منقسم قوم کے متحد رہنما۔۔ عظمت نواز

ہم میں سے بہت سارے جانتے ہوں گے کہ یورپ کے علاوہ ایک “یو کے” ہمارے پاک و ہند میں بھی واقع ھے۔ اس کا اصل نام تو کیرالہ ھے مگر وہ تو اتنے ریاست و زبان پرست ہیں کہ انہیں ہم چھیڑنے کے لیے کہا کرتے ہیں کہ تم لوگ یونائیٹڈ کیرالہ( یو کے )والے ہو، جبکہ ریاست کا نام فقط کیرالہ ہی ہے۔ ایسی یکجہتی بلا تفریق مذہب میں نے کم از کم کسی دوسرے میں نہیں دیکھی۔ وہ ایک دوسرے کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور اسی مناسبت سے پیش آتے ہیں کہ یہ ملیالی( ملیالم زبان بولنے والا) ھے یعنی مسلمان ہندو و عیسائی کی کوئی تفریق قطعاً نہیں پائی جاتی۔ کاش ہم بھی کبھی بلا تفریق مذہب و مسلک اسی جذبے سے سرشار ہو جائیں تو زندگی کے بقیہ دن بہار گزر یں اور آنے والی نسلیں کشت و خون سے محفوظ رہ سکیں۔

اس سے ایک قصہ ذہن کے دریچوں پر دستک دینے لگا ھے، جب ہم گاؤں میں بسا کرتے تھے۔ گاؤں میں ہمارا گھر جامع مسجد جو کہ بریلوی مسلک کے قبضے میں ھے کے ساتھ جڑا ہوا تھا، سو بہتیرے وعظ سنتے بچپنا گزرا ھے – کچھ بارہ برس کی عمر رہی ہو گی کہ سالانہ میلاد النبی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اجتماع اسی جامع مسجد میں منعقد ہوا- مرکزی خطیب اس اجتماع میں مولانا گل محمد سیالوی تھے جو بطور خاص ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں اس محفل میں شرکت واسطے تشریف لائے تھے – ان دنوں اکثر علاقوں کی طرح گاؤں پر غلبہ بھی بریلویت ہی کا تھا اور دوسرے مسالک خال خال ہی وہاں موجود تھے – پورے گاؤں میں چند گھرانے تھے جو کہ دیو بند مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور اس اجتماع میں دو اہم افراد جو کہ دیو بند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے، تشریف لائے تھے اور مولانا گل محمد سیالوی کی تقریر ہمہ تن گوش ہو کر سماعت فرما رہے تھے۔ باقی ساری مسجد بریلویت سے لبریز تھی۔ رات کا پچھلا پہر تھا اور مولانا کا وعظ عروج پر تھا کہ نصیب دشمناں وہاں موجود دو دیوبندی حضرات جو کہ تقریر کو ریکارڈ بھی کر رھے تھے نے اٹھ کر مولانا سے ایک سوال پوچھ لیا – ابھی مولانا جواب عنایت کرنے کے واسطے پر تول ہی رھے تھے کہ چاچا ستار جو کہ ہمارے دادا کے ساتھ اکثر شکار پر جایا کرتا تھا اس نے آواز لگائی کہ “او مارو اوئے انکو یہ فتنہ باز یہاں بھی آ گئے”۔ بس پھر ایسا اودھم مچا کہ خدا کی پناہ اور بریلویت ساری کی ساری دیو بندیت پر ٹوٹ پڑی – اس دوران مولانا صاحب سٹیج سے بارہا دھاڑے کہ چھوڑ دو، پوچھنے دو سوال پوچھنے دو سوال، مگر مومن اپنی آئی پر آجائے تو وہ تو خدا کی نہیں سنتا یہ تو پھر مولانا صاحب تھے، تو کون سنتا؟ الغرض سب نے برکت واسطے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور اسی دوران میں نے اپنے ہم مکتب ارشد کو بھی ان دو مار تناول فرمانے والوں میں سے ایک بندے کو مکا مارتے دیکھا جو کہ ارشد کا پڑوسی تھا۔ حالانکہ ارشد کا اپنا گھرانہ بھی مکتبہ دیو بند سے ہی تعلق رکھتا تھا اور مار کھانے والے دو افراد بھی۔ جب مومنین کا غصہ کچھ کم پڑا اور چند افراد نے دو افراد کو مسجد سے جیسے تیسے بچا کر نکالا تو میں نے ارشد سے پوچھا کہ وہ باقی تو مخالفین تھے مارنے والے مگر تم کیوں مارنے والوں میں شامل ہوئے؟ کہنے لگا در اصل اگلے دن ان میں سے ایک صاحب،جو ہمارے پڑوسی ہیں، کی ہمارے گھر والوں سے تو تو میں میں ہوئی تھی سو اب موقع تھا میں نے بھی بدلے کی غرض سے دو چار مکے جڑ دیے۔ یعنی ہر جگہ ایسے واقعات میں دینی مخالفت کے علاوہ ذاتی عناد بھی بدرجہ اتم موجود ہوتا ھے مگر اسکا شمار بھی دینی کھاتے میں ہی کیا جاتا ہے جو کہ بذات خود ایک بہت بڑا منافقانہ پہلو ھے۔

 دکھ کی بات یہ ھے کہ اب حالات ان دنوں سے کہیں زیادہ خراب ہیں اور دوسرے مسلک و فرقہ کا وجود تک برداشت نہیں کیا جاتا – ہم نے اتنے عرصے میں مذہبی طور پر بعد از بسیار محنت شدید سختی اپنا لی ھے اور مذہبی طور پر اختلاف رکھنے والوں کے لیے جان لینے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہیں۔ ہماری سمت اتنی غلط ہے کہ ہمیں یہ تک نہیں پتا کہ ہمارے عقیدے سے باہر بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ ہماری اختیار کردہ راہ غلط منزل کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ میں عقل کل نہیں ہوں، برسوں سے یہاں کاروبار امن مفقود ھے، عشروں سے یہاں کوئی بلبل نہیں چہکی – اس دشت کے اجڑنے میں نمایاں کردار ھے ہر اس ہم وطن کا جسے اپنے سوا کوئی دوسرا ٹھیک دکھائی نہیں دیتا – ایک عرصے تک قوم کی تقسیم مذہبی، لسانی، سماجی بنیادوں پر کی گئی کہ اب وہ خلیج کسی طرح پر ہو کر نہیں دے رہی – ریاست کی گرفت ان پر کمزور رہی جو ایک لمبے عرصے تک لوگوں کا دین سیدھا کرنے کے چکر میں انکی دنیا اجاڑتے رہے ہیں البتہ اپنا دین تو پتہ نہیں مگر دنیا خوب سے ھے خوب تر کی مثل بناتے چلے گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

وہ جنھوں نے اس “قوم نما” کو تقسیم در تقسیم کا شکار کیا، اپنے مفاد کیلیے ہمیشہ متحد ہو جاتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply