ابنِ صفی اور “ہم سب”

“ہم سب” کے شیخِ اکبر نے تازہ ترین ملفوظات میں ابنِ صفی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا تو کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ جی چاہتا ہے کہ کسی وقت ابنِ صفی کے ناولوں سے “جہادی مکالمے” ، “صہیونی سازشیں” اور بعض “ایمان افروز مناظر” نقل کرکے پوچھوں کہ ان پر تبرا کب بھیجیں گے کیونکہ انھیں تو نسیم حجازی سے زیادہ پڑھا گیا ہے اور ان کا انتقال بھی ضیائی مارشل لا کی ابتدا میں ہوا۔
ایک دوست نے کہا کہ ابن صفی کے ناولوں میں یہ نظریاتی بات بس کہیں کہیں ہوتی ہے جبکہ نسیم حجازی کا تو مقصد ہی یہی تھا۔ عرض کیا کہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔
ابن صفی نے جاسوسی دنیا کا سلسلہ شروع ہی خالص اصلاحی مقصد سے کیا تھا۔ کئی دفعہ انٹرویوز میں بھی واضح کیا اور کئی مقامات پر خود بھی لکھا کہ تقسیم ہند کے بعد جنسی ناولوں کا جو سیلاب آیا تو اسے روکنے کے لیے انھوں نے یہ سلسلہ شروع کیا۔ پھر جاسوسی دنیا اور عمران سیریز دونوں میں کئی ناول، بلکہ ناولوں کے سلسلے، خاص نظریاتی مقصد لیے ہوئے ہیں اور کئی ناول صرف اور صرف صہیونی سازش کے خلاف ہیں۔ “بزدل سورما “، “دست ِقضا “اور “ایش ٹرے ہاوز “کے تین ناول اور بعد میں “ریشوں کی یلغار “سے لے کر “تین سنکی “تک چھ ناولوں کا سلسلہ اسی مقصد کے لیے تھا۔ سوشلزم اور جھوٹی نبوت کے فتنے کے خلاف “پاگلوں کی انجمن “دیکھ لیجیے اور بالخصوص وہ نظم ملاحظہ کیجیے جو استاد محبوب نرالے ؔعالم کی زبانی مہاپاگل کو سنائی گئی ۔
عمران سیریز کا خاص نمبر “پاگلوں کی انجمن” پہلی دفعہ جون 1970 میں شائع ہوا ۔ اس میں ایک دلچسپ کردار استاد محبوب نرالےؔ عالم نے انجمن کے سربراہ “مہاپاگل” کو یہ نظم سنائی سنائی تھی۔ نظم میں “مساواتِ احمریں”، “لال پری” اور دیگر اشارات اس وقت کے عظیم فتنے، یعنی سوشلزم، کے بارے میں ہیں۔ مہاپاگل کا خیال یہ تھا کہ وہ “خلائی دور کے مہدی” ہیں اور انھیں خدا نے ایک خاص مشن پر بھیجا ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ ان کو خدا کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ نظم ان کو سنائی گئی اور ناول میں بعد میں بتایا گیا کہ نظم عمران نے استاد محبوب نرالےؔ عالم کو رٹائی تھی۔ بت کدے کی دھجیاں اڑانے کا حوالہ بھی دیکھ لیجیے۔ باقی “شیخِ اکبر” اور ان کے مریدین ماشاء اللہ سخن شناس ہیں۔ اس لیے مزید وضاحت غیر ضروری محسوس ہوتی ہے۔
نظم ملاحظہ کیجیے اور اس عظیم “نظریاتی” ناول نگار کو داد دیجیے :
———
اک دن جلالِ جبہ و دستار دیکھنا
اربابِ مکر و فن کو سرِ دار دیکھنا
سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات
ہم بھی کھلے تو جوششِ گفتار دیکھنا
قرآں میں ڈھونڈتے ہیں مساواتِ احمریں
یارو! نیا یہ فتنۂ اغیار دیکھنا
وردِ زباں ہیں خیر سے آیاتِ پاک بھی
ہے اہرمن بہ خرقہ و پندار دیکھنا
کل تک جو بتک کدے کی اڑاتا تھا دھجیاں
اس کے گلے میں حلقۂ زنار دیکھنا
لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں
ہوتے ہیں کتنے لوگ گنہگار دیکھنا
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے
اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا!
———–
اللہ تعالیٰ ابنِ صفی کو غریقِ رحمت کرے!

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply