شعور۔۔۔امبر زہرا

داؤد میرا چچازاد ہونے کے ساتھ بہت اچھا دوست بھی تھا۔ ہم دونوں نے اپنا بچپن ساتویں جماعت تک ایک ساتھ ہی گزارا، ساتویں جماعت میں چچا نے اپنے مالی حالات کے پیشِ نظر داؤد کا  سکول چھڑوا کر اسے ایک خراد کی دکان پر مزدوری پر لگا دیا۔ (پاکستان میں عام طور پر لوہے کے کام کو خراد کا کام کہا جاتا ہے جس میں لوہے کے اوزار سے لیکر بھاری مشینیں تیار کی جاتی ہیں) جبکہ میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ ہم دونوں جب بھی  ملتے تھے ہمیشہ کسی نہ کسی موضوع پر بحث کرتے تھے زیادہ تر ہماری بحث تعلیم کے حصول پر ہی ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتا تھا کہ چھوڑو یہ پڑھائی اس میں کیا رکھا ہے پڑھ تو جاؤ گے آگے کیا گارنٹی ہے کہ اچھی نوکری ملے یا نہیں ،ہزاروں پڑھے لکھے یہاں دھکے کھا رہے ہیں، میرے ساتھ چلو بہت پیسہ ہے اس کام میں اور میں ہمیشہ اُسے تعلیم کے فائدے گنواتا تھا کہ تعلیم کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے تعلیم کا مقصد شعور حاصل کرنا ہے پھر یہ بحث لمبی ہی ہوتی جاتی تھی۔

دس سال گزر گئے تھے میں اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا۔گورنمنٹ کی نوکری مل چکی تھی اور گزر بسر اچھا ہو رہا تھا ،اسی کے ساتھ میری مصروفیات بھی بڑھتی جا رہی  تھیں۔
اُدھر داؤد بھی اپنے کام میں ماہر ہو گیا تھا وہ دکان سے فیکڑی تک پہنچ چکا تھا۔ محلے میں اس کے کام کے چرچے ہوتے تھے ۔اماں مجھے گاہے گاہے اس کے قصے سناتی تھیں۔ “آج داؤد کو اس کے مالک نے بہترین کام کرنے پر بہت بڑا انعام دیا ہے اور اس نے ان پیسوں سے اپنی فیکٹری کے سب بوڑھے مزدوروں کو کھانا کھلا دیا” اماں داؤد کے ایسے قصے سناتی نہیں تھکتی تھیں جبکہ میں سن کہ تھک جاتا تھا۔

اک دن میں اپنی گلی سے گزرا تو دیکھا بابے رفیقے کے گھر کے آگے گہما گہمی تھی میں نے گھر آتے ہی اماں سے اِس رونق کی وجہ پوچھی تو اماں نے جواب دیا “آج رفیق کی بیٹی کی شادی ہے پتر اور اہم بات پتہ ہے کیا ہے؟ یہ شادی ہمارا داؤد کروا رہا ہے۔ شادی کا سارا خرچ وہ برداشت کرے گا” مجھے اچُھنبا سا لگا میں حیرت سے اماں کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اماں سے پوچھا کہ کیا داؤد کی اتنی آمدن ہے کہ وہ شادی کا سارا خرچ ہی اٹھا رہا ہے؟ اماں نے جواب دیا “اللہ جانے! تمھاری چچی بتا رہی تھیں کہ اس نے کافی جگہ سے قرض اٹھایا ہے بھلا کیا ضرورت تھی اتنا قرض لینے کی دادو کو جتنا آسانی سے دے سکتا تھا دے دیتا۔۔جے ہو داؤد میاں کی پوری شادی کا ہی خرچہ اٹھا لیا”۔

بابا رفیق ہمارے محلے کے سب سے غریب بزرگ تھے تین بیٹیاں تھیں ،دو کی شادی محلے والوں کی امداد سے ہو چکی تھی تیسری کی داؤد میاں اپنے سر پر قرضہ لے کر کروا رہے تھے۔ مجھے داؤد کو دس سال پہلے کہا ہوا اپنا فقرہ یاد آ رہا تھا “تعلیم کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے بلکہ شعور حاصل کرنا ہے” یہ فقرہ کسی طمانچے کی طرح آج میرے منہ پر لگا تھا۔ آج میں صرف پیسے کما رہا تھا “شعور” بہت دور رہ گیا تھا۔ مجھے اپنی 18 سال کی یہ تعلیم اک ساتویں جماعت پاس لڑکے کے آگے ہارتی نظر آ رہی تھی۔ یہی تو شعور تھا جو ہم اپنے علم کے  ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر شعور کی تعریف اور کیا ہو سکتی ہے کہ اک انسان کو قدرت نے جو بھی عطا کیا ہو چاہے وہ رزق ہو یا علم، وہ اِس میں دوسروں کا حصہ بھی رکھے وہ اس عطاءالہی کو اک قرض سمجھے اور مخلوق خدا کی مدد کیلئے ہر ممکنہ کوشش کرے۔ مجھے کبھی فرصت نہیں ملتی تھی تو کبھی ایسی سوچ نہیں آتی تھی کہ مجھے صرف خود کو نہیں اپنے اردگرد بھی دیکھنا ہے جبکہ داؤد کو ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے پاس اک سوچ تھی وہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھا مگر “شعور یافتہ” تھا۔

میں تعلیم یافتہ تھا اور باقی پڑھے لکھے لوگوں کی طرح ہار نہیں مان سکتا تھا۔ الماری سے کچھ پیسے نکال کر میں نے بابے رفیقے کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔

Advertisements
julia rana solicitors

“اللہ اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لاؤ اور اس (مال) میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں (دوسروں) کا جانشین بنایا ہے پس جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کیا ان کیلئے بڑا اجر ہے۔”
(القرآن 57:7)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply