الوداع جنید، مجھے تم جیسا نہیں بننا

مائیں اولاد سے مایوس نہیں ہوتیں اور نا کبھی انکی خیر کی تمنا بند کرتی ہیں۔ سالوں پہلے جب میں تشکیک کا شکار تھا، مناظروں کا شوقین تھا، علم کا زعم دوسروں کو پٹخنیاں دینے پر مجبور کرتا تھا، جب ہر مباحثے کے بعد اپنے دلائل پہ نازاں تضحیکی مسکراہٹ سے دوسرے کو ایک منافقانہ ہمدردی سے کہا کرتا تھا “یار کُج پڑھ وی لیا کرو”، جب مجھ سے پیار کرنے والے مجھے دعا دیتے تھے کہ اللہ کرے تو مسلمان ہو جائے؛ تو ایک دن میری ماں نے کہا مجھے یقین ہے ایک دن تو نے جنید جمشید کی طرح بن جانا ہے اور میں ہنس پڑا۔
ہمارے برصغیر میں رہنما ہمیشہ حسین کامیاب ہوتا ہے۔ خواہ وہ قائد اعظم ہوں یا نہرو، بے نظیر ہو یا اندرا، بھٹو ہو یا عمران، ہم مثال ہمیشہ حسین کو بناتے ہیں۔ اسی طرح ایک حسین شہزادہ جب تبلیغ کی طرف پلٹا اور کایا ہی پلٹ گئی تو بہت سوں کیلیے مثال بن گیا۔ شاید اسی برصغیر کی نفسیات کے زیر اثر میری ماں کو لگتا تھا کہ میں بھی ایک دن جنید کی طرح پلٹ جاوں گا جو داڑھی رکھ کر بھی حسین لگتا تھا اور میں ہنس کر کہتا تھا کہ میں نہیں بنتا جنید۔
جنید میری اور مجھ جیسی پوری نسل کا “آئی کون” تھا۔ حسین، سریلا، جس کا دل دل پاکستان ہم نے بچپن میں گایا، جس کی جامنی ہونٹوں والی محبوبہ گنگناتے ہم نے نوجوانی کا اولین لمس محسوس کیا۔ مگر پھر اچانک وہ بھرے سٹیج سے اتر گیا۔ مجھے دکھ ہوا۔ اب اس کیلیے موسیقی حرام تھی جو مجھے پسند تھی۔ اسکے نظریات، ٹخنوں سے اوپر شلوار، عورت کے متعلق خیالات، مونچیں کاٹ کر رکھی داڑھی ان سب پر ہی مجھے اعتراض تھا؛ اچھا خاصا انسان دیکھو کیا بن گیا اس مولوی طارق جمیل کے پیچھے لگ کر۔ ہاں مگر ایک چیز مجھے پسند تھی، اسکا نرم لہجہ اور مسکراتا چہرہ۔ میں اپنی نوجوانی کے جوار بھاٹے سے نکلا، حالات کی پٹخنیاں کھاتا ہوا تشکیک سے ایمان کی طرف لوٹا، تب بھی مجھے اسکی بہت سی باتوں سے اختلاف تھا، آج بھی ہے۔ مگر پھر وہی بات، اسکا حلم اور اخلاق ویسا ہی تھا جیسا سیرت کی کتب میں لکھا تھا اور جو ہر مسلمان کو اپنانے کی تلقین تھی۔
اسی love-hate relationship میں میں اسے فالو کرتا رہا۔ پھر وہ ان ہی کے ہتھے چڑھنے لگا جنکی محبت میں گرفتار تھا۔ جو مذہبی حلیئے بنا کر وہ تبلیغ کر رھا تھا، اسی طرح کے حلیئے والے اس کی پکڑ کرنے لگے، گالیاں بکی گئیں، فتوے لگے، اور جب ائرپورٹ پر گالی اور تھپڑ سے نوازا گیا تو میں نے دل میں کہا “ہور چوپو”۔ مگر اسی دل میں جیسے کچھ ٹوٹ گیا۔ جو چمکتی روشینیاں چھوڑ کر نور کی تلاش میں نکلا تھا، اسکو شب ظلمت کا سامنا تھا، عامر لیاقت جیسے ابن الوقت کی زبان سانپ بن کر ڈس رہی تھی اور جو شاید اسکے کنسرٹ لائن بنا کر سنتے وہ اس دن اسے گالی دے کر تھپڑ مار رہے تھے۔ کیا لوٹنے والوں کو یوں سینے سے لگاتے ہو؟ مگر وہ پھر وہیں تھا، مسکراتا ہوا، نبوی اخلاق کا نمونہ بن کر معاف کرتا ہوا؛ آہ اس شخص کو کیا ہو گیا۔
آج وہ جو اللہ کے راستے میں نکلا، اللہ سے جا ملا۔ مجھے اسکے خیالات، اسکے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر وہ انسان تھا، میرا مسلمان بھائی تھا، میرے آقا(ص) کے اخلاق کا پیروکار تھا؛ میں اسکی مغفرت اور بلند درجات کیلیے دعاگو ہوں۔ آمین۔ مجھے یقین ہے کہ خدا نے اسے بخش دیا، مگر خدا کے ٹھیکیدار تو ابھی بھی عدالت لگائے بیٹھے ہیں۔ میرے “لبرل” دوست اگر اس پہ طنز کریں تو دکھ ہے کہ “انسانی قدروں” کے تقدس کا سبق کیا ہوا؟ مگر یہ جو ابھی بھی اپنے مسلک اور فرقہ واریت سے لٹھڑے ہاتھوں سے اسکی لاش نوچ رہے ہیں، جو مذہب کا نام لے کر اسکی تحقیر کر رہے ہیں، ان کو یہ اخلاق کس اسلام نے سکھائے۔ ہمارے نبی (ص) تو ابن ابی کا جنازہ کوئی سخت بات کہے بغیر پڑھا دیں، اور انکے پیروکار انکے ایک عاشق کی موت کا جشن منائیں؟
الوداع جنید، جنتوں میں گھر پاو۔ کاش تم بس ایک دیندار مسلمان بن جاتے مگر ان گدھوں کا حصہ نا بنتے جو ایک دوسرے کی لاشوں کو کھا کر پلتی ہیں۔ خوف آتا ہے کہ مسلمان بن کر کن کا ساتھی بننا پڑتا ہے۔ کل میں ہنس کر کہتا تھا مگر آج رو کر کہتا ہوں، مجھے تم جیسا نہیں بننا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 13 تبصرے برائے تحریر ”الوداع جنید، مجھے تم جیسا نہیں بننا

  1. انعام بھائی آپ نے تو سب کو ایک لائین میں کھڑا کردیا. کتنے ہی بریلوی اور اہل حدیث اس کی شہادت پر واقعی رورہے ہیں. خود میرے کل سے کئی بار آنکھوں سے آنسو نکل گئے. کل گھر جاتے ہوئے اس کی ایک ہی نظم بار بار سنتا رہا. چند بد باطن اور بد فطرت لوگ خوشیاں منا رہے ہیں ورنہ ہر کوئی غمزدہ ہے. وللہ نہ جنید جمشید ایسا تھا اور نا وہ جماعت جس سے اسکا تعلق تھا.

  2. ھماری اللہ پاک سے دعا ھے کے اللہ پاک جنید جمشید کا خلاء انعام رانا سے پورا کرے۔آمین

  3. کسی آدمی کے بڑا ہونےکےلئےیہ گواہی کافی ہے کہ جتنے لوگ اسے چاہنے والے ہوتے ہیں اسیتناسب سے اسے نا پسند کرنے والے بھی ہوتے ہیں

  4. At the end of the piece, pls add a button for like or dislike as well. That gives more convenience to the reader to share his/her feelings, instead of giving the feelings of likeness of the piece in words. Anyway I like the piece in both perspectives; 1- writing and 2- analysis. Thanks

Leave a Reply