صرف رامیا ہی زد پر کیوں ۔ نازش ہما قاسمی

مشہور قول ہے کہ اگر تم سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرو گے تو تم سے ادنی اور ارذل لوگ تم پر حکومت کریں گے، اگر اس کہاوت کو حقیقی زندگی میں دیکھنے کا شوق ہے تو آپ روئے زمین کی سب سے بڑی جمہوریت ملک ہندوستان کا دورہ کیجئے، یہاں یہ بات حرف بحرف ثابت ہوچکی ہے، یہاں ہر چیز کا ایک پیمانہ متعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر آپ سچے دیش بھکت ہیں تو آپ کیلئے ضروری ہے کہ گائے کو ماتا مانیں اور اگر آپ گئو ماتا کے رکشک ہیں تو سرعام توڑ پھوڑ مچا سکتے ہیں حتی کہ عورتوں کو بھی عوام میں زد و کوب کرنے کی مکمل آزادی ہے۔آپ پر کوئی کیس یا کوئی گرفت نہیں ہونے والی۔ اگر آپ نے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگا دیا ہے تو پھر سارے گناہ آپ کے معاف ہیںکسی بھی قسم کا غیر قانونی عمل غیر قانونی نہیں رہے گا۔ آپ چاہیں تو مسلمان کو الزام لگا کر دادری جیسا ماحول بنا سکتے ہیں اور اگرچاہیں تو پربھنی جالنہ پورنا کی مسجدوں میں بم پھینک کر بھی رہائی پاسکتے ہیں۔

 اب دیش بھکتی کا ایک اور نیا پیمانہ منظر عام پر آیا ہے، دیش بھکت ہونے کیلئے اب تک تو اپنے دیش میں ہی کچھ چیزوں کو انجام دینا ضروری تھا مگر ترقی کے اس زمانہ میں جیسا کہ موبائل ورژن ہمیشہ بدلتا ہے اس پیمانہ میں بھی تبدیلی آئی ہے۔کنڑ اداکارہ اور سیاستدان رامیا کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہوا ہے، اسلئے نہیں کہ انہوں نے اپنے ملک یا حکومت کے خلاف کوئی بیان دیا ہے یا پھر غیر قانونی کام میں ملوث رہی ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، بات یہ ہے کہ انہوں نے گرو نانک کی سرزمین پاکستان کو جہنم کہنے سے انکار کر دیا ہے۔ اور ان کا یہ بیان وزیر دفاع منوہر پاریکر کے جواب میں تھا جس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان جانا اور نرک میں جانا برابر ہے۔ پاکستان جہنم ہے یا نہیں یہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم۔ لیکن گزشتہ 50دنوں سے ہمارے اپنے ملک کی جنت ارضی جس پر ہمیں ہمیشہ فخر رہا ہے اور جس کیلئے تقریبا ہمارے تمام بڑے بڑے سیاست دان اپنا بیان ریکارڈ کرا چکے ہیں، جسے دنیا کشمیر کے نام سے جانتی ہے، جہنم کا نظارہ پیش کررہی ہے-

عوام اور پولس فورس کے درمیان مستقل جھڑپوں نے ہماری قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ کسی بھی جگہ کرفیو نافذ ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ حکومت اپنے معاملات میں ناکام ہے اور کرفیو کی مدت 2/4 دن ہوا کرتی ہے دو چار مہینے نہیں۔ کنڑ اداکارہ اب بھی اپنے بیان پر قائم ہے، اور انہیں ہونا بھی چاہیے کیونکہ یہ کیسی اندھیر نگری ہے کہ اگر آپ نے فلاں کو گالی نہیں دیا ہے تو آپ ہمارے خلاف ہیں،بلکہ سنجیدگی سے اگر اس معاملہ میں غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گالی گلوج کبھی بھی شریفوں کا شیوہ نہیں رہا ہے، اس کام کو انجام دینے والے بزدل اور تنگ نظری کے شکار ہوتے ہیں اور یہی چیز ہماری حکومت میں سرایت کرچکی ہے۔ ہمارے وزیراعظم صاحب پاکستان گئے اس سے قبل لال کرشن اڈوانی بھی قائد اعظم محمد علی جناح کی مدح سرائی کرچکے ہیں، تو کیا ان کے خلاف بھی مقدمہ چلے گا۔  ظاہر ہے ایسا کچھ نہیں ہونے والا ہے کیونکہ اگر انصاف کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ چیزیں غلط نہیں ہے لیکن کیا کریں ہماری موجودہ حکومت تعصب میں اس قدر اندھی ہوچکی ہے کہ انہیں کسی بھی چیز کا ہوش نہیں رہتا ہے۔پاکستان کو محض جہنم کہ دینا کافی ہے؟ کیا پاکستان کو جہنم کہنے کے بعد ہم سچے دیش بھکت ہوجائیں گے؟

ٹھیک ہے آج پاکستان ہم سے الگ ہوکر ایک ملک بن گیا ہے اس کے جو بھی اسباب و علل رہے ہوں اس سے قطع نظر کیا ماضی کی تاریخ کو یکسر فراموش کردیا جائے گا۔ سکھ ازم کے بانی گرو نانک جی کی پیدائش موجودہ پاکستان میں ہوئی ہے، جس سے ہندوستان میں بسنے والے تمام سکھوں کا مذہبی اور دلی تعلق ہے، کیا کسی بھی دھرم کا ماننے والا اپنے دھرم گرو کی جائے پیدائش کو جہنم کہنے کیلئے تیار ہوگا۔ نہیں ہوگا تو کیا سبھی سکھ پر ملک مخالف مقدمہ درج کیاجائے گا۔ خیر ان سب باتوں کو چھوڑئیے اگر پاکستان جہنم ہے تو ہندوستان کونسی جنت ارضی کی نظیر پیش کررہا ہے۔ آئے دن یہاں جہنم کے ہولناک مناظر نظروں سے گزرتے ہیں۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک کوئی بھی دن ایسا نہیں گیا ہوگا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ ہم انگریزوں کے جانے کے بعد خوشحال ہیں ۔ ہر دن غریب اپنی قسمت کو کوس رہا ہوتا ہے ۔ ہر دن کوئی نہ کوئی دلت پر ظلم وستم روا رکھا جاتا ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی مسلمان کی دکانیں جلائی جاتی ہیں۔ کیا یہی سب جنت ارضی میں ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رامیا کہ اس بیان پر کیوں اتنا ہنگامہ ہے سچ ہی تو کہا ہے کہ پاکستان جہنم نہیں ہے اگر پاکستان جہنم ہے تو ہندوستان بھی جنت نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے سیاست دانوں نے محض اپنی ساکھ اور انا بچانے کی خاطر ملک کو جہنم بنادیا ہے ۔ آج اگر وہاں کچھ بھی ہوتا ہے تو یہاں کا نام لیا جاتا ہے اور یہاں کچھ ہوتا ہے تو وہاں کا ۔ کیا یہ دلوں کو بانٹنے والے اعمال نہیں ہیں۔ حالانکہ دونوں ملکوں کی اکثریت پڑوسی ممالک سے حسن ظن رکھتی ہے اور آپسی محبت کے فروغ پر یقین ۔ ہمیں پاکستان کے جنت یا جہنم سے کوئی سروکار نہیں ہوناچاہئے ہمیں اپنے ملک عزیز کوجوکہ جہنم کی وادی کی طرف تیزی سے پھسلتا جارہا ہے اسے جنت ارضی میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ملک میں آپسی اتحاد کے ساتھ اس گنگ وجمن والی تہذیب کا دامن تھامے رکھیں جس کی وجہ سے ہم نے آزادی حاصل کی تھی۔ چلئے مان لیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیان کے ذریعے ملک مخالف عمل کیا ہے جس کی وجہ سے ان پر مقدمہ درج کیاگیا۔ لیکن ان سبھی پر بھی ملک مخالف مقدمہ درج کیاجاناچاہئے جو پاکستان جاکر آئے ہیں۔ اڈوانی کی مدح سرائی سے لے کر موجودہ وزیر اعظم تک جو حال ہی میں دعوت اڑا کر آئے ہیں ان پر بھی مقدمہ درج کیا جائے اگر نہیں تو پھر رامیاکو بھی زد پر نہ لیاجائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply