مکالمے کی ضرورت کیوں ہے؟ ۔ دائود ظفر ندیم

 مکالمے کی ضرورت ہر دور میں ہوتی ہے کیونکہ ہر دور میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا موضوع ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے ہے۔ کچھ دوست کو اس کو لیفٹ اور رائٹ کی جنگ خیال کرتے ہیں اور اسے غلط طور پر ستر کی دہائی کے مباحثے سے جوڑتے ہیں۔ ستر کی دہائی کا مباحثہ واقعی لیفٹ اور رائٹ کا مباحثہ تھا۔ لیفٹ کی سیاست کا مقصد مروجہ نظام اور مروجہ نظام معیشت میں ایسی تبدیلی لانا ہے جس سے ریاست میں ذرائع پیداوار کی ملکیت کی نوعیت میں تبدیلی واقع ہو۔ جبکہ رائٹ کی سیاست کا مقصد زیادہ سے زیادہ ایسی اصلاحات کا نفاذ کرنا ہے جس میں مروجہ نظام میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوسکیں البتہ اس کا مقصد اس نظام کو تبدیل کرنا نہیں ہوتا۔

ستر کی دہائی میں جماعت اسلامی یا بعض دوسری مذہبی جماعتیں اس لئے رائٹ کی جماعتیں تھیں کہ وہ اس وقت مروجہ نظام سرمایہ داری اور جاگیرداری کو اسلام کا حصہ خیال کرتی تھیں اور اس نظام کو جو خطرات درپیش تھے، اس سے ان کو اسلام خطرے میں نظر آتا تھا تاہم موجودہ مباحثے کو کسی بھی لحاظ سے لیفٹ اور رائٹ کا مباحثہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ مباحثہ ان لوگوں کے مابین ہے جو مذہب اور ریاست کے درمیان تعلق کی وضاحت کررہے ہیں۔

آج مکالمہ کئی سطحوں پر محیط ہے، ایک سطح تو ان گروپوں کی ہے جو ریاست میں اپنا مخصوص فہم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو مذہبی شدت پسند کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ریاست اور مذہب میں نہ صرف مکمل علیحدگی چاہتے ہیں بلکہ مذہب کو شخصی معاملے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں، ان کو سیکولر اور لبرل کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں گروپ خود کو اپنے تئیں درست خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس لئے ان دونوں کے مابین حقیقی مکالمے کی گنجائش بہت کم ہے۔ اگرچہ پاکستان میں مختلف وجوہات کی بنا پر یہ دو گروہ نمایاں نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں یہ دونوں گروہ ایک خاص حد سے زیادہ اثر و رسوخ نہیں رکھتے۔

پاکستان میں مکالمے کی ضرورت معتدل اسلامسٹوں کے دو گروہوں یعنی غیر سیاسی اسلامسٹ اور سیاسی اسلامسٹ کے مابین ہے۔ غیر سیاسی اسلامسٹ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ریاست میں اسلام کی کسی خاص تعبیر کی بالادستی نہیں چاہتے بلکہ ہر مسلک کو اس کی تعبیر کے مطابق عبادت کرنے آزادی اور ان کے شخصی معاملات میں ان کی مذہبی تشریح کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ غیر اسلامسٹ گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو مذہبی عبادات اور ریاستی امور کو الگ الگ دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کے نفاذ سے مراد کسی مخصوص فہم کا نفاذ نہیں بلکہ تمام مسالک کو اپنے فقہ کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دینا ہے اور تمام مسالک کو پرامن طور پر رہنے اور اپنے فہم کی تبیلغ کی آزادی دینا ہے۔

ان کے اور دوسرے گروپ کے درمیان اختلاف اسلام کی سیاسی تعبیر کے حوالے سے ہے۔ سیاسی اسلامسٹ کا گروہ اسلام کی سیاسی تعبیر کو اسلام کا لازمی حصہ خیال کرتا ہے۔ یہ لوگ ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتے ہیں یا اس کو برقرار رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ لوگ جمہوریت کے ذریعے حکومت کی بات کرتے ہیں اختلاف رائے کو خلاف اسلام نہیں سمجھتے۔ کسی فرقے کے عقائد کو درست کرنے کی بات نہیں کرتے۔ سیاسی اور معاشی شعبوں میں تدریجی طور پر اسلام کو نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض لوگ احمدیوں کی حد تک ریاست کی جانب سے تکفیر کے حق میں ہیں مگر اس کے باوجود یہ لوگ احمدیوں سمیت کسی بھی اقلیت کے ساتھ کسی طرح کے امتیازی سلوک کی حمایت نہیں کرتے۔

ان سیاسی اسلامسٹوں کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مذہب کو ریاست کی طاقت کے بغیر سماج میں رواج دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ بات خاص طور پر یہ بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ ان غیر سیاسی معتدل اسلامسٹ میں ایک طرف تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی، خانقاہوں والے سجادہ نشین جیسے روایتی مذہبی گروہ شامل ہیں تو دوسری طرف غامدی صاحب کے ہم خیال، جدید صوفی فہم رکھنے والے لوگ اور روشن خیال مسلم دانشور بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں معتدل اسلامسٹوں کے ان دونوں گروپوں کے مابین ایک سنجیدہ مکالمے کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ یہ لوگ اسلام کے پرامن اور عدم تشدد کی تعبیر کو پیش کرنے والے ہیں اور دونوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔

میرا تعلق کیونکہ معتدل اسلامسٹوں کے اس گروہ سے ہے جو اسلام کی غیر سیاسی تعبیر کو اپناتے ہیں، اس لئے میں اس مکالمے میں اس گروہ کی جانب سے شریک ہوتا رہوں گا۔ ہمارا بنیادی استدلال یہ ہے کہ اسلام سماجی اقدار اور تزکیہ نفس کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات کی تشکیل کرنے والا ایک منبع ہے تاہم جب ہم زوال کا شکار ہوتے ہیں تو ظاہر، عقیدے اور نظریئے کی سلامتی کا ڈھنڈوا پیٹتے ہیں اور دنیا سے خوف زدہ ہوتے ہیں کہ یہ ہم سے ہمارا عقیدہ چھین لے گی یا خراب کر دے گی۔ اگر ہم لوگ ایک ایسا سماجی دبائو تشکیل نہیں دے سکتے جس سے ہماری اسلامی اقدار کا تحفظ ہو تو ہم کو اپنی اقدار کے بارے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی ایسی تعبیر جو ریاستی جبر کے بغیر نافذ نہیں کی جا سکتی، پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میں کیا سقم یا خامیاں ہے جن کو دور کرنے کی بجائے اسے ریاست کی قوت سے نافذ کروانا چاہتے ہیں۔

مذہبی حلقوں کا اصل کام یہ ہے کہ وہ سماجی جرائم کے بارے شعور پیدا کریں، بغیر نکاح کے جنسی تعلق کے بارے میں نوجوانوں میں ایک شعور پیدا کریں، حیا کی اسلامی تعلیم کے بارے کام کریں۔ میرا تعلق کیونکہ اس گروہ سے بھی ہے جو اسلام کی صوفی فہم پر یقین رکھتا ہے، اس لئے ہم اس صوفی روایت کا بھی حوالہ دیتے ہیں جو اوائل اسلام ہی سے حکومت سے الگ اپنا وجود رکھتی ہے۔ صوفیوں نے دربار سے الگ اپنا وجود اور تشخص قائم رکھا ہے اور کبھی حکومت کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی راہنمائی کی کوشش کی ہے ۔ تمام مخلوق کو رب کا کنبہ سمجھا ہے اور لوگوں کو مخلوق خدا سے محبت کرنے اور اس کو راضی رکھنے کا درس دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply