پاکستان کو درپیش نئے چیلنجز۔۔۔عاصم اللہ بخش

کراچی میں چین کے کونسل خانہ پر ہونے والے حملہ کی طرح گوادر میں پرل کانٹیننٹل ہوٹل کے تمام حملہ آور بھی مار گرائے گئے۔ دونوں واقعات کے حوالہ سے یہ حیرت انگیز معلومات سامنے آئیں کہ حملہ آوروں میں مبینہ “مسنگ پرسنز” بھی شامل تھے۔ اس بات پر عمومی اطمینان پایا گیا ، بلکہ کسی حد تک طنز بھی ہو ا کہ مسنگ پرسنز کی حقیقت دراصل یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی سے “مسنگ” ہو کر ایسی کاروائیاں کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح یہ “سچ” بھی دو انتہاؤں کے بیچ کہیں موجود ہے۔ نہ تو سارے مسنگ پرسنز سکیورٹی اداروں کی کاروائیوں کی وجہ سے غائب ہیں اور نہ ہی سارے بی ایل اے ، بی آر اے وغیرہ میں موجود رہ کر ملک دشمن کاروائیاں کر رہے ہیں۔

اس پر کافی بات ہو سکتی ہے، تاہم اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔اس موقع پر  میرے لیے جو بات سب سے زیادہ اہم ہے وہ “فدائی” حملوں کے اس نئے رجحان کا ظہور ہے ۔ اس پر فوری اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہے ورنہ یہ پہلے سے پیچیدہ صورتحال کو مزید گمبھیر کر سکتا ہے۔

گھات لگا کر کاروائیاں کرنا، بم دھماکے کرنا، فورسز کے قافلوں پر حملے ایک بات ہے اور کراچی و گوادر جیسے “خودکش” حملے بالکل الگ بات۔ آخر الذکر حملوں کو محض بھارت ، افغانستان یا امریکہ کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا ، کسی کو اپنی جان دینےپر آمادہ کرنا آسان کام نہیں جب تک کہ جان دینے والے کی کسی کاز کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ موجود نہ ہو۔ اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ جب کسی تحریک کو اس قسم کے لوگ میسر آنے لگتے ہیں تو دشمن کے ہاتھ گویا الہ دین کا چراغ آ جاتا ہے۔ اس کو یوں دیکھیں کہ بھارت اور دیگر کو ایسے لوگ مل چکے ہیں تو ان کے پاکستان مخالف پلان بہت تیزی سے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ کاؤنٹر انسرجنسی پر کام کرنے والے عالمی ماہرین کی رائے میں اس طرح کے واقعات سے مقامی افراد گہرا جذباتی تاثر لیتے ہیں اور ایسی کاروائیاں کرنے والوں کو ہیرو کی نظر سے دیکھا جانے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔ رہی سہی کسر تحریک سے وابستہ دانشور طبقہ کرتا ہے، جب وہ ان “ہیروز” کے کارناموں پر نظمیں اور کہانیاں لکھنے کا عمل شروع کرتا ہے ۔ ایک بار شروع ہو تو پھر یہ سلسلہ سالہا سال چلتا ہے۔ اس کی مثالیں نواب نوروز خان اور نواب اکبر بگٹی کی صورت ہمارے سامنے ہیں، یہ دونوں ہی بلوچ نفسیات پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ “دہشت گردی” وغیرہ جیسے الفاظ اپنے معانی کے لیے اس بات کے محتاج ہیں کہ انہیں ادا کون کر رہا ہے۔ جو بات فلسطین اور کشمیر میں دہشت گردی ہے وہی مشرقی تیومر اور جنوبی سوڈان میں حق خود ارادیت کے لیے جائز جدوجہد بن جاتی ہے۔

لہذا اس نہایت خطرناک ٹرینڈ پر قابو پانے کے لیے بہت ہنگامی فیصلے اور جراتمندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے اولین یہ کہ بلوچستان میں عوام کو بااختیار بنانے کے لیے حقیقی سیاسی قیادت کو موقع دینا ہوگا۔

بلوچستان، پاکستان کا سب سے اہم جغرافیائی حصہ ہے اور اس بات کا ہمارے دشمنوں کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔ پاکستان کی جیو پولیٹیکل اور جیو اسٹریٹیجک اہمیت میں بلوچستان کا کلیدی کردار ہے۔ اس وقت خطہ، بالخصوص خلیج فارس کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ ادھر پاکستان میں دہشتگردی کا عفریت دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے، مغرب ہو یا جنوب، مرکز گریز اور وفاق گریز سرگرمیوں کی آبیاری کی جارہی ہے۔ ملکی معیشت کا جو حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے اور سب سے بڑھکر یہ کہ داخلی اور سیاسی استحکام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ نشانہ بھلے ہی ایران ہو یا کوئی اور ۔۔۔۔ پاکستان کی حیثیت ایک مستقل نشانہ کی ہے۔ پاکستان کا نیوکلئیر طاقت ہونا اور چین سے اسٹریٹیجک تعلقات (بشمول سی پیک) اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں یہ دونوں ہی مصیبت کو کھلی دعوت دینے کے مترادف ہیں۔

پاکستان کی دگرگوں معیشت اور سیاسی عدم استحکام کے اس ماحول میں میں ہمارے لیے شدید نوعیت کے چیلنجز آنے والے ہیں۔ بلوچستان اور فاٹا میں معاملات پر تدبر اور حکمت سے فوری عملی اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ دشمن کے ارادوں کو شکست دینے کا عمل ہماری چار دیواری کے اندر سے شروع ہونا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ۔یہ تحریر ڈاکٹر صاحب کی وال سے کاپی کی گئی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply