ماسکو سےمکہ ۔ ایک رپورتاژ ۔ ڈاکٹر مجاھد مرزا

ماسکو سےمکہ ۔ ایک رپورتاژ

ڈاکٹر مجاھد مرزا

(پیش لفظ اور پہلی قسط)

مجھے 8 اکتوبر 2013 کو حج کی سعادت پانے کی خاطر ارض مقدس کے لیے روانہ ہونا تھا۔  مجھے کچھ اعترافات، انکشافات اور شکایات کا اظہار کرنا تھا جس کے لیے اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔ میں ایک زیادہ ہی مذہبی گھرانے کا فرد تھا، جہاں کروڑوں مسلمانوں کی طرح مذہب کے ساتھ وابستگی کی بنیاد عقلیت پسندی کی بجائے عقیدت پرستی تھی اور ہے۔ گھرانہ خالص دیوبندی تھا، مذہب سے شیفتگی کی وجہ میری والدہ تھیں جو ایک معروف عالم گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔

ہمارے والد کوئی اتنے زیادہ مذہبی نہیں تھے البتہ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزے بھی رکھ لیتے تھے۔ میرے والد کا اس زمانے کے لاکھوں کا کاروبار، جسے کہتے ہیں ایک رات میں بیٹھ گیا تھا۔ بتدریج گھر میں غربت آن بسی تھی لیکن سفید پوشی کا دھیان رکھا جاتا تھا جس میں دنیا داری زیادہ ہوتی تھی۔ میں بچہ تھا مجھے تب سے دنیا داری زہر لگنے لگی تھی۔ کچھ اللہ سے گلہ تھا کہ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا۔ تب میں ساتویں جماعت میں تھا۔ کہیں گیارھویں جماعت میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایف ایس سی کا طالبعلم تھا تو مذہب میں عقیدت پرستی کے عنصر سے چڑ ہونے لگی تھی۔

اسی اثناء میں ذوالفقار علی بھٹو منصہ شہود پہ نمودار ہوئے تھے اور پہلی بار سوشلزم کی اصطلاح سے شناسائی ہوئی تھی مگر اس نظام معیشت کے بارے میں سرسری آگاہی کے باوجود میرا میلان مذہب کی جانب زیادہ رہا تھا۔ نشتر میڈیکل کالج کے پہلے سال میں “تبلیغی جماعت” کے ساتھ وابستگی ہو گئی تھی۔ دوسرے سال میں پشاور یونیورسٹی کی مسجد میں ایک باقاعدہ ڈاکٹر تبلیغی بھائی نے جب گفتگو کے دوران میرے ہاتھوں اور رانوں کو سب کے سامنے “اکرام مسلم” میں یوں سہلانا شروع کیا تھا جیسے اظہار شفقت کر رہے ہوں تو مجھے پہلی بار جھرجھری آئی تھی۔

اس سے پہلے بھی مساجد میں میں اس قسم کی معیوب حرکات دیکھ چکا تھا لیکن ایسی حرکت کا خود شکار پہلی بار ہو رہا تھا۔ مارے خوف اور کراہت کے میں مسجد سے باہر نکل گیا تھا اور کہیں رات ایک بجے لوٹ کر چپکے سے سو گیا تھا۔

 واپسی کے سفر کے دوران ہماری ویگن گوجر خاں کے نزدیک کھائی میں جا گری تھی۔  میں چھت کے بل گری ویگن کی فرنٹ سیٹ پر تھا لیکن مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔ تاہم کہنی کی ضرب سے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر میں نے جونہی باہر نکلنا چاہا تھا تو کوئی گرم گرم مائع میرے چہرے پہ آ گرا تھا۔

میری آنکھوں میں بیٹری کا تیزاب چلا گیا تھا۔

میں کئی ماہ نابینائی، کم بینائی اور چکا چوندھ بینائی کے غیر عمومی عمل میں مبتلا رہا تھا۔ اب میں مذہب اور وجود خدا کے بارے میں مشکوک ہو گیا تھا۔ نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ ایک خاص واقعے کے بعد اقدام خود کشی کر لیا تھا اور پس از مرگ تحریر میں لکھا تھا،”میں خود مر رہا ہوں مجھے خدا نہیں مار رہا” لیکن ان دو دوستوں کی دوستی جو دونوں اب مرحوم ہیں ایک جوانی میں خود کشی کے باعث اور دوسرا کچھ عرصہ پیشتر طبعی موت کے باعث اور ڈاکٹروں کی محنت کے طفیل مجھے مرنے سے بچا لیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ نے ہی بچایا تھا۔ اس شرمندگی نے مجھے اور ڈھیٹ کر دیا تھا۔اب میں مذہب مخالف ہو گیا تھا اور ساتھ ہی مزدور دوستی کی جانب راغب بھی۔

البتہ اس سارے عرصے میں اللہ گواہ ہے، میں نے کبھی نہ تو مذہب کی اور نہ ہی اس سے وابستہ شخصیات کی توہین کرنا تو درکنار ایسا کرنے بارے سوچا تک نہیں تھا، جس کی وجہ جو میں سمجھتا تھا وہ یہ تھی کہ میں انسان اور الوہ کے تعلق کو لوگوں کا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن دراصل یہی شے مذہب کی وہ رمق تھی جو مجھ میں باقی رہ گئی تھی۔ وقت گذرتا گیا، علم ،دلیل، عقلیت پسندی پہ تکیہ کیا اور لہو لعب سے بھی غافل نہیں رہا۔

9 مئی 1999 آ گیا۔ تب میں ماسکو میں تھا۔ کسی نے دن چڑھے سر راہ عقب سے میرے سر پہ وار کیا تھا۔ میری کھوپڑی تین جگہ سے چٹخ گئی تھی۔ خون میرے حرام مغز تک سرایت کر گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران موت واقع ہو سکتی ہے لیکن مجھے یقین تھا کہ میں نہیں مروں گا۔ مجھ پہ عالم بیہوشی میں کچھ آشکار ہو گیا تھا۔ میں نے ماورائیات اور کونیات پڑھنا شروع کر دیے تھے بلکہ پیرا سائینس کا ایک کورس بھی کر لیا تھا۔ روس چھوڑ کر امریکہ چلا گیا تھا۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بعض اوقات سر پہ گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے انسان روحانیات کی جانب راغب ہو جاتا ہے لیکن مجھے روحانیات کی جانب کوئی رغبت نہ ہو پائی تھی ، ہاں البتہ میں یہ سمجھ چکا تھا کہ شعور سے آگے بھی کچھ ہے ضرور۔

امریکہ میں رہتے ہوئے کچھ کچھ مذہب کی جانب لوٹ آیا تھا۔ مگر مجھے مکمل طور پر مذہب کی جانب لوٹانے میں، شاید آپ کو یقین نہ آئے امریکہ کے سابق صدر جارج بش جونیر نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا جب انہوں نے نو ستمبر کے واقعے کے بعد ہمارے تمدن یا تہذیب کو مطعون کیا تھا۔ اسلام کو اگر صرف مذہب نہ بھی لیا جائے تو بھی وہ ہمارے ملک کی ثقافتی تہذیب کا ایک اہم ترین حصہ بن چکا ہے۔ یوں بش نے ہماری ثقافت کو چیلنج کیا تھا۔

 میں شاید اپنے رویوں میں انتہا پسند ہوں اپنے گھر والوں کی طرح۔ میں نے یکسر دوسری جانب زقند بھر لی تھی۔ اب میرا لہو و لعب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں ملا نہیں بنا تھا لیکن نماز پڑھنا اور روزے رکھنا میرے باقاعدہ اعمال کا حصہ بن گئے تھے۔ روس میں رہتے ہوئے مجھے احساس تک نہیں ہوتا کہ یہاں شراب بھی عام بکتی ہے۔

اب ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا ۔

میرا حلقہ دوستاں اگرچہ خاصا وسیع ہے لیکن خیالات کی ہم آہنگی انہیں کے ساتھ تھی جو خود کو میری طرح روشن خیال سمجھتے ہیں، لیکن میں ان کے لیے تقریبا” بیگانہ ہو چکا تھا کیونکہ نہ تو میں ان کے بہت سے خیالات سے ان کی طرح متفق ہو سکتا ہوں اور نہ ہی ان کی ان محفلوں میں شامل ہو سکتا ہوں جن میں خالی خولی گفتگو نہیں ہوتی اور نہ ہی میں محتسب کا کردار ادا کر سکتا ہوں۔ پہلے پہل تو انہوں نے سمجھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ایک عارضی دور ہے، ختم ہو جائے گا مگر جب سالہا سال بیت گئے تو وہ مجھ سے دور ہو گئے بلکہ ملا، مولوی، پاگل، دماغ خراب وغیرہ کہنے لگے۔

وہ لوگ جو مذہب کو محض عقیدت تصور کرتے ہیں اور مذہب سے متعلق اجتہادانہ نکات کو سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں یا خشمگیں ہونے لگتے ہیں ان کے ساتھ میری نہیں بن پاتی۔ تیسرے وہ ہیں جو تمام مذہبی عوامل سے بھی بہرہ ور ہیں اور دنیاوی اعمال کو بھی من و عن وطیرہ بنائے رکھتے ہیں ان کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اللہ تعالٰی کو محض رحمٰن و رحیم ہی کیوں سمجھتے ہیں جو ان کے خیراتی اعمال کی وجہ سے ان کے برے عمل بخش دے گا مثلا” مجھے سمجھ نہیں آتی کی وہ لوگ جو خود کو شدومد سے مسلمان ثابت کرتے ہیں اور عیوب سے بھی ہاتھ نہیں آٹھا پاتے وہ پھر کیونکر مسلمان ہیں۔

ایسے لوگ بہت زیادہ ہیں جو ملک سے باہر آتے ہیں تو کھلتے ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی شخصی آزادی ہوتی تو وہ سب کچھ عیاں ہورہا ہوتا جو آج مخفی ہو رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ ان لوگوں پہ اعتراض نہیں ہے، صرف اعتراض ہے تو یہ کہ وہ خود کو مسلمان کیوں کہتے ہیں۔ کیا مسلمان ہونا صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام ہے؟ میں ان پہ تو معترض ہوں لیکن خود حج پہ جاتے ہوئے میری سوچ کس قدر خلجان کا شکار تھی میں جانتا ہوں لیکن لوگ تو عقیدت میں دیوانے ہیں چنانچہ وہ باتیں کیا کرنی جنہیں میں اجتہادی نکات کہتا ہوں۔

آج تو زمانہ طالبان کے اسلام کا ہے جنہیں یہ پتہ نہیں کہ ان کے جانی دشمن بش کے ایک عمل سے میرے جیسے کتنے لوگ اسلام کی جانب لوٹے ہیں۔ طالبان ایک تنظیم کا نام نہیں بلکہ ایک رویے کا نام ہے جو عقیدت پرست ہیں جنہیں، عقل، استدلال، رواداری اور اتحاد بین المذاہب کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ آپ سے یہی درخواست ہے کہ میرے ساتھ ساتھ طالبان کے لیے بھی دعا کریں کہ وہ انسان بن جائیں اور انسان دوستی کو شعار بنائیں جو کسی بھی مذہب کی اصل الاساس ہے۔

پہلی قسط:

سوویت یونین کے دارالحکومت ماسکو کو اشتراکیت نواز افراد کا مکہ کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ مکہ کا لوگوں کے لیے مکہ ہونا تھا کیونکہ کم علم مسلمانوں کا جم غفیر مکہ کی تعظیم کو تقدیس کا چولا پہنانے کا مرتکب پوتا ہے۔ ماسکو سے متعلق بھی بائیں بازو کے عقیدہ پرستوں کا تصور کچھ اسی قسم کا ہوا کرتا تھا۔ اصل میں مکہ وحدانیت پرستی کا مرکز تھا اور ماسکو کو اشتراکیت پرستی کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تعظیم اور تقدیس میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا عقیدے اور عقیدت میں۔ عقیدہ یا ایمان منطقی یا الوہی (یاد رہے الوہیت بالکل بھی منطق سے مبرّا نہیں، یہ اور بات ہے کہ منطق کے کچھ زاویے شعور سے بالا تر ہیں) اصولوں کو تسلیم کرکے ان پر عمل درآمد کرنے کی دیانت دارانہ سعی کا نام ہے جبکہ عقیدت کسی فرد، مقام یا معاملے سے بلاجواز والہانہ بلکہ مجنونانہ وابستگی سے عبارت ہوتی ہے۔ ثونکہ عقیدت احترام سے فروتر ہوتی ہے اس لیے وہ بیشتر اوقات عقیدے یا ایمان کی اصل ہئیت کو مسخ کرنے کا موجب بن جایا کرتی ہے۔ کیا کبھی کسی نے کسی کو یہ کہتے سنا ہے کہ اسے اللہ تعالٰی سے عقیدت ہے یا کسی ملک میں توہین الٰہی سے متعلق کوئی قانون ہے؟ نہیں ناں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ سے پیار کیا جا سکتا ہے، لو لگائی جا سکتی ہے، احترام و تعظیم پیار کا جزو ہوتے ہیں مگر عقیدت کوئی بہت ہی دنیاوی قسم کی سی شے ہے۔ میں نے اس دور میں بھی جب میں باقاعدہ پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا، ماسکو سے عقیدت روا نہیں رکھی تھی چہ جائیکہ کسی شہر کا احترام کرنے کی بدعت کا مرتکب ہوتا۔

لیکن اب میں اس شہر کا احترام کروں گا کیونکہ مجھے اس شہر سے ہی مدینہ منورہ اوروہاں سے مکہ مکرمہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی ، جس کے بارے میں میں نے سوچا تک نہیں تھا۔ یوں میرے لیے یہ بدعت “نعمت البدعۃ” یعنی اچھی بدعت ہوگی۔ ایمان کی ضرورت اور اہمیت بھی مجھ پر ادھیڑ عمری میں اسی شہر میں منکشف ہوئی تھی۔ میں نے کچی عمر میں ہی آباء کے مذہب کو بقول وراثت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 9 مئی 1999 کو پیش آنے والے ایک حادثے کے بعد میری چولیں جو مقام سے ہٹی ہوئی تھیں بتدریج اپنے درست مقام پہ واپس آنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ میرے سابق ہم خیال لوگوں کے مطابق میری چولیں پہلے درست مقام پر تھیں اور اب ہلنا شروع ہو گئی ہیں۔ بہر حال ایک یکسر تبدیلی کا عمل جاری ہے، سفر حج بھی اسی تبدیلی کا حصہ تھا۔

جب تک اللہ راستہ نہ دکھائے تب تک راستہ دکھائی نہیں دے سکتا اور جب تک اللہ کی ہدایت دل میں جگہ نہ پالے تب تک کوئی بھی اس راستے کو اختیار نہیں کر سکتا جو اس نے انسان کے لیے متعین کیا ہوا ہے یعنی صراط المستقیم۔ مگر کیا کریں ہم انسان ہیں ہمارے اختیار کردہ راستے میں ہماری ذات کی غلطیوں کی وجہ سے کجی ہوتی رہتی ہے۔ یقینا” اگر آپ کی مذہب کے ساتھ وابستگی نہیں ہے تو آپ کو اس قسم کی باتیں بوڑھوں یا ملاؤں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کی سی لگیں گی لیکن اگر آپ مذہب سے شیفتگی کی بجائے ایک عقلی تعلق رکھتے ہیں تو آپ کو یہ باتیں دو جمع دو چار کی طرح سادہ اور سچی لگیں گی۔ میری دعا یہی ہے کہ اللہ سب کو ہدایت کاملہ عنایت فرمائے۔

اصل میں نور حبیب شاہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے چین دکھانے اپنے ساتھ لے جائے گا۔ اس کا ٹیکسٹائل کا کاروبار چین کے ساتھ وابستہ ہے دوسرے وہ مجھے وہاں کے راحت بخش مساج کا بارے قائل کر چکا تھا۔ نور حبیب شاہ ایک وزیری پٹھان ہے، جس کے نام کی وجہ سے بشمول میرے اکثر لوگ اسے شاہ جی سمجھتے ہیں۔ مبالغہ آرائی میں یہ صاحب ید طولٰی رکھتے ہیں، اس لیے مساج سے متعلق اس کے ذکر کو میں دس بارہ پہ تقسیم کر دیتا تھا البتہ مجھے چین دیکھنے کا شوق تھا اور ہے تاہم چین ساتھ لے کر جانے کا اس کا وعدہ “سعید خان کی باتیں” ہی رہا۔ گورنمنٹ ہائی سکول علی پور میں کہیں آٹھویں جماعت میں آ کر ایک سیاہ و سپید نوجوان پٹھان ہمارا ہم جماعت ہوا تھا، نام اس کا تھا سعید خان اور قیام اس کا سکول کے ہوسٹل میں تھا۔ باتیں بڑی بناتا تھا۔ جب اس کی کہی باتیں پوری نہ ہو پاتیں اور کوئی اس سے توجیہہ طلب کر لیتا تو وہ کہہ دیا کرتا تھا “وہ تو سعید خان کی باتیں تھیں”۔ گذشتہ برس نور حبیب شاہ نے اپنی تاتار اہلیہ کے ہمراہ حج کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کا پاکستانی پاسپورٹ یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا تھا کہ وہ سفر حج اپنے ملک سے ہی کر سکتا ہے۔ اس سال اس نے روسی ہپاسپورٹ حاصل کر لیا تھا۔ میں نے گرم لوہے پہ چوٹ ماری تھی کہ چین تو نہیں لے گئے اس سال حج تو کرواؤ گے ناں؟ اس نے حامی بھر لی تھی۔ پھر اسے دل کی تکلیف ہو گئی تھی۔ ماسکو کے ڈاکٹروں نے اسے بہت خوفزدہ کر دیا تھا اور اوپن ہارٹ سرجری کی تجویز دی تھی۔ وہ پاکستان چلا گیا تھا۔ آغا خان ہسپتال میں اسے stent چڑھائے گئے تھے، جس کے بعد وہ اپنے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان استراحت کرنے چلا گیا تھا۔ اگست کے اوخر میں لوٹا تو میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیا حج پر جانے کا ارادہ ہے تو اس نے جواب اثبات میں دیا تھا۔ میں نے ماسکو کی تاریخی مسجد، جو ریڈیو صدائے روس کے میرے دفتر کے نزدیک ہی ہے اور جہاں میں نماز ظہر جماعت کے ساتھ پڑھتا ہوں، کے دفتر سے معلوم کیا تو وہاں روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ عمرہ وحج کے سربراہ رشیت حضرت خالیکوو کی معاون آئے نارا نے بتایا کہ نشستیں تو پوری ہو چکی ہیں لیکن اگر رشید حضرت کہہ دیں تو میں آپ کا نام لکھ سکتی ہوں بصورت دیگر میں آپ کا نام آئندہ برس کے حج کے لیے ہی درج کر سکتی ہوں۔ دوسری جانب میری ہم کار خواتین کی چھٹیاں بھی ایام حج کے دوران ہی پہلے سے ہی طے تھیں مطلب یہ کہ حج کے سفر کے راستے میں دوہری رکاوٹیں پیدا ہو چکی تھیں۔ میں نے حبیب شاہ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور دفتر والوں پہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر مجھے موقع ملا تو میں ملازمت ختم ہو جانے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس سفر سعید پہ روانہ ہو جاؤں گا۔ کہیں ایک ڈیڑھ ہفتے کے بعد حبیب شاہ نے دفتر کے باہر آ کر میر ا پاسپورٹ اور دو تصویریں مجھ سے لیں اور آدھے گھنٹے بعد حج کا نام درج ہونے کی دستاویز لا کر میرے حوالے کر دی اور بتایا کہ اس میں درج کمپنی والے فون کرکے جانے کے بارے میں بتائیں گے۔ دو ہفتے بعد بھی کوئی فون نہ آیا تو میں نے اس دستاویز کو دیکھا، جس میں روس کے مفتیوں کی کونسل کے توسط سے Slots نام کی کمپنی نے چار ہزار آٹھ سو ڈالر وصول کیے تھے لیکن اس کاغذ پہ کمپنی کا کوئی فون نمبر یا ای میل درج نہیں تھا۔ ایک روز، بعد از نماز ظہر میں آئے نارا کو ملا تو اس نے اپنا وزٹ کارڈ دے دیا کہ کہ چند روز بعد معلوم کر لیں۔ چند روز کے بعد نہ تو وہ فون پہ ملتی تھی اور نہ دفتر میں۔ مناسک حج سے متعلق کوئی معلومات نہیں تھیں۔ بالآخر ایک روز وہ مل ہی گئی تو کہنے لگی ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ آپ کب جائیں گے۔ حج سے متعلق ایک کانفرنس پہلے ہو چکی ہے اور ایک اس اتوار کو گیارہ بجے ہوگی۔ آپ آ جائیں ۔ میں بھی آؤں گی اور آپ کو بتا دوں گی۔ کانفرنس کیا تھی بارہ چودہ افراد پر مشتمل ایک اکٹھ تھا، جس سے مخاطب ہوتے ہوئے مسجد کے نوجوان نائب امام نے پہلا فقرہ یہ کہا تھا کہ ان سے حج پہ جانے سے متعلق کوئی سوال نہ پوچھا جائے کیونکہ یہ کام آئے نارا کا ہے اور جہاں تک انہیں معلوم ہے اس سلسلے میں اسے بھی شاید ہی کچھ علم ہو کیونکہ قافلے جانے سے محض ایک دو روز پیشتر ترتیب دیے جاتے ہیں۔ پھر انہوں نے مناسک حج اور ساتھ لے جانے والی ضرورت کی چیزوں اور دوران قیام احتیاطوں کے بارے میں بتایا۔ ظہر پڑھنے کے بعد چند عورتیں اور چند مرد آئے نارا کے دفتر کے باہر موجود تھے لیکن وہ حسب معمول دفتر میں نہیں تھی۔ دفتر کو تالا لگا ہوا تھا۔ مولانا کی گفتگو کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں ایک داڑھی والے شخص نے جو تاجک نہیں تھا جبکہ میرے علاوہ موجود بیشتر لوگ تاجک تھے، اہرام کے ساتھ ماسک استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تھا، جس سے لگا تھا کہ وہ “ہیلتھ کانشیس” شخص ہے یا اس کا تعلق کسی حوالے سے طب کے ساتھ ہے۔ آئے نارا کے بند دفتر کے باہر اس سے علیک سلیک ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے ہیں۔ وہ یہاں آنے سے پہلے کابل کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھے اور ان کا نام جمشید صافی ہے۔ اکتا کر بالآخر انہوں نے ہی آئے نارا کے ساتھ فون پہ رابطہ کیا تھا جس نے آنے سے انکار کیا تھا کیونکہ اسے تاحال کچھ معلوم نہیں تھا یعنی کہ مولانا موصوف نے درست فرمایا تھا۔

اگلے روز بھی آئے نارا فون پہ میسر نہیں تھی البتہ دوسرے روز اس نے بتایا کہ آپ آٹھ مارچ دس بجے دن ایر پورٹ دومادیوا سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوں گے، یعنی سفر حج پہ روانہ ہونے میں محض پانچ روز باقی تھے۔ دو روز بعد اس سے معلوم کیا کہ اہرام کہاں سے خریدیں تو اس نے بتایا تھا کہ مدینہ سے ہی خرید لینا باقی مجھے کچھ اور معلوم نہیں ہے۔ جب اس سے حبیب شاہ کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ اس کا نام تو فہرست میں ہے ہی نہیں۔ یا مظہر العجائب، مجھے حج پہ لے جا رہا ہے اور خود نہیں جا رہا کیا؟ اب حبیب شاہ ٹیلی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ بالآخر رشیت حضرت کو فون کیا۔ وہ میرے نام ایم ایم ایم سے خوب محظوظ ہوئے وجہ یہ تھی کہ اس نام کی ایک کمپنی بہت سے شہریوں کو ڈبل شاہ کا سا غچہ دے کر بدنام ہو چکی تھی۔ حضرت نے عقدہ کھولا کہ بھئی دس بجے ایر پورٹ پہ اکٹھے ہونا ہے، روانگی البتہ ڈیڑھ بجے دن ہوگی۔ اگلے روز حبیب شاہ بھی فون پہ مل گیا۔ میرے متعجب ہونے پہ گویاا ہوا “میں تو وی آئی پی لسٹ میں ہوں ناں”۔ طبیعت بہت مکدر ہو گئی تھی کہ اس نے یہ امتیاز کیوں روا رکھا۔ بس اسے اتنا کہا کہ جا بچّو! مجھے حج کروانے کا تجھے ثواب بھی آدھا ہی ملے گا۔ حبیب شاہ کی روانگی چار اکتوبر کو تھی۔ اب وہ ساتھی نہیں رہا تھا، اس لیے جمشید صافی سے رجوع کیا کہ چلو اور کچھ نہیں تو ہمسایہ ملک سے تو ہے ہی ناں۔ ساتھ میں یا تو تاجک تھے یا قفقاز کی ریاستوں کے لوگ جن سے کبھی راہ و رسم ہی نہیں رہی، میری علیک سلیک اور تعلق روسی النسل لوگوں سے رہا جو ظاہر ہے مسلمان نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(ڈاکٹر مجاھد مرزا روس میں مقیم نامور مصنف، تجزیہ نگار اور دانشور ہیں۔ آپ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک ریڈیو “صدائے روس” اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی “سپتنک” کے ساتھ وابستہ رہ کر براڈ کاسٹر اور مترجم کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply