نوٹ بندی اور ہم

ڈاکٹر عابد الرحمن
میڈیا نوٹ بندی سے عوام کو ہونے والی تکالیف کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔اس فیصلے کے تکنیکی نقا ئص بھی اچھی طرح ہائی لائٹ کئے جا رہے ہیں اسی طرح اس کے ذریعہ کالے دھن اورٹیکس چوری کو روکنے کے سرکاری دعووں کی قلعی بھی کھولی جارہی ہے لیکن ہم مسلمانوں کا انداز سب سے جدا ہے ۔پہلے تو ہمیں ہر قومی اور بین الاقوامی معاملہ میں ہمارے خلاف سازش کی بو سونگھنے کی عادت ہے ۔حالانکہ ہمارے اخبارات اور صحافی بھی اس ضمن میں پوری طرح اپنا رول ادا کر رہے ہیں لیکن کہیں کہیں اور عوامی سطح پر اس معاملے کے متعلق کچھ افواہیں اور غیر مدلل باتیں بھی گردش کر رہی ہیں۔اسے سنگھی سازش کے ساتھ ساتھ صہیونی سازش بھی قرار دیا جا رہا ہے ۔گو کہ یہ دونوں تنظیمیں نظریاتی اعتبار سے تقریباً یکساں ہیں اور ہمارے خلاف ایک ہیں اور ایک دوسرے کی مددگار بھی ہیں اور اپنی دور رس سازشوں اور خفیہ پلاننگ میں مشہور بھی ۔لیکن کیا کسی بھی معاملہ کے تمام ترکھلے اور چھپے مقاصد کو اچھی طرح جانچنے اور ہم پر اس کے دو ر و نزدیک اثرات کا منصفانہ جائزہ لینے کی بجائے اسے ان لوگوں کی سازش قرار دینا اور اگر وہ واقعی سازش ہے بھی تو اس کا توڑ ڈھونڈ نے کی بجائے صرف سازش کا ڈھنڈورہ پیٹنا ہی کافی ہے؟ہر قوم میں ایسے دانشور ضرور بالضرور ہونے چاہئیں جو ارباب اقتدار کی ہر بات ہر اعلان اور ہر فیصلے کے پیچھے جھانک کر اس کی اصل کا کھوج لگائیں اور اسے عوام کے سامنے لائیں نیز اس کے خلاف صحیح اور جچا تلا لائحہء عمل بھی پیش کریں ۔لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا ہم ہر معاملہ کو صہیونی اور سنگھی سازش کہہ کر سو جاتے ہیں۔ نوٹ بندی معاملہ میں بھی یہی بات سامنے آرہی ہے کہا جا رہا ہے کہ اس کا اصل نشانہ مسلمان ہی ہیں کہ اس کے ذریعہ ہمارے ادارے اور مدارس کا شکار کیا گیا ہے اب ان سے مالی حساب کتاب مانگا جائے گا۔ تو صاحب پہلے تو ہمارے جو مدارس اور ادارے قوم کے تئیں مخلص ہیں اور قوم کی بھلائی کے لئے کام کر رہے ہیں ان میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوتا ان کا کاروبار اور حساب کتاب روزروشن کی طرح عیاں ہے جس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں سو بار بھی ان کا حساب اگر دیکھا گیا تو اس میں کوئی کالا دھن حکومت کو یا کسی بھی سازشی کو ملنے والا نہیں۔اور اگر ہمارے کچھ ادارے واقعی اپنا کاروبار اور معاشی لین دین چھپاتے ہیں یا جن کے حساب کتاب میں جھول ہے وہ ہمارے مخلص ادارے کس طرح ہو سکتے ہیں؟اور اگر وہ مخلص نہیں ہیں تو سمجھ لیجئے کہ وہ قوم کے لئے نہیں بلکہ اپنے سربراہان اور ٹرسٹیان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتے ہیں ،وہ قوم سے زکوٰۃ اور صدقات کے نام پر مانگے ہوئے پیسے کو مستحقین پر خرچ کر نے کی بجائے اپنے پیٹ اور ہوس کا گڑھا بھر نے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ایسے اداروں کا حساب کتاب عام ہونے اور ان کے ذریعہ قوم کی زکوٰۃ اور چندے کی کالا بازاری کے عام ہونے اور ان پر قانونی شکنجہ کسے جانے میں ہمیں تکلیف کیوں ہو؟ الٹ یہ ہمارے لئے فائدے کا باعث ہے کہ اس سے انکے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش ہوسکتا ہے اور قوم ان سے اپنی زکوٰۃ روک کر اسے کسی دوسری ضروری مد میں خرچ کر سکتی ہے ۔نوٹ بندی سے ہمارا ایک فائدہ اور ہے کہ ہم میں سے مال جمع کر کر کے رکھنے والے دھنا سیٹھوں کو اپنا کالا دھن سفید کر نے میں جو ٹیکس اور جرمانہ لگے گا اس سے انکو کو کم از کم یہ احساس تو ہوگا کہ جمع شدہ رقم میں سے اگر اتنا ہی حصہ مجموعی اعتبار سے ’شودروں سے بد تر حالت ‘میں زندگی گزارنے والی اپنی قوم پر خرچ کر دیتے تو دنیا و آخرت میں فائدے کا سبب بنتی۔ اسی طرح قرآن مجید میں مال جمع کرکر کے رکھنے والوں کے متعلق جو وعید آئی ہے وہ بھی انہیں یاد آئے گی۔ حکومتی سطح پر کہا جا را ہے کہ نوٹ بندی دراصل کیش لیس اکونومی(Cashless Economy) کی طرف قدم ہے جس میں ہر طرح کے لین دین پیسوں کی بجائے کارڈس جیسے کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ہوں گے یا آن لائن اپلیکشنس یا موبائل بینکنگ یا چیک کے ذریعہ ہوں گے،کیش لیس اکونومی کی وکالت کر نے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے معاشی لین دین خفیہ نہیں رکھے جاسکیں گے اور ٹیکس چوری نہیں کی جا سکے گی ،اب کیش لیس اکونومی کتنی کامیاب ہے اور اس سے واقعی ٹیکس چوری روکی جا سکے گی یہ تو نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا جیسے ملک کاآن واحد میں کیش لیس اکونومی بننا ناممکنات میں سے ہے ، انڈیا تو چھوڑئے ابھی تک دنیا کا کوئی ملک کیش لیس اکونومی نہیں بن پایا ہے ،سویڈن دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں کیش لیس لین دین سب سے زیا دہ ہوتے ہیں لیکن وہ مکمل کیش لیس اکونومی نہیں ہے اور ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 2030 سے پہلے وہ مکمل کیش لیس اکونومی نہیں بن سکتا اور انڈیا اور سویڈن میں بہت فرق ہے عوام اور خواندگی کے فرق کے علاوہ ہمارے یہاں کیش لیس اکونومی ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اسے مکمل ہونے میں کم از کم پچاس سال تو لگ ہی جائیں گے ۔لیکن صاحب یہ بات بھی ہم میں گردش کر رہی ہے کہ یہ کیش لیس اکونومی بھی دراصل مسلمانوں کا شکار کر نے کے لئے ہی کی استوار کی جارہی ہے تاکہ مسلمانوں کی نگرانی کی جا سکے ۔ ٹھیک ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ اصل بات یہی ہے تو بھی اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں کیونکہ اول تو انڈیا میں ہماری پوری قوم میں دھنا سیٹھوں بلیک مارکیٹنگ کر نے والوں اور ٹیکس چوری کر نے والوں کی تعداد کم ہے اور جو کچھ بھی بڑے لین دین خاص طور سے گاڑی ،گھر یا زمین کے ہم کرتے ہیں وہ سب رجسٹرڈ ہی کرتے ہیںیعنی وہ کوئی سی بھی رقم سے ہو آپ سے آپ حکومت کے علم میں آجاتے ہیں ،پھر ہمیں مانیٹرنگ کا خوف کیوں ہو؟ہاں کیش لیس اکونومی سے ایک بات ہوگی کہ قول و فعل کا تضاد چھپا یا نہ جا سکے گا یعنی اسٹیمپ ڈیوٹی یا ٹیکس بچانے کے لئے قیمت خرید کم بتا نا وغیرہ۔اور سب سے اہم تو یہ اگر کیش لیس اکونومی سے ہماری کمائی اور خرچ کی نگرانی ہوتی بھی ہے توکیا پرابلم ہے؟ مانیٹرنگ کا خوف ان لوگوں کو ہو جو غیر قانونی کام کرتے ہیں،حکومت اور ملک کے خلاف کوئی خفیہ سازش کرتے ہیں۔ہم مسلمان تو ایسا کچھ نہیں کرتے ،نہ ہم کوئی غیر قانونی کام کر رہے ہیں نہ ملک و حکومت کے خلاف کوئی سازش یا خفیہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو ہمیں مانیٹرنگ کا خوف کیوں ہو؟ہمیں صرف اللہ کی مانیٹرنگ سے ڈرنا چاہئے جو ہر طرح کی اکونومی میں برابر جاری رہتی ہے ۔اگر ہم اللہ کی مانیٹرنگ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزاریں گے تو ہمیں بندوں اور خاص طور سے اللہ کے دشمنوں کی مانیٹرنگ سے ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔رہی بات صہیونیت کے مسیح دجال کی،تو دنیاوی یا مادی طاقت اور ترقی یافتہ ملیٹری سے ان کا مقابلہ ممکن نہیں ہے اسکے مقابلے کے لئے ہمیں حقیقی طور پر مومن ہونا پڑیگا ،اگر ہم حقیقی مومن نہ ہوں اور دنیا بھر کی ترقی حاصل کرلیں تو بھی ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ نوٹ بندی کے اس سارے معاملہ کا نشانہ اگر مسلمان ہیں تو اس طرح کہ مسلمان اسے اپنے خلاف اقدام کہہ کر شور مچائیں اور اس سے دیش کی اکثریت ہندو مسلم کی تفریق اور نفرت کی بنا پر مودی جی کے اس فیصلے کی حمایت میں کھڑی ہوجائے ۔اس فیصلے سے ہونے والی تکالیف برداشت کر نے کو دیش بھکتی کہنا ، ان تکالیف کا موازنہ سرحد کی حفاظت کے لئے دن رات کھڑے رہنے والے فوجیوں سے کرنااور اس کی مخالفت کر نے والوں کو دیش دروہی کہہ دینے کااصل مقصد یہی ہے۔لیکن حکومت کے اس فیصلے سے پوری جنتا پریشان ہے او رعوامی سطح پر اس فیصلے کے ٖخلاف ناراضگی بھی جتائی جارہی ہے اور اسے روکنے کے لئے یا اسے اپنے حق میں موڑنے کے لئے سرکار چاہے گی کہ اس معاملہ بھی سیاسی رنگ آ جائے ،ایسے میں ہمارا کام عوام کو ہونے والی تکالیف کو ہائی لائٹ کرنا ،اس فیصلے کے نقائص اجاگر کرنا ،بڑے سرمایہ داروں کے اقراض کی معافی کے حکومتی فیصلے کے ضمن میں اس کی دورخی پالسی کو عوام کے سامنے پیش کرنا اور بیرونی ممالک میں کالا دھن جمع کرنے والوں اور پناما لیکس میں شامل ہمارے شہریوں کے متعلق سرکاری خاموشی کو عوام تک پہنچانا ہے لیکن اگر ہم اپنا الگ نعرہ لگائیں گے تو اس معاملہ میں سیاست کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم تفریق اور منافرت بھی آجائے گی جو دیش کی اکثریت کو اس فیصلے سے ہونے والی تکالیف اور کالے دھن کے خلاف سرکار کی دو رخی پالسی اور بڑے سرمایہ داروں کو دی جانے والی چھوٹ کے باوجود مودی جی کے ساتھ کھڑا کردے گی ۔

Facebook Comments

جارڈن روڈس
اردو کا ایک ادنی ٰطالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply