مکالمہ، کچھ کھٹی میٹھی باتیں ۔ وسی بابا

آپ کا ڈوب مرنے کو دل چاہے یا سیر کرنے کو کسی جھیل پر جانے کو۔ فون ملک صاحب کو ہی کرنا ہوتا کہ ملک صاحب وادی سون کی کس جھیل کو جایا جائے۔ جانا ہم نے ہوتا کوئی نہیں اس کے باوجود جب بھی پوچھیں ملک صاحب تفصیل سے بتائیں گے۔ یہ تفصیل سننے سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے۔ ملک صاحب حسب معمول کسی کو گرا کر اس کے اوپر بیٹھے اسے رگڑ رہے ہوتے ہیں۔

وسی بابے کی کال ملتے ہی وہ ارشاد کرتے ہیں۔ میں نے اس سے صلح کوئی نہیں کرنی۔ اکثر وسی بابے کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں ہوتا ملک صاحب پھر شروع ہیں۔ اب اس مجروح شاہ پوری کو بچانے کے لئے مکالمے کا آغاز ہوتا ہے۔ ملک بندہ بن جا کبھی تو کبڈی والے لنگوٹ کے بغیر مل جایا کر۔

کچھ ملک صاحب کو اپنی ٹکر کا فائیٹر ملنا بند ہوا۔ کچھ لوگوں نے بلاک کر کے جان چھڑائی تھوڑا امن ہوا تھا۔ پر قدرت کو بھی امن کہاں مطلوب ہوتا ہے۔ ملک کے پنگے ابھی جاری تھے کہ انعام رانا سے ملاقات ہو گئی۔ ان باکس سلام کرو اوئے کی کر دا پوچھو یا یہی پوچھنا ہو کہ رانے اپنی پارٹیوں والی فوٹو لگا نہ۔ رانے کا پہلا جواب یہی ہوتا بس ہمیشہ مجھے ہی روکنا۔ کبھی میری حمائیت نہ کرنا میں ہی لڑتا ہوں سب سے۔

رانے نے نوٹ نہیں کیا کہ میں اسے کیا کہتا ہوں۔ اس کا خیال ہے کہ میں اسے اوئے سردارا کہا کرتا ہوں۔ جبکہ اصل میں اسے او دربارہ کہتا ہوں۔ وہی دربار صاحب امرتسر والا۔ رانے نے جب اعلان کیا کہ وہ ایک ویب سائیٹ بنا رہا مکالمہ کرائے گا۔ اس پر اسے جو کچھ کہا اس میں سے بتانے کا صرف یہ ہے کہ پوچھا رانے تم اور تمھارے وڈے مکالمہ ڈانگ سوٹے کو ہی نہیں سمجھتے تھے۔ تم کس چکر میں پڑنے لگے ہو۔ سنتا رہتا ہنستا پر بندہ یہ ڈھیٹ ہے ٹلا نہیں لگا رہا اپنے کام پر۔

رانے کو دیکھ کر سسی یاد آتی ہے۔ ایک عرب دوست تھی اب اس سے رابطہ کم کم ہوتا ہے۔ بدو حضرات کی ویب سائیٹ پر اس سے ملاقات ہوئی۔ رانا طبعیت ہونے کی وجہ سے جلد ہی بدو اور سسی جنگ آزما ہو گئے۔ بندی جی دار تھی اس نے سب کی طبعیت صاف کی۔ بہت کچھ ہوا بدو مزاج کی جتنی سمجھ ان لڑائیوں کو دیکھ کر آئی۔ اس پر سسی کا شکر گزار ہوں۔ جب سسی کی جنگ اپنی بدو برادری سے کسی سرے نہ چڑھی تو اس نے ایک ویب سائیٹ بنا لی۔

سارے جنگجو اس ویب سائیٹ پر پہنچے وہاں اپنے آپ کو رجسٹر کرایا۔ رجسٹریشن میں جب اپنی آئی ڈی بنائی تو ساتھ ایک پاس ورڈ بھی دیا۔ سسی نے بدو فطرت کا اندازہ ٹھیک لگایا تھا۔ کہ یہ سب بدو تو ہیں ہی مسلمان بھی باکردار ہیں انہیں عقل سے پرہیز ہے۔ مختصر یہ کہ سسی نے ان سب کے پاس ورڈ سے ان کی ای میل ان کی شادی آن لائین والے اکاؤنٹ ہیک کئے۔ یاروں نے ہر جگہ ایک ہی پاسورڈ دے رکھا تھا۔ پھر ایک مدت تک ہر طرف ان عربوں کے لو لیٹر اور کھاتے لہراتے پھرتے تھے۔

ایسا امن ہوا کہ سب دوست ہو گئے۔

رانے کو دیکھتے ہوئے بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ جیسے اس کو یقین ہو کہ ہم سب دلیل کے ساتھ مکالمہ کرتے پھڑی ہی جائے گی۔ سب اندر ہونگے اور یہ پہلے ہی باہر ہے۔ رانے کو انباکس بہت چھیڑا ہے کہ تم مکالمہ کیسے کراؤ گے۔ پروفیشنلی تو تم فیملی کیس کرنے والے ماہر وکیل ہو بولے تو طلاق کرانے والا شیطان۔

رانا بے بس ہو کر بڑا کچھ کہتا ہے۔ بہت کچھ وہ دل میں کہتا ہے جو وسی بابا اپنے دل میں سنتا رہتا۔

بات یہ ہے کہ وطن سے دور رہنے والا رانا۔ اپنے یاروں کو اپنے لوگوں کو مس کرتا ہے۔ فیملی کورٹس میں گھومتے گھر ٹوٹتے دیکھتا ہے۔ جتنا اسے احساس ہوتا ہے کہ تھوڑی بات کر لیں تو شائید بچ جائیں اکٹھے رہ لیں۔ یہ احساس عام بندے کے لئے کرنا مشکل ہے۔ ڈھیر ساری نیک خواہشات کے ساتھ اس کے مکالمہ مشن کا خیر مقدم ہے۔ جس کی صرف کامیابی ہی مطلوب ہے۔ ورنہ ہم دونوں میں پھر ڈانگ چلے

Advertisements
julia rana solicitors london

وسی بابا کھانے، سونے اور پڑھنے کے علاوہ صحافت سے بھی وابستہ اور “ہم سب” اور ہم سب کے پسندیدہ ترین لکھاری ہیں۔ آپکے دہقانی لہجے میں وہ محبت، کھرا پن اور سچائی ہے جو کڑوی سے کڑوی بات سن کر بھی مباحثہ نہیں بلکہ مکالمہ پہ مجبور کرتی ہےگی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply