• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ۔۔۔ حفیظ شیخ ۔ قاف لیگ کی مشاورت سے PPP کی وزارت خزانہ اور اب PTI کی مشاورت تک مگر اصول وہی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف والے۔۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

۔۔۔ حفیظ شیخ ۔ قاف لیگ کی مشاورت سے PPP کی وزارت خزانہ اور اب PTI کی مشاورت تک مگر اصول وہی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف والے۔۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

۔۔۔ حفیظ شیخ ۔ قاف لیگ کی مشاورت سے PPP کی وزارت خزانہ اور اب PTI کی مشاورت تک مگر اصول وہی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف والے۔۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

اپنی معاشی اصلاحات کی ناکامیوں کا اعتراف کئے بغیر مستعفی ہونے والے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے بعد مشیر خزانہ بنائے جانے والے حفیظ شیخ جیکب آباد، صوبہ سندھ کے رہائشی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانیوں میں شامل غلام نبی شیخ ایڈووکیٹ کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ خاندانی طور پر پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے ہیں مگر اُن کا حقیقی تعارف یہ ہے کہ وہ اُن چند ماہرین اقتصادیات میں سے ایک ہیں جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل رہی ہے اور ورلڈ بنک اور IMF کے سینئر عہدے داران کا بھی اُن پر بھر پور اعتماد رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک ورلڈ بنک سے مربوط رہتے ہوئے دنیا کے 25 سے زیادہ ممالک میں اپنی ماہرانہ خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں سعودی عرب میں ورلڈ بنک پروگرام کے چئیرمین کے علاوہ بطور مشیر ورلڈ بنک دنیا کی ابھرتی معیشتوں  سری لنکا، ملائشیا، کویت اور بنگلہ دیش سمیت دوسرے ممالک شامل ہیں۔ وہ ارجنٹائن میں نجکاری پر کتاب کے مصّنف بھی ہیں۔

جنرل مشرف نے پاکستان کے جن ٹاپ 20 ماہرین معاشیات کی فہرست بنوائی تھی، حفیظ شیخ اُن میں شامل تھے۔ شاید اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر سنہ 2000ء میں انہیں سندھ کا وزیرِ خزانہ مقرر کیا گیا۔ اس عرصے میں وہ سندھ میں محصولات کی وصولیوں میں بہتری لائے اور سٹیٹ بینک کے اوور ڈرافٹ سے سندھ کو نجات دلائی۔ اس کے بعد انہیں اس وقت کے وزیرِاعظم شوکت عزیز کا مشیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے۔ مشرف حکومت میں اپنی تعنیاتی کے دوران اُن پر الزام لگا تھا کہ انہوں نے اپنے ایک دوست علی جمیل کو ذاتی اثر ورسوخ کی بنا پر ٹریکر سسٹم کا ٹھیکہ لے کر دیا تھا۔ یعنی جو مال بردار گاڑیاں یا کنٹینرز پاکستان سے افغانستان جاتے تھے، اُن پر لگنے والا ٹریکرسسٹم ان کے دوست علی جمیل کی کمپنی کے ذریعے  لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ سنہ 2005ء میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری بھی اُن کے منصوبہ کے تحت عمل میں لائی گئی جس کے تحت متحدہ عرب امارات کی سرکاری ٹیلی کمینونیکیشن کمپنی اتصالات نے پی ٹی سی ایل کے 26 فی صد حصص 2 ارب 60 کروڑ ڈالر میں خریدے تھے۔ نج کاری کمیشن حکام کے مطابق اس میں سے ابھی تک اتصالات نے 79 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ادائیگی نہیں کی۔ واضح رہے کہ مئی 2015ء کے دوران قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں چیئرمین نجکاری کمیشن نے تسلیم کیا تھا کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کا معاہدہ غیر منصفانہ اور ملک کیلئے نقصان دہ تھا مگر پاکستان حکومت پھر بھی معاہدہ کی پابندی کرتی رہی ہے۔ اس معاہدہ کے تحت پاکستان حکومت نے پی ٹی سی ایل  کی 3،248 میں سے 3،214 جائیدادوں کا کنٹرول اتصالات کے نام منتقل کیا جبکہ 9 کروڑ 24 لاکھ ڈالر مالیت کی 34 جائیدادیں اتصالات کے نام منتقل نہیں کی گئیں۔ اس بنیاد پر اتصالات نے مکمل ادائیگی میں سے 9 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں روکنے کی بجائے 79 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں تقریبا’خً 14 سال تک روکے رکھیں۔ نیب حکام نے کبھی بھی اس معاملہ میں غیر منصفانہ اور نقصان دہ معاہدہ کی تحقیقات میں حفیظ شیخ کو طلب نہیں کیا۔

سنہ 2006ء میں حفیظ شیخ نے مشرف حکومت کو خیرباد کہہ دیا اور اگلے 4 سال تک سیاسی میدان سے غائب رہے۔ سنہ 2010ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بعض اختلافات کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا تو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی  ایماء پر حفیظ شیخ کی دوبارہ سیاست میں واپسی ہوئی اور انہیں مشیر خزانہ کا قلمدان دینے کے ساتھ سینیٹر بھی منتخب کرایا گیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ دوبارہ بیرون ملک منتقل ہوگئے اور تقریباً 5 سال کے بعد ان کا سیاست میں دوبارہ ظہور ہوا ہے۔

حفیظ شیخ بھی ماہرین معاشیات کے اُس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو صرف ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے کتابچوں پر لکھے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ سنہ 2011ء میں صدر اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زارداری نے اخبار نویسوں سے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اُن کا وزیر خزانہ ہر معاملے کو ٹیکنوکریٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ IMF اور ورلڈ بینک کی تجاویز کو غور سے سنتا ہے۔ یہ حقیقت یاد نہیں رکھتا کہ ووٹوں کی محتاج سیاسی حکومتوں کو معاشی پالیسیاں بناتے ہوئے چند سمجھوتے کرنا ہوتے ہیں‘‘۔

حفیظ شیخ مگر سیاسی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ وہ ملکی معیشت میں اُن اصولوں پر ہی چلتے رہیں گے جو انہوں نے ورلڈ بنک اور IMF سے سیکھے ہیں۔ ان اداروں کے اصول اور قوانین کے برعکس ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے کئی ممالک ہمارے جیسے خراب ترین معاشی حالات سے گزر چکے ہیں اور معاشیات کے میدان میں ان مسائل کا حل بھی ڈھونڈا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر 19ویں صدی کی ابتداء میں معاشیات پر کلاسیکل تھیوری کا راج تھا اور Professor Say کے مقولہ ”ہر رسد اپنی طلب خود پیدا کرتی ہے” کا بول بالا تھا۔ آسان لفظوں میں معاشیات کی اس وقت کی تھیوری مارکیٹ کی اپنی طاقت پر یقین رکھتی تھی کہ حکومت کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ مارکیٹ قدرتی طور پر ہر مسئلے کا حل خود ڈھونڈ لیتی ہے۔ یہ تھیوری سنہ 1930ء کے اقتصادی بحران میں غلط ثابت ہوئی جب امریکی معیشت تاریخ کی بد ترین سُست روی کا شکر ہوئی۔ نہ صرف امریکی بینک اوراسٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئے بلکہ مہنگائی یا افراط زر نے امریکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی اور مارکیٹ خود سے حالات کودرست نہ کر سکی۔ یہ وہ تاریخی واقعہ تھا جب امریکہ نے معیشت کی بحالی کے لئے اپنے قومی مرکزی بینک سنٹرل ریزرو کی بنیاد رکھی اور اس کا اولین مقصد یہ ٹھہرایا کہ ملک میں افراط زر یعنی مہنگائی کو قابو میں رکھے۔ یعنی آسان لفظوں میں کلاسیکل تھیوری کو رد کرتے ہوئے معیشت کے کنٹرول کو مارکیٹ کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیوں سے بھی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس تھیوری کے تحت اوّلین توجہ ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے پر دی گئی۔ (مسلم لیگ نون کے وزیر خزانہ اسحق ڈار اسی تھیوری پر کام کرتے رہے تھے جبکہ تحریک انصاف کے اسد عمر روپے کی قیمت کو گرا کر ایکسپورٹ بڑھانے کے خواب دیکھ کر بدحال معیشت کا حل ڈونڈھ رتے تھے۔

اس ضمن میں غور فرمائیں کہ:۔

(1)۔ قومی مرکزی بینک کی پالیسیوں کو مالیاتی یا مانیٹری پالیسیاں کہا جاتا ہے۔ ان پالیسیوں کا فوکس ملک میں افراط زر کو کرنسی کی مقدار سے کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ معیشت کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوۓ پاکستان جیسی سُست رو معیشت کی بہتری کے لئے کرنسی کی مقدار کو ملک میں بڑھایا جاتا ہے، جس سےمہنگائی تو بڑھتی ہے لیکن سود کی شرح نیچے آنے سے معیشت میں تیزی آتی ہے۔ صنعت کار اور خریدار دونوں ہی کم شرح سود پر قرض لے کر پیسہ ملکی معیشت میں خرچ کرتے ہیں اور یوں معیشت میں تیزی آ جاتی ہے۔

(2)۔ دوسری طرف ملک کے مرکزی بینک کی مالیاتی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی حکومت کے اپنے صوابدید میں ٹیکس اور ترقیاتی کاموں پر پیسہ لگانے کا اختیار ہوتا ہے جسے حکومتی فسکل پالیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ مثال کےطور پر حکومت ایک سُست روی کی شکار معیشت کو ملک میں ترقیاتی پراجیکٹس پر پیسہ لگا کر تیز کر سکتی ہے۔ حکومت یہی کام شہریوں پر ٹیکس کی چھوٹ سے بھی حاصل کر سکتی ہے۔ (پی ٹی آئی حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، تمام ترقیاتی پراجیکٹس تقریباًًً بند ہو چکے ہیں اور جو چل بھی رہے ہیں، اُن کا مستقبل ڈانواڈول ہی ہے۔ ان پراجیکٹس کی بندش کے علاوہ تحریک انصاف حکومت نے پہلے سے پِس رہے کاروباری اور سرمایہ داروں  پر اضافی ٹیکسوں کا جو بوجھ لادا ہے، اُس پر سوائے افسوس کے کیا بات کی جا سکتی ہے)۔

درج بالا دو طرز عمل یعنی مرکزی قومی بینک کی مالیاتی پالیسیاں اور حکومت کی فسکل پالیسیاں کسی بھی ملک کی معیشت کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 1930ء میں برطانوی نژاد امریکی ماہر معاشیات جون کینیز (John Keynes) نے فسکل پالیسی کا استعمال کرتے ہوۓ امریکہ کی بدترین معیشت کو سنبھالا دیا۔ امریکی حکومت نے ملک بھر میں ترقیاتی کاموں پر پیسہ لگانا شروع کیا۔ حتیٰ کہ قرض لے کر پیسہ ملک میں ترقیاتی پراجیکٹس پر لگایا گیا اور یوں عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے گئے اور صنعت کاروں کو پیداوار بڑھانے کی ترغیب ملی اور نتیجتاً بے روزگاری کاخاتمہ ہوا۔ (یوں پیدا ہوتی ہیں نوکریاں، کروڑوں نوکریوں کا دعویٰ کرنے والوں کے لئے ایک سبق)۔

سنہ 1970ء میں امریکی معیشت نے ایک بار پھر بُرا وقت دیکھا۔ اس بار صورتحال یہ تھی کہ افراط زر کے ساتھ ساتھ بے روزگاری بھی بڑھ گئی۔ اس صورتحال میں کینز کی 1930ء والی فسکل پالیسی بے کار ثابت ہوئی کیونکہ حکومتی فسکل پالیسی افرط زر کو مزید ہوا دیتی ہے۔ ان حالات میں امریکہ کے ایک نوبل پرائیز یافتہ ماہر معاشیات ملٹن فرائیڈمین (Milton Friedman) نے مرکزی قومی بینک کی مالیاتی پالیسیوں پرعمل درآمد کی بات کی اور ملکی معیشت میں پیسے کی مقدار کو بڑھانے پر زور دیا۔ ملکی معیشت میں پیسہ دو طرح سے بڑھایا جاتا ہے یا تو مرکزی بینک شہریوں اور کمپنیوں سے بانڈز اور اسی طرح کی دوسری انویسٹمنٹ خریدنا شروع کرتا ہے یا پھر ملک میں سود کی شرح کم کر دیتا ہے۔ ان دونوں ہی صورتوں میں عوام کے پاس پیسہ آتا ہے اور مارکیٹ میں اشیاء کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے جو صنعت کاروں کو ایک بار پھر پروڈکشن کی ترغیب دیتا ہے جس سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور قومی معیشت مستحکم ہو جاتی ہے۔

مزید براں سنہ 2008ء میں امریکہ کی ہاؤسنگ مارکیٹ کریش کرگئی اور فی الزمانہ رواج کے مطابق عالمی منڈیوں کے ایک دوسرے پر انحصار کی بدولت نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے تمام بڑے ممالک میں ایک بار پھر افراطِ زر اور ساتھ ہی ساتھ کم ہوتی ہوئی پروڈکشن نے بیروزگاری کی شرح میں اضافہ کر دیا۔ ان حکومتوں نے اپنی فسکل پالیسی اور مالیاتی پالیسیوں کا درست استعمال کرتے ہوۓ معیشت کو پھر بحال کر دیا۔ مثال کے طور پر حکومت نے ایک طرف فسکل پالیسی کے تحت عوام کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی اور بیرونی قرضے بڑھا کر آنے والے پیسے کو ملک میں ترقیاتی کاموں پر صرف کیا۔ یوں عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کر کے ان کی قوت خرید کو سہارا دیا۔ دوسری طرف مالیاتی پالیسی کا استعمال کرتے ہوۓ سود کی شرح کو انتہائی کم کرتے ہوۓ صنعت کاروں کو اپنی پروڈکشن جاری رکھنے کے لئے سستے قرضے فراہم کئے اور ملکی بینکوں کو کم شرح سود پر قرضے فراہم کرنے میں بینکوں کو حکومتی قرضے دئیے گئے۔

بنیادی اصول ہے کہ معاشی ترقی کا سارا راز معیشت کا پہیہ چلنے پر ہے اور معیشت کا پہیہ چلنے سے مراد ہے کہ خریدار کے پاس خریدنے کی سکت ہو، قیمتیں کنٹرول میں ہوں، اشیاء کی ڈیمانڈ ہو اور سرمایہ کار کے لئے سود کی شرح مناسب ہو۔ ان سب سے بھی بڑھ کر خریدار، مینوفیکچرر اور سرمایہ کار سب کا معاشی سسٹم پر اعتماد ہو۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری حکومت نے ہر زاویہ سے معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بڑا ہاتھ ہو گیا ہے جو یہ سمجھتی رہی کہ عمران خان  نے پوری تیاری کر رکھی ہے اور وہ مستند ترین ماہرین کے ذریعہ اقتصادی بدحالی کو جادو کی چھڑی سے صحیح ٹریک پر چڑھا دیں گے۔ راقم کے دوست فیاض ظفر کا کہنا ہے کہ اسد عمر کے استعفیٰ اور حفیظ شیخ کے تقرر کے قصّے  میں یہ بات ہضم کرنا بہت مشکل ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستانی معیشت کے بنیادی مسئلے سے نابلد ہو۔ تاہم اس بات کا جواب ڈھوندنا ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک اس بنیادی مسئلہ کا حل کیا ہے؟۔ اگر تو وہ دل سے یہ مانتے اور سمجھتے تھے کہ سویلین حکمران بدعنوان ہیں تو عمران خان کی شکل میں ایمان دار قیادت تو اُن کی مرضی اور منشاء کے مطابق آ گئی۔ اگر معاشی سدھار والا معاملہ پھر بھی ہاتھ نہیں آ رہا تو آخر مقتدرہ کے نزدیک اس کی وجہ کیا ہے؟۔ اپوزیشن کو ذمہ دار اس لئے نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ وہ بے چارے تو عدالتوں اور نیب کی پیشیوں میں مصروف ہیں، یعنی حجت تو کوئی باقی نہیں رہی ۔ تو پھر چکر کیا ہے؟۔

Advertisements
julia rana solicitors

چلتے چلتے ایک سچا واقعہ سنتے جائیں جو حیدر آباد سے ہمارے دوست و مہربان صولت پاشا نے سنایا ہے کہ پرانی بات ہے کہ موجودہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ اپنی ورلڈ بنک ملازمت کے دوران اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لئے امریکہ سے سکھر آئے- گھر والے ولیمہ کے کھانا کا معاملہ باورچی سے ڈسکس کر رہے تھے۔ باورچی نے مہمانوں کی تعداد دیکھ کر کھانے کی تعداد بتا دی- ورلڈ بنک والے حفیظ شیخ بیچ میں کود پڑے، بولے کہ تم لوگ آخر کس حساب سے کھانا بناتے ہو۔ پھر خود ہی حساب لگایا کہ ایک شخص ایک پاؤ سے زیادہ نہیں کھا سکتا۔ مہمانوں کی کل تعداد سے ضرب دے کر جو حساب بتایا وہ باورچی کے حساب سے آدھے سے کم تھا۔ لوگوں نے بہت سمجھایا کہ باورچی اپنے کام کا ماہر ہے لیکن کیوں کہ یہ ورلڈ بنک میں کام کرتے تھے اس لئے ان ہی کا حساب چلا۔ خیر مہمان آ گئے۔ انتظام کرنے والوں نے فیصلہ کیا کہ پہلے مرد مہمانوں کو نمٹا دیں، خواتین دوسری شفٹ میں کھا لیں گی۔ مگر ہوا یہ کہ پکا ہوا سارا کھانا مردوں کو ہی پورا نہ پڑا۔ منتظمین پریشان ہو گئے اور پھر سب نے گاڑیاں نکالیں، گھر کے سارے بھگونے برتن اٹھائے اور سکھر کے ہوٹلوں سے بریانی و قورمہ وغیرہ جمع کرتے رہے۔ پھر کہیں جا کر باقی مہمانوں اور خواتین کو ولیمہ کا کھانا کھلا سکے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ حفیظ شیخ کے عزیز، رشتہ دار ایک طویل عرصے تک حفیظ شیخ صاحب کے حساب کا مذاق بناتے رہے اور یہ صرف شرمندگی سے مسکراتے رہے۔ ڈر صرف یہ ہے کہ ایسا کوئی حساب کتاب حفیظ شیخ نے اگر پاکستانی معیشت کے ساتھ کر دیا تو بھوکے عوام کے لئے چینی، سعودی یا امریکی کھانا اتنی جلدی نہیں پہنچ ہائے گا جتنی جلدی سکھر کے ہوٹلوں سے مہمانوں کے لئے اکٹھا ہو گیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply