ نہیں ہوتا باقی سب ہوتا ہے. جبھی تو اللہ نے شوہر کو مجازی خدا کا درجہ دیا ہے. مرد اپنی بیوی کی تمام غلطیاں معاف کرتا ہے یا پھر کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر ”شرک“ کبھی معاف نہیں کرتا. مرد تمام خدمات کے صلے میں عورت سے صرف وفاداری چاہتا ہے، اس لحاظ سے بیوی کی یہ ذمہ دار ی ہے کہ وہ ہر حال میں شوہر کی وفادار اور قابل بھروسہ ساتھی بن کر رہے۔ دنیا میں بیوی سے جنسی قرابت کا حق دار صرف اور صرف شوہر ہی ہے، اسی لیے قرآن میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، اسی لیے میاں بیوی کے رشتے کو پہاڑ کے پتھریلے راستے جیسا بھی کہا جاتا ہے جو اونچ نیچ سے گزر کر ہی بلندی تک پہنچتا ہے۔
اللہ کے نزدیک شادی سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے، یہ عمل نبیوں کی سنت رہا ہے، اللہ پاک نے اس عمل میں اپنی برکت و رحمت رکھی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ شادی کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پسندیدہ سنت ہے، شادی شدہ انسان کی دو رکعت نماز غیر شادی شدہ مرد کی ستر نماز سے افضل ہے اور جو سکون شادی شدہ مرد کو اپنے بچوں کے پاس آنے کے بعد ملتا ہے، وہ اس کو دنیا میں کہیں اور نہیں ملتا۔ بات بس ذرا سے مشاہدے کی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں