گلوبل وارمنگ اور آج کی ماں۔۔۔۔روبینہ فیصل

“مجھے مرنے سے صرف اس لئے ڈر لگتا ہے کہ میرے بچے میری موت سے گھبرا جائیں گے، وہ تکلیف میں آجائیں گے،وہ خود کو بغیر چھت کے محسوس کریں گے، انہیں لگے گا دنیا میں اب کوئی ہاتھ ان کے لئے دعا کرنے کو نہیں اٹھے گا، وہ دنیا کے اس خود غرض شور میں خود کو بے بس محسوس کریں گے، ان کا دل بھر آئے گا تو ان کے لئے دنیا میں کوئی سینہ نہیں ہو گا جس میں چھپ کر وہ جی بھر کر رو سکیں گے، ان کی سب خامیوں کوتاہیوں کو جذب کرنے والا کوئی نہیں ہو گا، اپنا غصہ اتارنے کو ان کے پاس کوئی ماں نہیں ہو گی بس اس خوف سے میں اپنی موت سے ڈرتی ہوں کہ یہ میرے بچوں کی آنکھوں میں آنسو لے آئے گی۔۔۔ ”

مندرجہ بالا خیالات ہر ماں کے ہو تے “تھے”،”ہیں ” اس لئے نہیں لکھ رہی کہ گلوبل وارمنگ نے جہاں ہر جگہ کے موسم کو تبدیل کر دیا وہاں جدید دور کی ماں کو بھی بہت بدل دیا ہے۔ اب جہاں کبھی بارشیں نہیں ہو ا کرتی تھیں وہاں ہوتی ہیں، جہاں برف باریاں ہو تی تھیں وہاں موسم بہار آکر ٹھہر گیا ہے اور جہاں گرمی ہو تی تھی وہاں کن من کن من بارش کی پھواریں پڑتی رہتی ہیں، تو ماؤں کے قدموں تلے والی جنت بھی جہنم ہونے لگی ہیں۔ہم پاکستانیوں میں جدیدیت کہیں اور نظر آئے نہ آئے ماں کے قدموں تلے صدیوں سے بچھی جنت میں ضرور نظر آرہی ہے۔
جب گلیشئر  پگھلتے ہیں تو تبدیلی متوقع ہو تی ہے اس میں کو ئی نئی بات نہیں۔ عورت کے حقوق کی لمبی جنگ جب لڑی جا چکی اور اس کی ہستی میں ٹھہرے جمود کا گلیشئر پگھلنے لگا تو تبدیلی متوقع تھی۔۔ہر تبدیلی شروع میں بے سمت ہی ہو تی ہے، سمت کا تعین وقت کرتا ہے اسی لئے آج کی عورت خود سے آزادی اور خود شناسی کی اس لہر کو ایک سمت دے گی، جو درست فیصلوں کے نتیجے میں درست بھی ہو سکتی ہے اور بالکل غلط بھی، جو نسلوں کو آبادی نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے جائے گی۔۔

عورت ایک فرد صرف اس وقت تک ہے جب تک وہ ماں نہیں بنتی، جیسے ہی وہ ماں بن جاتی ہے، اس کے خواب، اس کے ارادے اور اس کی خوشی غمی غرض کہ اس کی پو ری کی پو ری ذات اپنے پیٹ سے جنم دئیے یا اپنائے ہوئے بچوں کی ذات میں مدغم ہو جاتی ہے مگر اب بدقسمتی سے ایسا بہت کم ہو رہا ہے اور جو عورتیں ایسا کر رہی ہیں انہیں دقیانوسی یا نالائق اور پینڈو کہہ دیا جاتا ہے۔ آج کی گلوبل وارمنگ نے مغربی تہذیب کی عورت کی آزادی کی جنگ کو مشرق میں کچھ اس طرح لا کھڑا کیا ہے کہ مشرق میں چھپے طلسم کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ مشرق کی پراسرایت، وہاں کا تمدن اور حسن، جسے اندر ہی اندر مغرب حسد اور رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا، اب بالکل اپنے جیسا کر لیا ہے۔
جیسے یونانی مائتھلوجی کے تحت جو مخلوق پوری کائنات کو اپنے سینگوں پر اٹھائے ہو ئے ہے بالکل ویسے ہی مشرق کی عورت کا تحمل اور صبر ایسے ہی سینگ تھے جو پو رے گھر کو اپنے اوپر اٹھائے ہوتے تھے اگر وہ نہ ہوں تو گھر دھڑام سے نیچے آگریں۔

میں جانتی ہوں انفرادی آزادی کا نعرہ لگانے والے تہذیب کے فرزندوں کو میری یہ باتیں بہت ناگوار گذرتی ہیں مگر کیا کروں میرا سچ ان کے سچ سے مختلف ہے تو سننا تو ہو گا مجھے ان کا اور ان کو میرا۔۔ درست اور غلط کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ سارتر کا فلسفہ آزادی تھا کہ فرد پر اس دنیا کو معنی پہنانے کی ذمہ داری ہو تی ہے اور ایک انسان صرف اپنے لئے نہیں پو رے سماج کے لئے فیصلے کرتا ہے۔ اس لئے آج جس شتر بے مہار آزادی کی بات عورت کے لئے کی جا رہی ہے ویسی آزادی کا اگر مرد بھی دعوی کرنے لگ جائے تو یہ جنت صرف عورت کے پیروں کے نیچے سے نہیں پو ری زمین بلکہ آسمانوں سے بھی یکسر غائب ہو جائے گی ایسے کہ بس ڈھونڈتے ہی رہ جا و گے۔۔ روز ِ قیامت بھی خدا سے جنت کا پو چھو گے تو جواب ملے گا ظالمو ساری کی ساری جنتیں تو اپنی سوچوں کے ڈائنامائیٹ سے اڑا دی ہیں اب ان ویرانوں میں آگ کے سوا کیا لینے آئے ہو؟

تو جس سماج کو لاوارث چھوڑ کر سب اپنی اپنی زندگیوں کے فیصلے کر نے لگ جائیں تو ایسی خود غرضیوں سے صرف گھر وں میں سے ہی جنت نہیں نکلتی بلکہ پورے کے پورے سماج ویرانوں میں بدل جاتے ہیں۔۔ کیا ایسا نہیں ہو رہا؟ جدید انسان کے اندر پھیلی لامتناہی ویرانی اور تنہائی کس فعل کا بیج ہے؟ عالمی جنگوں کے بعد جب معیشت کو سہارے کے لئے مغرب نے عورت کام کاج کی غرض سے باہر نکالا تو وہ اس بوتل کے جن کی طرح باہر نکلیں کہ اس آزادی کی سمت کا تعین اور حد مقرر کئے بغیر بس ہر طرف پھیل گئیں۔ عورت کو اس کے جائز حقوق دینا،یا کسی کوبھی جنہیں رنگ یانسل کی بنیاد پر بنیادی حقوق نہ دئیے جائیں، ایک قابل ِ تعریف عمل ہے مگرجائز حقو ق دینے اور ناجائز حدیں پار کرنے میں فرق ہے۔ نہ جانے کس مصلحت کے تحت کچھ عوامل عورت کی اس مادر پدر آزادی کو جو کہ عدل پر مشتمل معاشروں میں مرد کو بھی نصیب نہیں دینے کی بات کرتے ہیں۔ مگر ایسے میں ہر وہ عورت جو ماں کے درجے پر پہنچ جائے اسے خود سے رک کر اپنے لئے وہ حدود متعین کر نی ہیں، اپنے خوابوں اور خواہشوں کو ایسے دائرے میں رکھنا ہے کہ اس کے بچے، آگے چل کر اس سماج کو اپنے وجود سے معطر کریں نا کہ تعفن میں اضافے کا باعث ہوں۔۔

مدرز ڈے پر مجھ سمیت ان ماؤں کے لئے ایک یاد دہانی نوٹ ہے جو آپا دھاپی اور میں میں کے شور میں بھول جاتی ہیں کہ ماں سے بڑا اس دنیا میں اور کوئی درجہ نہیں اور یہ بغیر حقوق کی جنگ لڑے ہمارے رب نے ہمیں دے کر ماؤں کو اپنے جیسی صفت کا حامل قرار دے دیا ہے۔
میری علینہ کو ڈاکٹر نے ایک دو ایسے ٹیسٹ کروانے کو کہا کہ بیٹی کی صحت کے حوالے سے نت نئے  و  اہموں نے مجھے گھیرلیا اور تب مجھے لگا میں تو ہوں ہی نہیں۔۔ جن خواہشوں کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے میں پہروں اداسی اور خودترسی کا شکا ر رہتی تھی کہ شادی کے بعد، بچوں کو پالنے پوسنے او ر ان کے مستقبل کے لئے اپنے بنے بنائے کیرئیر کو چھوڑ کر کینیڈامیں آ بسنا سونے پر سہاگا۔۔خیربیٹی کی صحت کے حوالے سے وہم تو بے بنیاد نکلے مگر مجھے ایسی آگاہی دے گئے جو مجھے ویسے شاید  کبھی نہ ملتی۔۔” میں تو میری بیٹی میں زندہ ہوں۔ وہ نہیں ہنسے گی تو میں کیسے ہنس سکتی ہوں، وہ وکیل یا ڈاکٹر بنے گی تو کینیڈا ہجرت کرنے والی پہلی نسل کی مائیں مامتا کا خون کئے بغیر بھی اپنی ذات میں مکمل رہیں گی اوراگر اس کے پاس صحت نہیں، خوشی نہیں۔۔ تو میں کیا ہوں؟ کچھ بھی نہیں۔۔ اس دن زمین پر پڑی مٹی، راستے میں آنے والے پتھر سب مجھے اپنے سے زیادہ معتبر لگنے لگے۔۔ میرا وجود پل بھر میں ایک وہم نے خاک کر دیا۔۔ میرے گھر میں میرے بچوں کے قہقہے نہ گونجے، وہ کھل کر آزادی سے کھیل کو د نہ سکیں، وہ اپنے خوابوں کو پو ری لگن سے پورا نہ کر سکیں، وہ سماج میں کوئی اچھا کردار ادا نہ کر سکیں تو میری آزادی، میری زندگی، میرے خواب، میرے ارادے حتی کہ میری صحت بھی سب بے وقعت لگنے لگے، میں ایکدم سے آسمان سے زمین پر آگری۔۔ سارتر کی بات کو کچھ یوں کہوں گی ایک ماں صرف اپنے لئے نہیں اپنے پو رے گھر کے لئے فیصلے کرتی ہے۔۔ میں نے بچوں کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنے اور ان کی پرورش کر نے کے لئے جن جن مادی اور اپنی ذات کی خوشی کی آفرز کو ٹھکرایا مجھے ان پر رتی بھر ملال نہیں رہا۔۔ ایک ماں کو یہ حق ہی نہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ذات پر اپنی ذات کو ترجیح  دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کی جدید ماؤں سے اپیل ہے کہ وہ معیشت اور وجود کی لڑائی میں کسی سانڈ کی طرح اندھا دھند نہ بھاگیں کیونکہ جو گائے اپنے سینگوں پر کائنات کو اٹھاتی ہے اس کی ذات سے انسانیت کو فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ورنہ اس گلوبل وارمنگ نے اگرسب جنتوں کو جہنموں میں تبدیل کردیا تو ہر طرف آگ ہی آگ بچے گی۔۔شہد اور دودھ کی بہتی نہروں کا تصور اس دنیا کے لئے ڈائناسورز کی طرح متروک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔بچوں کی خاطر قربانی دینے والی سب ماؤں کو مدرز ڈے پر ایک زور دار سلیوٹ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”گلوبل وارمنگ اور آج کی ماں۔۔۔۔روبینہ فیصل

  1. بہت خوب اور عجیب بات ہے کہ اب وہ باتیں عجیب و غریب اور چونکانے والی لگ رہی ہیں جو چند سال پہلے ہمارا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ ہم جڑ سے اکھڑ رہے ہیں اور ایک وقت آئے گا کہ اپنے پاؤں ڈھونڈ رہے ہوں گے اور جڑیں تلاش کر رہے ہوں گے

Leave a Reply