امید بھی کیا کیفیت ہے؟ ۔ ڈاکٹر مجاہد مرزا

  آس، آرزو، خواہش، انتظار تاحتٰی یقین، امید کے ہی پرتو ہیں۔ یہ امید بھی عجب کیفیت ہے جو شاید کائنات کی مانند لامتناہی اور الوہ کی مانند ابدی ہے۔ امید کے لیے بہت سے محاورے اور کہاوتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ “امید آخر میں مرتی ہے” ۔ جس شخص کو امید ہوتی ہے اس کی امید کا سلسلہ غالبا” اس کی موت واقع ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے چاہے وہ ڈی این اے کی شکل میں ہو جس کا مستقبل میں تجزیہ و تحلیل کیا جا سکے یا بہشت پانے کی آس اور جہنم سے چھٹکارا پانے کی خواہش کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ بہشت نشیں یا جہنم رسید ہونے کے بعد یہ تو طے ہے کہ جہنم سے نجات کی آرزو برقرار رہے گی، اس لیے کہ مسلسل جلتے رہنے کی تو اسے بھی خواہش نہیں ہو سکتی جو اپنی زندگی میں مسلسل جلتا رہا ہو چاہے اس کا جلنا “ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے” کی صورت میں تھا یا اس کارساز کے جہاں اور اس کے مکینوں کے حالات کو بہتر سے بہتر کرنے کی آرزو کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے، جس کارساز نے اسے جلتے رہنے کی سزا دے ڈالی۔ ہاں البتہ یہ معلوم نہیں کہ بہشت نشینوں کو کوئی امید ہوگی کہ نہیں کیونکہ وہاں ہر امید فوری بر آنے کی نوید ہے۔ تاہم اگر ان کی جہان فانی سے متعلق یادداشتیں بحال رہیں تو یقینا” ایسی ایسی امیدیں ضرور پیدا ہو سکیں گی جن کی فوری تکمیل کیا جانا ممنوع ہو۔ وہ امیدیں کیا ہو سکتی ہیں اس بارے میں کہنا قابل گرفت ہونے کے زمرے میں آ سکتا ہے البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ایسی امیدیں صالح نہیں ہونگی مگر کون جانے کے بہشت مکینوں کے مغز سے امید کرنے کا مرکز ہی محو کر دیا جائے۔ عبادت تو کرنی نہیں ہوگی کہ عبادت کا حاصل بہشت کی صورت میں پا لیا گیا ہوگا۔ کاوش کس بات کی جب ہر معاملہ خودکار ہوگا۔ ستر ملبوسات میں ملبوس ہونے کے باوجود ( ویسے سمجھ نہیں آتا کہ ایک سے کام کیوں نہیں چلتا) بھی حور کی ساق کا گودا دکھائی دے رہا ہوگا ( گودا دکھائی دینا بھلا کہاں کی جمالیات ہے؟)۔ مزید کیا کیا دکھائی دے رہا ہوگا اللہ جانے لیکن سارے جسم کی ہڈیوں کا گودا دکھائی دینے سے لجلجے پن کے احساس کے فرو ہونے کے علاوہ اور بھلا کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔
خیر آخرت سے متعلق مولانا طارق جمیل جانیں اور ان کے مقلدین ہم تو بات کر رہے ہیں دنیا میں موجود فانی انسانوں کی۔ ان کی امیدوں کا کوئی انت نہیں۔ خوشحالی کی امید، صحت یابی کی امید، بچوں کی تعلیم کی تکمیل کی امید ، پیٹ بھر روٹی ملنے کی امید، ایم کیو ایم کے ملک دشمن نہ ہونے کی امید، نواز حکومت کی بہتر کارکردگی کی امید، محبوبہ سے وصل کی امید، غیرملک جانے اور کمانے کی امید یعنی کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں والا معاملہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امید کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔ حال کے بکھیڑے ہی اتنے ہوتے ہیں کہ امید کرنے کا وقت نہیں ملتا اور ماضی سے متعلق تو امید بالکل مر چکی ہوتی ہے۔ مستقبل چاہے لمحے کی شکل میں ہو جس میں “فیس بک” پر کوئی “لائک” آ سکتا ہے، “میسنجر” نامی نامہ بر کوئی پیغام لا سکتا ہے یا مستقبل عہد کی شکل میں ہو جس میں لائق اور محنتی قیادت برسراقتدار آ جائے یا نالائق مگر پسندیدہ رہبر ہی لائق، دیانت دار اور امید افروز بن کر مسند نشین ہو جائے۔ محبوبہ مل جائے، بیوی سے جان چھوٹ جائے، محبوبہ بیوی بننے کی خواہش ترک کر دے اور بیوی خاوند کی جانب سے سونے کے کڑے ملنے کی آرزو سے ناشناس ہو جائے۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امیدیں پوری ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے عموما” وہ کچھ سامنے آ جاتا ہے جس کی امید کرنے کی بھی امید نہیں کی جاتی جیسے کہ امریکہ میں مقیم ایک مہربان نذیر چودھری کے مطابق ” پاکستان مخالف تقریر کرنے کے بعد الطاف بھائی نے الطاف بھائی کو استعفٰی پیش کر دیا جسے الطاف بھائی نے الطاف بھائی کی موجودگی میں الطاف بھائی کے ساتھ ایک تفصیلی بحث کے بعد مسترد کر دیا کیونکہ الطاف بھائی کا کہنا ہے کہ استعفٰی دینا الطاف بھائی کے پیدا کردہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اس بات کا اعلان الطاف بھائی نے الطاف بھائی کے ساتھ ایک لانگ ڈسٹینس کال میں ہوئی گفتگو کے بعد کیا ۔ ۔ ۔” اسے کہا جاتا ہے امید بر نہ آنا۔ اسے امید پوری ہو جانا بھی کہا جا سکتا ہے۔ امید کرنے والے پر منحصر ہے۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کی امید پوری ہونے سے کسی اور کی امید دم توڑ جائے یوں روسیوں کی وہ ضرب المثل کہ “امید آخر میں مرتی ہے” غلط ہو جاتی ہے کیونکہ امید تو مرتے دم تک ہونی چاہیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ امید ٹوٹتے ہی اسی قسم کی امید کا پھر سے پنپ پڑنا جسے امید در امید کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
اب جیسے انعام رانا کی امید ہے کہ مکالمہ کامیاب جائے مگر اغیار کی امید ہو سکتی ہے کہ اللہ کرے مکالمہ منہ کے بل پڑا ہو۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ منفی امید میں اللہ کو ضرور ملوث کر دیا جاتا ہے۔ مگر شاید یہ غلط نہیں کیونکہ اللہ نے اپنے کلام میں کفار کی شکست کی نوید دے کر امید رکھنے کو جسے بہت زیادہ امید رکھنا یعنی یقین رکھنا کہا جاتا ہے، بنیاد ڈالی تھی۔ یوں منفی امید کرنے والے اگر خدانخواستہ ان کی امید بر آئے، برا چاہنے کے گناہ سے صاف بچ نکلتے ہیں کہ اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو ان کی امید پوری ہی نہ ہوتی۔ خیر اس توضیح کے بعد بھی انعام رانا کو بہت زیادہ امید رکھنی چاہیے یعنی یقین کرنا چاہیے تاکہ اغیار کی امید پوری نہ ہو پائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(ڈاکٹر مجاھد مرزا روس میں مقیم نامور مصنف، تجزیہ نگار اور دانشور ہیں۔ آپ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک ریڈیو “صدائے روس” اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی “سپتنک” کے ساتھ وابستہ رہ کر براڈ کاسٹر اور مترجم کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ایڈیٹر)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply