اقبالؔ اور تصوف۔۔اشرف لون

اقبالؔ نہ صرف ایک بڑے شاعر ہیں بلکہ ایک بڑے دانشور بھی ہیں۔ان کا مطالعہ وسیع ہے۔مغربی اور مشرقی علوم پر ان کی گہری نظر ہے اور بقول ڈاکٹر شکیل الرحمٰن ،وہ اُردو کے سب سے پڑھے لکھے شاعر ہیں۔اقبال اپنے ابتدائی دور میں تصوف کے وحدت الوجود نظریہ سے متاثر تھے لیکن اسے کے باوجود وہ کبھی بھی ذوق ِ علم و عمل سے پیچھے نہیں ہٹے۔انہوں نے ہمیشہ خودی اور عمل کی تعلیم دی۔ محترم اُستاد اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر بشیر احمد نحوی کے مطابق علامہ اقبال کے یہاں کہیں وحدت الوجود کا انتہائی نظریہ نہیں ملتا۔اُن کے کلام میں اگر کہیں کہیں وحدت الوجودی رنگ نظر آتا ہے تو اس میں ایک اعتدال ہے اور یہ توحید خالص یا وحدت ِ شہودی کے منافی نہیں بلکہ موافق ہے۔ اقبال ؔ کی نظم ”جگنو“ میں،جو فنی اور فکری دونوں سطحوں پر ایک کامیاب نظم ہے،ہم ا س رنگ کی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں۔نظم کے چند اختتامی اشعار ملاحظہ ہوں :
؎ حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچہ میں وہ چٹک ہے
؎کثرت میں ہوگیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
؎ یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہے
ہر شئی میں جبکہ پنہاں خامشئی ازل ہو

ان اشعار میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ علامہ نے کثرت کو وحدت کے سانچے میں ڈھال کر سمجھانے کی کوشش کی ہے۔اور یہ وحدت الوجود کا ہی ایک پہلو ہے۔ یہاں پر صرف چند اشعار پر اکتفا کیا جاتا ہے ورنہ اقبالؔ نے ایسے متعدد اشعار کہے ہیں جن میں وہ وحدت الوجود کے نظریے کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
1908  میں یورپ سے لوٹنے کے بعد اقبال ؔ نے وحدت الوجود کی مخالفت کی۔مثنوی ’اسرار خودی‘ کے دیباچے میں فرماتے ہیں:
”مشرق کی فلسفی مزاج قومیں زیادہ تر اس نتیجے کی طرف مائل ہوئیں کہ انسانی اَنا محض ایک فریب تخیل ہے اور اس پھندے کو گلے سے اُتار دینے کا نام نجات ہے۔

“ مختصر یہ کہ ہندو حکماء  نے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں  دماغ کواپنا مخاطب کیا مگر ایرانی شعراء  نے اس مسئلے کی تفسیرمیں زیادہ خطرناک طریق اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنی  آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہو ا کہ اس مسئلے نے عوام تک پہنچ کر قریباً تمام اسلامی اقدام کو ذوقِ  عمل سے محروم کر دیا۔“

اقبالؔ کا مطالعہ برابر جاری تھا اور اس بات میں کوئی شک نہیں ،بڑا ذہن ہمیشہ نئے علوم کی جستجو میں رہتا اور اقبالؔ بھی اسی کشمکش میں مبتلا تھے اور جب ان پر عجمی تصوف یا وحدت الوجود کی بے عملی کا راز افشا ہوا تو وہ اس کے خلاف ہوئے ،حالانکہ ان کے دل میں ہمیشہ شیخ ابن عربی کے لیے عزت تھی لیکن انہوں نے ان کے نظریہ ء  تصوف کو رَد کیا۔خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ”میں شیخ(محی الدین ابن عربی) کی عظمت اور فضیلت دونوں کا قائل ہوں اور ان کو اسلام کے بڑے حکما میں سے سمجھتا ہوں۔۔ مگر ان کے عقائد کا پیروں نہیں ہوں۔“ دراصل اقبالؔ عمل اور خودی کے علمبرار ہیں۔ان کو مشرق کی غلامی اور بے عملی کی وجوہات نظریہ وحدت الوجود میں نظر آئیں۔ یہیں سے اقبال ؔ کی فکر میں ایک انقلاب آتا ہے اور وہ قوم کوذوق ِ عمل اور خودی کی تعلیم دیتے ہیں۔اس سلسلے میں اقبال شیخ مجدد الف ثانی کے نظریہ وحدت الشہودسے بہت متاثر ہوئے اور انہیں اپنا مرشد بنایا۔ اقبالؔ کے نزدیک کائنات کی ہر شئے فنا پذیر ہے۔بس رہنے والی وہی ذات باری تعالیٰ ہے جو سب سے یکتا ہے اور جس کے تصرف میں سب چیزیں ہیں۔
؎ ہے مگر اس نقش میں رنگ ِ ثبات دوام
جس کو کیا ہے کسی مرد خدا نے تمام

اقبالؔ کے نزدیک کائنات مسلسل ارتقا پذیر ہے اور اس کا سفر جاری و ساری ہے یعنی اس میں ہمیشہ حرکت رہتی ہے۔اور اقبال کو اس سے ذہنی مناسبت ہے کہ وہ حرکت و عمل کے داعی ہیں اور اِس کو قوموں کی تقدیر بنانے میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔’اقبال نے قوم کو بیداری کا پیغام دیا۔خودی اور خود داری کا سبق دیا۔غلامی کی زنجیریں اور رہبانیت کا ستون توڑا،علم و عمل کی طرف مائل کیا۔اقبال بذات ِ خود تصوف پسند تھے لیکن تصوف میں غیر اسلامی عناصر کی شمولیت کے نکتہ چیں تھے۔
؎ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
؎ کام ا پنا صبح و شام چلنا
چلنا چلنا مدام چلنا

اقبال ؔ خانقاہی تصوف کے خلاف ہیں۔وہ ایسے تصوف کے خلاف ہیں جو بے عملی اور رہبانیت کی تعلیم دیتا ہے۔اسی طرح اقبال ؔ ایسی پیری مریدی کے بھی خلاف ہیں جو محض دکانداری، تجارت اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ ہو۔ اقبال ؔ کے نزدیک تصوف کی وہی شکل قابل قبول اور قابل تحسین ہے جو توحید پر ایمان رکھے،نبوتؐ کی تقلید کرے اور جس سے عشق الٰہی کا جوش پیدا ہوا اور جو انسان کو صاحب اختیار رکھے۔ اقبال کے یہاں جدوجہد، حرکت اور عمل پر زور ہے:
؎ کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیر ی بے نیازی کا
؎سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

اقبال ؔ فقر اور بے نیازی کے قائل ہیں۔کبھی کبھی وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ وہ بھی ایک درویش ہی ہیں۔اقبالؔ معرفت نفس کے داعی ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ نفس کی پاکیزگی اور طہارت ہی ایک انسان کو مومن بناتی  ہے اور دنیا کی  عیش و عشرت سے بے نیاز کرتا ہے۔بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی:

”اقبال نے تصوف کے روایتی نظریات میں عمل کی بجلیاں بھریں،احساس خودی کو بیدار کیا،گوشہ نشینی اور عزلت گزینی کی مذمت کی۔فقر اقبالؔ کے یہاں زندگی کی معراج ہے۔لیکن اس فقر کا گوشہ نشینی سے کوئی تعلق نہیں۔عمل کے جذبے کو بیدار کر کے اقبالؔ نے تصوف کا ایک نیا تصور پیش کیا جس میں تصوف کے بنیادی نظریات کی نفی نہیں ہوتی۔“

اقبال ؔ کے کلام میں جابجا یہ افکار و خیالات بیان ہوئے ہیں۔اُن کو ہمیشہ ایسے مرد مومن کی تلاش تھی جو یقین محکم اور عمل پیہم کا علمبردار ہو۔جس کے اندر ایمان کی حرارت ہو اور جو سوئی ہوئی مسلمان قوم کے اندر ایک نئی اور تازہ روح پھونک سکے۔اقبالؔ تصوف کے اِ سی نظریہ کے قائل ہیں۔وہ بے عملی کو موت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس بے عملی کے خلاف انہوں نے اپنے شاعری اور دیگر نثری تحریرات سے جہاد کیا:
؎ یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
؎ یہ ذکر نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سرور تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں

رسمی تصوف میں یہ سب چیزیں نہیں بلکہ اس میں اجتماعی زندگی اور اسلامی زندگی سے گریز کی تعلیم ملتی ہے۔نیز اس کی تعلیمات سے قوم اخلاقی زوال سے دوچار ہوئی جو بعد میں ان کے سیاسی زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اسی لیے اقبالؔ اس تصوف سے بیزار بلکہ اس کے خلاف ہیں۔اقبال کے نزدیک صحیح تصوف خودی اور درویشانہ صفت سے مزیّن ہے اور ایک مسلمان اسی سے قوت عمل اور اسرار حیات پاتا ہے اور یہی چیزیں اسے مرد مومن بناتی ہیں:
؎ قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ

اقبال ؔ اس توحید کے قائل ہیں جس کی اساس کلی طو ر پر اسلامی ہو او ر جو زندگی کو بامقصد بنائے اور اُسے ایک صحیح رُخ دے۔ اقبالؔ خانقاہی نظام کو قوم کے لیے مضر سمجھتے ہیں۔انہوں نے بارہا اس نظام کی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا:
؎ رہا نہ حلقہئ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہئ ہائے کرامات رہ گئے باقی
؎ مدعا تیرا اگر دنیا میں تعلیم دین
ترک ِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں

Advertisements
julia rana solicitors

علامہ اقبالؔ کا مطالعہ وسیع تھا۔انہوں نے مختلف علوم کا مطالعہ کیا تھا۔مشرقی اور مغربی علوم پر اُن کی گہری نظر تھی۔انہوں نے مختلف نظام ہائے زندگی اور علوم میں جن چیزوں کو قوم کے لیے اچھا سمجھا ان کو بلاجھجک قبول کیا اور جو چیزیں اُ ن کو قوم کے لیے مضر لگیں چاہے اُن کا سرچشمہ کچھ بھی ہو،وہ اس کے خلاف ہوئے اور اُن کی مذمت کی۔اقبالؔ نے خانقاہی مزاج و تصوف کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا لیکن بنیادی طور پر وہ عمر بھر ایسے تصوف کے قائل رہے اور ہمیشہ اُس کی تعلیم دیتے رہے جس کے اندر حرکت و حرارت،جدوجہد عمل اورقوت تھی اور جس سے قوم کے اندر خودی اور تقویٰ پیدا ہو:
؎ اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری
میراث ِ مسلمانی، سرمایہ ء  شبیری

Facebook Comments

اشرف لون
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی،انڈیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply