کیونکہ عورت مرد جیسی نہیں ۔۔۔۔

میں چاہتا ہوں کہ عورتیں سڑکوں پر کھڑی ہو کر سگریٹ پئیں اور سگریٹ کے دھوؤں سے چھلے بنا کر پاس آتے جاتے لڑکوں کے منہ پر چھوڑیں۔
وہ پان کھائیں ،گٹکا  کھائیں اور بے پرواہ ہوکر تھوكیں اور سڑکوں اور دیواروں کو اپنی تھوک سے سرخ کر دیں۔
وہ پان کی دکانوں پر بیٹھیں آنے جانے والوں کو تاڑیں۔۔

میں چاہتا ہوں کہ عورتیں باتیں کریں کہ فلاں آدمی کا بیٹا بڑا حرامی ہے وہ باتیں کریں کہ فلاں آدمی کے داماد کا پہلے کسی لڑکی سے چکر تھا۔
وہ مردوں کے لباس کی باتیں کریں ان کے چال چلن کی، کردار کی۔
وہ کہیں کہ فلاں آدمی سالہ لوز كریكٹر کا ہے ،سالے کی  پتلون کی زپ ہمیشہ نظر آتی رہتی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ عورتیں موٹی موٹی گالیاں دیں۔۔۔گالیاں دیں باپ کی، بھائی کی، بیٹے کی یا ایسی ہی کوئی گندی گالی جو مردوں کی مردانگی پر ضرب ہو۔۔

میں چاہتا ہوں کہ عورتوں بھی بیت الخلاء جانے والے مردوں کو سیٹی ماریں۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ عورتیں بھی بیت الخلاء جائیں تو دیواروں پر ویسی ہی بھدی گالیاں اور نمبر لکھ آئیں جیسے مرد لکھتے ہیں۔۔
لڑکوں کو بدنام کرنے کے لئے وہ بھی بسوں کی سیٹوں پر اور باتھ رومز میں لڑکوں کا نام لکھیں ساتھ میں اسکا نمبر لکھیں۔

میں چاہتا ہوں کہ عورتیں بھی کسی جاتے نوخیز جوان کو دھکا دیں ،جس کے بعد گھر میں سوئے غیرت مند بوڑھے باپ کے دل میں خیال آئے کہ خدا کرے میرا بیٹا ٹھیک ہو مگر ایسا نہیں ہوگا۔۔

میں چاہتا ہوں کہ عورتیں بھی “سوہنیا اممم” کا نعرہ لگائیں بےعزت کریں۔

میں یہ سب چاہ سکتا ہوں پر ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ عورتیں کبھی ایسا نہیں کرینگی۔۔۔
کیونکہ عورت مرد جتنی گری ہوئی نہیں ہوسکتی کیونکہ اُس کے پیٹ سے جنم لینے والا تاریخ کا معزز ترین شخص بھی بنا ہے۔
مرد  ذات فوقیت کا نام ہے۔۔
مرد زات طاقت کا نام ہے۔۔
مرد  ذات اعلی  ہے۔۔
مگر رک جائیے ،ٹھہر جائیے ۔۔کسی ممتا کی  کوکھ سے نکلے مرد کو شاید پتہ نہیں  کہ بیٹی کا درد کتنا ہے۔۔
کیا تم موت سے ڈرتے ہو؟۔۔
کیا تم خدائے  ذوالجلال کی بےآواز لاٹھی کو محسوس کرتے ہو؟
کیا تمہیں پتہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں آئیں لڑکیوں کی مائیں رات بھر سو نہیں سکتیں کہ بیٹی کس حال میں ہوگی؟
محسوس کرتے ہو؟
نہیں کرتے؟۔۔۔۔۔
تو انتظار کرو اس احساس کا جب خدا تمہیں بیٹی جیسی رحمت سے نوازے گا پھر تمہاری رگ رگ سے شرم و حیا کا درد اٹھے گا جو تمہیں سونے نہیں دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ تحریر فیس بک سے کاپی کی گئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply