بطور انسان یہ ہماری آخری صدی ہے؟۔۔۔ادریس آزاد/قسط4

امریکن ملٹری کے ادارہ ’’ڈارپا‘‘ کا میں نے پہلے ذکر کیا۔ ڈارپا بلیَنز آف ڈالرز صرف کررہا ہے اور اس کے کئی پروجیکٹس پر بیک وقت کام جاری ہے۔ جن میں سے ایک پروجیکٹ کا نام ہے ، ’’ایکسٹینڈڈ پرفارمینس وار فائٹر‘‘۔ نام سے ہی اندازہ ہورہا ہے کہ یہ عام سپاہیوں کو جینٹکلی ڈیزائن کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس پروگرام کے ارویجنل ڈاکومینٹس نیٹ پر دستیاب ہیں جن میں واضح لکھا ہے کہ سولجرز کے ڈی این اے میں تبدیلی کرنا اس پروگرام میں شامل ہے۔ امریکی عوام نے اسے ’’سپر سولجر ٹیکنالوجی‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ ابھی 2011 میں ڈارپا نے ملیَنز آف ڈالرز کا بجٹ پھر منظور کیا ہے اور جس پروگرام کے لیے منظور کیا ہے اس کا نام ہے، ’’بائیو ڈیزائن‘‘۔ بائیو ڈیزائن حقیقت میں فقط ایک آؤٹ لائن ہے تاکہ بجٹ منظور کیا جاسکے ورنہ فی الحقیقت یہ پراجیکٹ ’’لافانیت‘‘ کے نام سے شہرت پکڑرہا ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کے تحت انسانی عمر بڑھانے کے لیے ٹرانس جینک ریسرچ کی جارہی ہے۔ اس پراجیکٹ کے ابتدائی مقاصد میں سیل کی تخریب و تعمیر کا اس نقطہ نگاہ سے مطالعہ مقصود ہے کہ آخر انسانی سیل ختم ہونا اور مرنا کیوں شروع ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہے کہ ہم عمر کے ایک حصہ کے بعد جسم کے تمام سیلز کی دوبارہ پیدائش کے قابل ہوسکیں۔اس عمل کی وضاحت کے لیے ’’ڈارپا‘‘ خود جو اصطلاح استعمال کررہا ہے وہ ہے، ’’کری ایٹنگ اِمّارٹل آرگانزم‘‘ Creating Immortal Organisms……….. لیکن یہ نام بھی اس کی حدود کی ٹھیک سے وضاحت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ملٹری دراصل اس پراجیکٹ کے ذریعے اپنے فوجیوں میں ایک ’’ایسی لیتھل فورس‘‘ پیدا کردے گی جو تباہ کن ہوگی۔ اس طرح ان کے فوجی حد سے زیادہ طاقتور اور باصلاحیت ہوجائینگے ۔
قابل ِ غور بات یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی فقط امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آسٹریلیا، چائنہ، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں ہزارہا لیبارٹریز ہیں جہاں جینٹک انجنئرنگ پر دن رات تیزی سے کام ہورہا ہے۔ گزشتہ دنوں برطانیہ میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ ’’ہیومین اینمل کائمیرا ‘‘ یا ’’ہیومن اینمل ہائی برڈ‘‘ پیدا کرنا اخلاقی طور پر کس حد تک درست یا غلط ہے۔ دراصل برطانوی حکومت نے اس بحث کو عوام کے سامنے جان بوجھ کر رکھا۔ برطانیہ کے سائنس دان یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے عوام انہیں اس تحقیق میں کس تک آگے جانے دینا چاہتے ہیں۔ کئی مباحث اور سیمینار منعقد کیے گئے۔ اسی طرح کے ایک بڑے سیمینار میں ویٹیکن کے دو بڑے بسشپس بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ فرض کریں ایک عورت ٹرانس جینک پروڈکشن میں حصہ لیتی ہے اور اس کے انڈے سے ایک ایسا بچہ پیدا کیا جاتاہے جو کچھ انسان اور اس کا باقی حصہ کوئی اور جانور ہے اورپھر وہ عورت بعد میں اپنے فیصلے پر پچھتاتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کا بچہ ختم کردیا جائے کیونکہ وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہیں دیکھنا چاہتی تو پھر اسے اس کے بچے کو ختم کردینے کا اختیار دینا بھی اخلاقی طور پر فرض ہوجائیگا۔ایسے مباحث میں ایک بات کھل کر سامنے آگئی کہ ہیومین اینمل کائمیرا میں یہ طے کرنا ایک مستقل سوالیہ نشان ہے کہ ’’کتنا انسان اور کتنا حیوان؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی بھی کائمیرا جو بظاہر دیکھنے میں محض ایک سؤر ہے ، آخر کس حد تک انسان ہے۔ اس کے جسم میں کون کون سے اعضأ انسانی ہیں اور اسے کتنے فیصد انسان مانتے ہوئے اس پر انسانی حقوق لاگو کیے جاسکتے ہیں ؟ ایک بات جس سے دنیا کے عوام ابھی تک بے خبر ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اور حیوان کے درمیان کی جانے والی یہ اینٹیگریشن ۔۔۔۔۔۔۔ فیصدی۔۔۔۔۔۔۔۔میں کیا ہے؟ یعنی کیا واقعی ایسا ہے کہ دل گردے یا پھیپھڑوں کی حد تک انسان اور باقی ماندہ جانور ملا کر نئی انواع پیدا کی جارہی ہیں یا انسان اس مقدار سے زیادہ ان میں شامل ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنسدان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ففٹی پرسینٹ اینٹیگریشن کررہے ہیں۔ یعنی پچاس فیصد انسان اور پچاس فیصد دوسرے حیوانات کو ملایا جارہا ہے اور یہ ایک نہایت توجہ کھینچنے والا امر ہے۔
اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کام کو روکا جائے یا چلتے رہنے دیا جائے۔ اس پر پیسہ خرچ کیا جائے یا پیسہ بچا لیا جائے۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کام کو اب روکا ہی نہیں جاسکتا۔ کسی بھی قیمت پر ، کوئی بھی طاقت ایسی نہیں جو جینٹک انجنئرنگ کے خوفناک نتائج سے انسانوں کو باز رکھ سکے۔ کیونکہ یہ ایٹم بم بنانے جتنا مشکل کام نہیں ہے کہ پوری صدی گزرنے کے بعد بھی چند ممالک کے پاس وہ صلاحیت ہوگی، یعنی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت۔ بلکہ جینٹک انجنئرنگ کی لیبارٹری تو آپ اپنے مکان کے گیراج میں بھی کھول سکتے ہیں۔

چنانچہ انسانوں اور جانوروں کے پیش آمدہ ’’قلمی‘‘ تعلق کو روکنا ممکن ہی نہیں۔ اور اس لیے امریکہ سمیت اب تمام اقوام کی یہ سوچ ہے کہ پھر کیوں نہ وہ سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کریں اور خود کو ٹرانس ہیومینز میں تبدیل کرلیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے دشمنوں نے خود کو اُن سے پہلے ٹرانس ہیومنز بنا لیا تو وہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں غیر ارتقأ یافتہ مخلوق کے طور پر کمزور رہ جائینگے۔
ٹرانس ہیومن ازم کے فوائد میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا فائدہ ہے ’’لمبی عمر‘‘۔ ٹرانس ہیومینز لمبی عمروں کے مالک ہونگے۔ ڈاکٹرآبرے ڈگرے Dr. Aubrey De Grey کا دعویٰ ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت پچاس سال کے ہیں ، ان میں بیشترلوگ اب ایک ہزار سال تک نہیں مرینگے۔ ڈاکٹر آبرے آنے والے ٹرانس جینک انقلاب کی وجہ سے ایسا کہہ رہا ہے۔ لیکن ٹرانس ہیومنز صرف لمبی عمروں کی وجہ سے ہی منفرد نہیں ہونگے۔ کیونکہ لمبی عمر ہونا کوئی زیادہ بڑا فائدہ یا زیادہ دلچسپ بات نہیں ہے۔ بعض لوگ تو لمبی عمر کو ایک عذاب خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ایک ہزار سال تک اس دنیا کی مشکلات کا سامنا کرنا فائدے کی بات نہیں بلکہ مصیبت ہے۔ ٹرانس ہیومنسٹس اس بات کا بھی پورا دھیان رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ صرف لمبی زندگی ہی نہ ہوگی بلکہ یہ ایک خوشحال زندگی بھی ہوگی۔ یہ زیادہ صحت مند زندگی ہوگی۔ یہ زیادہ ذہین زندگی ہوگی۔ یہ زیادہ باشعور زندگی ہوگی۔ مثلاً نیورو سائنسز کے ذریعے ہم اب بہت سی نئی چیزیں سیکھ رہے ہیں۔ ہم اب جانتے ہیں کہ دماغ کے وہ کون سے حصے ہیں جہاں ’’ڈپریشن‘‘، ’’یوفوریا‘‘ اور ’’اینگزائٹی‘‘ کا عمل وقوع پذیر ہوتاہے۔ ایک ٹرانس ہیومن کے ایسے حصوں کو جینٹکلی ڈیولپ کردیا جائے گا تاکہ وہ کبھی ڈپریس نہ ہوں۔ کبھی پریشانی اور فکر مندی کا شکار نہ ہوں۔ وہ ہزاروں سال جئیں گے لیکن ہمیشہ خوش رہینگے۔ شعوری صلاحیتوں میں بھی ایک ٹرانس ہیومین لاجواب ہوگا۔ ایک طرف تو اس کی منطقی قابلیت سقراط اور ارسطو جتنی ہوگی اور دوسری طرف اس کی سائنٹفک تفہیم کی سطح آئن سٹائن جتنی ہوگی۔ ٹرانس ہیومینز کے دماغ کمپیوٹرز کے ساتھ جڑنے اور الگ ہونے کی صلاحیتوں کے مالک ہونگے۔ وہ براہِ راست اپنے دماغ سے کمپیوٹر میں چیزیں اپ لوڈ ڈاؤن لوڈ کرسکیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ذہن اور دماغ کے علاوہ جسمانی فوائد کے اعتبار سے ہم انسان بہتر سے بہتر شکل و صورت اور صلاحیتیں حاصل کرلینگے۔ خاص طور پر جسمانی طاقت۔ مثلاً آج ایک ساٹھ سال کا شخص اگر سو قدم دوڑے تو اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے لیکن ایک عام ٹرانس ہیومین ایک سو پچاس (150)سال کی عمر میں اتنا طاقتور ہوگا کہ اولمپک ریس کے مقابلے میں حصہ لے، اور جیت سکے…

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ اقساط کے لنکس ۔۔
پہلا حصہ
https://m.facebook.com/groups/779457452156866?view=permalink&id=1633387896763813
دوسرا حصہ
https://m.facebook.com/groups/779457452156866?view=permalink&id=1633992430036693
تیسرا حصہ
https://m.facebook.com/groups/779457452156866?view=permalink&id=1636706766431926

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply