دو بڑوں کا مکالمہ ۔ محمد فیاض خان سواتی

محترم جناب انعام رانا صاحب کی پر خلوص دعوت پر ”مکالمہ ویب سائیٹ” کے لئے اپنی پہلی تحریر ارسال خدمت ہے ۔
گرقبول افتد زہے عزوشرف
مکالمہ عربی زبان کا لفظ ہے جو باب مفاعلہ کا مصدر ہے، جس کا خاصہ یہ ہے کہ دو آدمی باہم ایک دوسرے سے گفتگو کریں، عربیت کا یہ قاعدہ بھی ہے کہ “المصدر کالمخنث قد یذکر وقد یؤنث” مصدرہیجڑے کی طرح ہوتا ہے کبھی مذکر اور کبھی مؤنث، جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس مکالمہ میں‌ خواتین و حضرات دونوں ہی شامل ہوسکتے ہیں بلکہ تیسری جنس کی بھی پوری گنجائش ہے، مکالمہ میں‌ دو افراد باہم گفتگو کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ذہن اور دلیل تک تہذیب اور شائستگی میں رہتے ہوئے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر دونوں طرف سمجھدار ہوں تو یہ مکالمہ بہت جلد نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے لیکن خدانخواستہ اگر دونوں اطراف میں یا ایک طرف نا سمجھ اور پھڈے باز ہو تو یہی مکالمہ آگے بڑھتے ہوئے مباحثہ و مناظرہ پھر مجادلہ اور بالآخر معاندہ پر جا رکتا ہے، اس دوران کسی کے پلے بھی کچھ نہیں پڑتا اور وقت کا ضیاع علیحدہ ہوتا ہے، میری مطالعاتی زندگی میں یہ تجربہ سامنے آیا ہے کہ مکالمہ میں مد مقابل کی گفتگو سننے کے بعد اگر اطمینان ہو جائے تو پھر شرح صدر سے اسے قبول بھی کرنا چاہیئے وگرنہ عدم اطمینان کی صورت میں مجادلہ کے بجائے وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لینا ہی زیادہ مناسب ہے، پھر کسی مناسب وقت پر دوبارہ اپنے پوائنٹ کو اٹھانا چاہئیے، یوں باہم تنازعہ بالکل نہیں ہوتا اور مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے، یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ مکالمہ ایک ہی مجلس میں نتیجہ خیز ہوجائے اسکے لئے طویل عرصہ بھی لگ سکتا ہے، چنانچہ ذیل میں دو بہت بڑی شخصیات جو آپس میں باپ بیٹے کے رشتہ سے بھی متصف ہیں، ان کا باہم ایک دلچسپ، معلومات افزاء اور حقائق پر مبنی مکالمہ پیش خدمت ہے، جس سے ہر ذی شور انسان مکاملہ کی اہمیت، طریقہ کار، ضروریات اور آداب سے بطریق احسن نتیجہ اخذ کر سکتا ہے، یہ مکالمہ امام طبرانیؒ نے اپنی حدیث کی مشہورکتاب “المعجم الکبیر” میں اور امام ابو نعیم اصبہانیؒ نے “حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء” میں تفصیل سے نقل فرمایا ہے، جس کا عربی سے اردو خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت علیؓ: اے میرے بیٹے! درستگی کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: برائی کو نیکی کے ذریعہ ختم کرنا۔
حضرت علیؓ: شرافت کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: کھانا تو گھر والوں کے لیے بنائے لیکن خیال سب کا رکھے۔
حضرت علیؓ: سخاوت کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: مالداری اور تنگدستی دونوں حالتوں میں خرچ کرے۔
حضرت علیؓ: کمینہ پن کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: آدمی اپنے مال کو تو بچا کر رکھے لیکن اپنی عزت کو برباد کردے۔
حضرت علیؓ: بزدلی کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: دوست کو بہادری اور جراءت دکھانا اور دشمن سے دامن بچاتے پھرنا۔
حضرت علیؓ: غنیٰ اور مال داری کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: نفس کا اللہ کی تقسیم پر راضی رہنا خواہ اسے دنیا تھوڑی ہی کیوں نہ ملی ہو۔
حضرت علیؓ: بردباری کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: غصہ کو پی جانا اور نفس پر قابو رکھنا۔
حضرت علیؓ: سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: بہادر لوگوں کی سختی اور بڑے لوگوں سے جھگڑا۔
حضرت علیؓ: ذلت کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: صدمہ کے وقت برداشت سے کام نہ لینا۔
حضرت علیؓ: نادانی کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: فضول گفتگو میں مشغول ہونا۔
حضرت علیؓ: بزرگی کس چیز کا نام ہے ؟
حضرت حسنؓ: لوگوں کے تاوان و واجبات ادا کرنا اور جرم کو معاف کرنا۔
حضرت علیؓ: سرداری کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: اچھے کام کرنا اور برے افعال سے اجتناب کرنا۔
حضرت علیؓ: بے وقوفی کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: گھٹیا لوگوں کی اتباع اور سرکش لوگوں کی محبت۔
حضرت علیؓ: غفلت کیا ہے ؟
حضرت حسنؓ: مسجد کو چھوڑدینا اور برے لوگوں کی اطاعت کرنا۔
اللہ رب العزت ہمیں‌ مکالمہ کے مثبت نتائج سے بہرہ ور فرمائے، آمین۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محمد فیاض خان سواتی معروف عالم دین اور استاذ الاساتذہ ہیں۔ آپ اپنی دینی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ماہنامہ نصرت العلوم کے مدیر ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply