• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک شہر،جس کے نیچے ساٹھ لاکھ مردے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔محمد شہزاد قریشی

ایک شہر،جس کے نیچے ساٹھ لاکھ مردے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔محمد شہزاد قریشی

پیرس فرانس کا کیپٹل اور انتہائی  خوبصورت شہر ہے، اسے روشنیوں کا شہر بھی کہاجاتا ہے۔ یہاں ہر سال لاکھوں سیاح بھی آتے ہیں۔۔
کیا آپ جانتے ہیں جس طرح روشنیوں کے اس شہر میں تقریباً  20 لاکھ زندہ لوگ رہتے ہیں اسی طرح اس شہر کے نیچے 60 لاکھ مردے بھی رہتے ہیں؟

جی ہاں۔۔ دنیا کے اس خوبصورت اور مشہور شہر کے نیچے تقریباً  6 ملین لوگوں کے ڈھانچے پڑے ہوئے  ہیں۔۔۔ اس قبرستاناور سرنگ کی لمبائی 300 کلومیٹر طویل ہے۔۔ پیرس کے اس قبرستان کے متعلق کئی دل دہلا دینے والی  کہانیاں بھی مشہور ہیں۔۔
بتایا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً دوصدی پہلے پیرس کاروباری لحاظ سے یورپ کا ایک مرکز تھا۔۔ پورے یورپ بلکہ دنیا سے تاجر یا سیاح یہاں آتے اور مستقل ڈیرے ڈال دیتے۔۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے جہاں پیرس کو کثیر زرمبادلہ ملا وہیں کئی مسائل نے بھی جنم لیا، زندہ لوگوں کی بے پناہ آبادی کی وجہ سے مرنے والوں کو دفنانے میں مشکلات پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ صورت حال اتنی گھمبیر ہوگئی کہ ایک قبر میں کئی کئی مردوں کو اتار دیا جاتا، بارش یا سیلاب وغیرہ کی وجہ سے لاشیں باہر نکلنا شروع ہوگئیں جسکی وجہ سے کئی طرح کے  امراض پھوٹ پڑے ۔ لیکن 1880 میں صورت حال شدید ابتر ہوگئی، اس سال شدید بارشیں ہوئیں جسکی وجہ پیرس شہر پانی میں ڈوب گیا۔ اس پانی میں ہزاروں لاشیں بھی تیرنے لگیں جس سے شدید تعفن اور بیماریاں پھیلنا شروع ہوگئیں۔۔ اس صورت حال میں فرانس کی  حکومت نے ایک بڑا اور مشکل فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہر بھر کے مختلف قبرستانوں اور ان بےگوروکفن لاشوں (جنکی تعداد 60 لاکھ سے بھی زیادہ تھی) کو پیرس شہر کے نیچے منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔۔ اس فیصلے کے خلاف چرچ نے شدید مزاحمت کی لیکن مذاکرات کے بعد وہ مان گئے۔۔

لاشوں کی یہ منتقلی رات کے وقت ہوتی، اس وقت مختلف مقامات پر پادری موجود ہوتے جو باآواز بلند دعائیہ  کلمات بھی پڑھتے رہتے۔۔ منتقلی کےابتدائی عمل میں 3 سال کا عرصہ لگا تاہم منتقلی کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ منتقل شدہ لاشوں کی باقیات میں کھوپڑی ، اور باقی جسم کا ڈھانچہ ہوتا تھا، جنہیں مختلف قسم کی دیواروں میں ایک ترتیب سے چن دیا جاتا۔ اس قبرستان کو آج Catacombs de Paris کہاجاتا ہے۔۔ اس کے مرکزی دروازے کو جہنم کا دروازہ بھی کہاجاتا ہے۔۔ ہر سال ہزاروں سیاح 300 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی سرنگوں کی سیر کو آتے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان لاشوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو انقلاب فرانس کی بھینٹ چڑھے تھے۔۔ سیاحوں کو آج بھی ان سرنگوں میں لوگوں کی چیخیں اور سسکیاں سنائی دیتی ہیں۔۔ کئی لوگوں نے پراسرار سایوں کو بھاگتے اور گرتے بھی دیکھا۔۔ کئی لوگ اس خوفناک منظر کو دیکھ کر بے ہوش بھی ہوچکے ہیں۔۔۔
لیکن60 لاکھ کے اس مردہ شہر کے اوپر رنگ و نور اور زندگی کی رعنایوں سے بھرا ہوا 20 لاکھ آبادی والا پیرس کا زندہ شہر آج بھی پوری دنیا کو سحر زدہ کیے رکھتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply