ایک پیغام محبت بھی سہی ۔ ایم ودود ساجد

 پچھلے ہفتہ کا مضمون پڑھ کر میرے ایک محسن بزرگ نے مجھے انگریزی زبان میں ایک “پدرانہ نصیحت” لکھ کر بھیجی۔ اس کو پڑھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ اس ہفتہ اپنا انداز تبدیل کرکے دیکھوں گا اور اپنے وزیر اعظم کی خدمت میں خلوص ومحبت کے تحفے بھیجوں گا کہ شاید ان کا دل پسیج جائے اور انہیں ہندوستان کے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے احوال زار کا کچھ خیال آجائے لیکن گزشتہ 23 اگست کوبی جے پی کی اعلی ترین قیادت کے ایک خصوصی اجلاس میں وزیر اعظم نے جو بیان دیا اس نے مجھے پھر منحرف کردیا۔ ان کا بیان سن کر بہت دکھ ہوا۔اب کشمکش یہ ہے کہ اپنے ایک محسن کی “پدرانہ نصیحت” کو سامنے رکھوں یا اپنے وزیر اعظم کے اس تازہ بیان کوجس میں انہوں نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کوبالواسطہ طورپرغیر محب وطن قرار دے دیا ہے؟

zمیں نے پچھلے ہفتہ اپنی طرف سے تو کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔ وزیر اعظم کی لال قلعہ کی فصیل سے کی جانے والی تقریر پر چیف جسٹس آف انڈیا کے اظہار مایوسی کو میں نے اپنا موضوع بنایا تھا اوربتایا تھا کہ اس وقت ملک کی عدالتوں میں ایک طرف جہاں تین کروڑ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں وہیں دوسری طرف حکومت ‘عدلیہ کی سفارشات کو دوسال سے دبائے بیٹھی ہے اور صرف ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ میں ہی 440 ججوں کی کمی واقع ہوگئی ہے جبکہ تیسری طرف حال یہ ہے کہ حکومت اس ملک کی آزاد اعلی عدلیہ کو اپنے زیر نگیں کرنا چاہتی ہے۔ بس اتنی سی بات تھی لیکن میرے مذکورہ محسن نے لکھا کہ: “تم نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تنقید اور نکتہ چینی میں گزار دیا ہے۔ ہم مفاہمت‘مطابقت‘موافقت اور محبت سے جو کچھ حاصل کرسکتے ہیں وہ کسی اور طرح کا انداز اختیار کرکے حاصل نہیں کرسکتے۔” اس پر میں نے انہیں جو جواب بھیجا اس کو یہاں نقل کرنا ضروری نہیں ہے لیکن میں نے ارادہ کیا تھا کہ ذرامفاہمت،مطابقت،موافقت اور محبت کا طرز اختیارکرکے دیکھا جائے۔ مگر وزیر اعظم کے تازہ بیان نے میرے اس ارادے پرپانی پھیر دیا ۔

 آیئے پہلے وزیراعظم کا وہ بیان دہراتے ہیں۔ انہوں نے تمام 29 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے اعلی بی جے پی قائدین کوخطاب کرتے ہوئے کہا —— بیان کا یہ حصہ ذرا غور سے پڑھئے گا—— “اس ملک کے نیشنلسٹ (یعنی محب وطن لوگ) تو ہمارے ساتھ ہیں۔ اب دلتوں “ایس سی” ایس ٹی اور قبائلیوں کواپنے ساتھ لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔” اتفاق سے جس روز میں نے اس بیان کو سامنے رکھ کر مضمون لکھنے کا فیصلہ کیا اسی روز سینکڑوں فراموش کردہ مسلم مجاہدین آزادی کے تعلق سے منعقد ایک پروگرام میں ایک دانشوردلت لیڈر نے اس بیان پر اظہار حیرت کیا۔ انہوں نے اعتراض کیا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ’’ وزیر اعظم کی نظر میں دلت، شیڈولڈ کاسٹ، ایس ٹی اور قبائلی طبقات محب وطن نہیں ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اس وقت گجرات بھر کے مسلمان عملاً اور ملک بھر کے مسلمان قولاً جس طرح دلتوں کا ساتھ دے رہے ہیں، اس طرح شاید دلت ان کے بارے میں نہیں سوچ رہے ہیں۔ اس پڑھے لکھے دلت لیڈر نے وزیر اعظم کے بیان میں صرف ایک ہی خطرناک پہلو دیکھا کہ ان کی نظر میں دلت محب وطن نہیں ہیں۔ انہوں نے بیان کا دوسرا انتہائی خطرناک پہلو نہیں دیکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کا یہ بیان انتہائی خطرناک ہے۔ یہ محض بیان ہی نہیں بلکہ یہ ان کے نظریے،ان کے عقیدے، ان کی طرز فکر، ان کے طرز عمل، ان کے منصوبے، ان کے عزائم اور ان کی ذہنیت کا مکمل اور واضح اشاریہ ہے۔ یہ محض ایک سادہ بیان نہیں ہے بلکہ یہ بی جے پی کے تمام ریاستی اور مرکزی اعلی قائدین کو ‘شوسینا اور بجرنگ دل کو، وی ایچ پی اور آر ایس ایس کو اور اسی قبیل کے تمام شرپسند اور سخت گیر عناصر کو ایک واضح پیغام ہے کہ بی جے پی کے منصوبے میں مسلمان کہیں نہیں ہیں اور یہ کہ اب ان پر کوئی محنت کرنے یا ان کی فلاح کے لئے کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ کہ اگرانہیں غنڈے،جنہیں اس وقت خوب آزادی ملی ہوئی ہے، ستاتے ہیں تو ان کی کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ نریندر دامودر داس مودی اب محض بی جے پی کے ایک قائد کا نام نہیں ہے بلکہ وہ اس عظیم ملک ہندوستان کے جمہوری طور پر منتخب ایک طاقتور وزیر اعظم کا نام ہے۔ ایسا وزیر اعظم جسے بی جے پی میں پہلی باراور ملک میں راجیو گاندھی کے بعد دوسری بار اتنی بھاری اکثریت سے عام انتخابات میں کامیابی ملی ہے۔ جو خود اپنی زبان سے کہتا ہے کہ مجھے 125 کروڑ ہندوستانیوں کی فکر ہے۔ لیکن جب “اپنوں” میں بیٹھتا ہے توصرف ایک طبقہ کی بات کرتا ہے اور ایک ہی طبقہ کو محب وطن قرار دیتا ہے۔ کیا ان کے بیان سے یہ واضح اشارہ نہیں ملتا کہ 2014 کے عام انتخابات میں انہیں جن لوگوں (ہندوؤں) نے ووٹ دیا ہے بس وہی محب وطن ہیں ۔ باقی طبقات میں دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو تحریک وترغیب دے کر محب وطن بنایا جاسکتا ہے لیکن مسلمان نہ محب وطن تھے،نہ ہیں اور نہ انہیں کسی سیاسی کوشش کے ذریعہ محب وطن بنایا جاسکتا ہے! انہیں اگر مسلمانوں کا خیال ہوتا تو وہ اپنے قائدین سے یوں کہتے کہ “ہندوؤں کی اکثریت تو ہمارے ساتھ ہے لیکن مسلمان ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ لہذا ان سے بات کیجئے اوران کی غلط فہمیاں دور کرکے انہیں قریب لائیے۔” وہ کہتے کہ ان دوبرسوں میں شرپسندوں نے گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو جس طرح ستایا ہے، اس سے نہ صرف بی جے پی کی بلکہ پوری دنیا میں ہندوستان کی شبیہ خراب ہوئی ہے لہذا ایسے عناصر پر قابو پائیے اور مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھئے۔ لیکن انہوں نے یہ کہاہی نہیں۔ یاد کیجئے کہ الیکشن کے بعد بی جے پی کے قائدین نے کہا تھا کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ خود وزیر اعظم اسی رائے کے حامل ہیں تو اس حساب سے مسلمان اس ملک کے وفادار اور محب وطن نہیں ہیں۔ یہ پالیسی اور یہ تھیوری امریکہ کے سابق صدر سینئر جارج بش کی تھی کہ دہشت گردی کے نام پرعراق کے خلاف جاری لڑائی میں جو ساتھ دے، وہ ہمارا اور جو نہ دے، وہ دہشت گردوں کا حامی ہے۔ تو کیا ہمارے وزیر اعظم بھی جارج بش کی طرز پر سوچتے ہیں؟ ان کا تازہ بیان تو یہی بتاتا ہے۔

 میں نے سوچا تھا کہ وزیر اعظم کے نام ایک کھلا خط لکھ کر ان سے کہوں گا : قبلہ وزیر اعظم صاحب! آپ جس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، اس نے آزادی کے بعد سے اب تک سینکڑوں حساس معاملات اٹھا کرملک بھر میں ہمارے خلاف نفرت کا بیج بودیا ہے۔ اسی جماعت کے قائدین نے پہلے بابری مسجد کے نام پر ملک بھر میں طوفان برپا کیااور پھر 1992میں اسے شہید کردیا۔اسی پر بس نہیں کیا بلکہ جب افسردہ مسلمانوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا تو ایک طرف تو پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی اور دوسری طرف آپ کے حامیوں نے انہیں مارا اور لوٹا۔ پورے ملک میں اس گوشہ سے لے کر اس گوشہ تک یکطرفہ فسادات کی ایک لہر دوڑا دی۔ مگر پیارے وزیر اعظم صاحب! ہم اس سب کو بھولنے کو تیار ہیں کیونکہ تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہم آپ سے محبت کرنے کو تیار ہیں اور اوپر جو کچھ بیان کیا وہ تو آپ کے دورحکومت میں ہوا ہی نہیں تو اس کے لئے آپ کہاں ذمہ دارہیں؟ ہم تو گجرات2002 کو بھی فراموش کرنے کو تیار ہیں جو آپ کے ہی دور میں ہوا تھا۔

میں انہیں لکھتا: جب سے آپ وزیر اعظم بنے ہیں، لٹے پٹے طبقات کی رہی سہی آزادی بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب تو ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب کوئی کسی کو پکڑ کر کہہ دے کہ یہ اپنے گھر سے گائے کا گوشت کھا کر آرہا ہے۔ لہذا آپ کی پولیس شرپسندوں اور گاؤ رکھشکوں کے دباؤ میں آکر بے چارے غریب لوگوں پر ملک مخالف دفعات عاید کرکے جیل میں ڈال دے لیکن اس کے باوجود ہم آپ سے مفاہمت اور محبت اور مطابقت کرنے کو تیار ہیں کیونکہ تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ محبت سے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ میں انہیں لکھتا کہ ’’دادری کا واقعہ ضرورہوا۔ بے قصور اخلاق کو آپ کے لوگوں نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد آپ کے لوگوں نے اسی مقتول کے خلاف مقدمہ بھی قائم کرادیا۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں مدھیہ پردیش،جھارکھنڈ، راجستھان اور گجرات میں عام مسلمانوں اور یہاں تک کہ مسلم عورتوں تک کو آپ کے گاؤ رکشکوں نے جی بھر کرلوٹا اور ماراپیٹا۔ آپ کی پولیس نے بھی انہی کے خلاف مقدمے قائم کئے مگر ہم اس کے باوجود آپ سے محبت کرنے کو تیار ہیں کیونکہ تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور مفاہمت ‘مطابقت اور مصالحت سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ باتیں اب کیسے لکھوں؟وزیر اعظم کی اسکیم میں تو اس ملک کے مسلمان ہیں ہی نہیں۔ اگر ہوتے تو وہ ان کا ذکر 15اگست کی سرکاری تقریر میں نہ سہی 23 اگست کے پارٹی اجلاس میں تو کرتے؟ جس طرح انہوں نے دلتوں کو قریب لانے کی بات کہی اسی طرح مسلمانوں سے بھی قریب ہونے کی بات کرتے توہمارے لئے آسان ہوجاتا۔ ہم ان کے قریب دوڑ کر جاتے۔ انہیں محبت کا گلدستہ پیش کرتے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود اس ملک کے عام اور خاص مسلمان فراخ دل ہیں۔ ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب! ہمارے بڑوں میں سے تو کئی ایک آپ کی خدمت میں حاضری بھی لگاچکے ہیں۔ آپ کو مسلم مسائل سے واقف کراچکے ہیں لیکن آپ نے ابھی تک مسلمانوں کو قابل ذکر نہیں سمجھا۔ محب وطن تو کیا آپ نے غیر محب وطن کے زمرہ میں بھی ان کا نام لینا گوارا نہ کیا۔ اتنی نفرت ہے آپ کو مسلمانوں سے؟

اب میں اپنے قائدین کی طرف سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میں چوطرفہ مسائل میں مبتلا عام مسلمانوں کی طرف سے آپ کی خدمت میں مفاہمت،مطابقت اور محبت کا یہ پیغام بھیج رہاں ہوں۔ کیا آپ بھی ہم سے مفاہمت، مطابقت اور محبت کرنا چاہیں گے؟ اس کے لئے آپ کو بس یہ کہنا ہوگا کہ مسلمان بھی محب وطن ہیں۔ اس کے سوا ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہئے۔ کیا آپ ایسا کہنے کو تیار ہیں وزیر اعظم صاحب؟

Advertisements
julia rana solicitors

گوشہ ہند ۔ ایم ودود ساجد بھارت میں مقیم سوچنے والے قلمکار ہیں۔ آپکی تحاریر بھارت کی عوام کی سوچ کو عیاں اور جبر کو عریاں کرتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply