ملک میں تیل نکلے گا!عوام کا؟ ۔۔۔۔محمد وقار اسلم

مجھے نہیں معلوم کہ  اہل استنباط کیا رائے استوار کریں گے مجھے ناامیدی  پھیلانے والا ایجنٹ کہیں گے یا موردالزام ٹھہرائیں گے کہ میں نے ان کے نزدیک حقائق کو مندمل کرنے کی گردان کی ہے۔پاکستاں میں آنشور ڈرلنگ کا آغاز 1950 میں ہواجس کے بعد 1960 میں دنیا بھر کے لیے جنیوا کنونشن میں آف شور ڈرلنگ کی اجازت دی گئی پاکستان کی پہلی حکومت پر سوئی میں آنشور ڈرلنگ میں کرپشن  منکشف ہوئی تھی۔
1963 ء میں سن آ ئل کمپنی نے سب سے پہلے پاکستان میں ڈرلنگ کا آغاز کیا جسے ڈیپ سی میں 2 کنویں خشک ملے اور پاکستان میں اب تک کل 17 کنووں میں ڈرلنگ کی گئی۔ جرمنی ونٹر شال نے الٹرا ڈیپ سی میں ڈرلنگ کی جہاں سے  کچھ بھی  دریافت نہ ہو سکا۔ ونٹر شال نے دو کنویں 1972 میں جبکہ تیسرے کو 1975 میں کیا۔اس کے بعد 1976 میں امریکی میراتھون آئل کمپنی نے بھی کوشش کی مگر کچھ نہ ملا۔ اس کے بعد husky کینیڈین آئل کمپنی نے 1978 میں ڈرلنگ کی مگر کچھ نہ ملا۔سات سال بعد اوجی ڈی سی ایل نے بھی قسمت آزمائی مگر کچھ نہ مل پایا۔پھر 1989 میں Occidental کمپنی نے سوراغ لگا لیا لیکن اسے وہاں سے کچھ نہ حاصل ہو سکا اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ خشک ہو چکا تھا۔
1992 میں نیوزی لینڈ کی canterbury اور پھر امریکہ کی ocean کمپنی نے 2000-1999 میں دو کنویں کھودے مگر یہ بھی خشک۔ اس کے بعد فرانسیسی کمپنی نے بھی ایک کنویں پر کھدائی کی لیکن اسے چھوڑ دیا۔ پاکستان پٹرولیم نے یہ کوشش 2005 میں کی اور نیدر لینڈ کی کمپنی shell نے 2007 میں لیکن کچھ حاصل نہ ہو سکا
ایک کمپنی shark 1 نے بھی 2010 میں یہ جسارت کی مگر سب بے سود رہا۔ یورپی کمپنیز جیسے کہ petronas وغیرہ برٹش پٹرولیم،او ایم وی، کو بھی بہت سے مسائل درپیش رہے جس پر وہ ملک چھوڑ گئیں
ان کمپنیز کو ملٹری آپریشنز اور لاء اینڈ  آرڈرکی ابتر صورتحال کی وجہ سے پاکستان چھوڑنا پڑا۔ کروڈ آئل کی قیمت ملٹی نیشنل لیول پر بہت نیچے آگئی ہے جو کہ 170 ڈالر ایک بیرل سے 40 ڈالر ایک بیرل ایک روز ہوگئی جس کی وجہ سے پاکستان پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے۔
اس وقت کے شاہد خاقان وفاقی وزیر پیٹرولیم نے بتایا کہ ملک میں قدرتی وسائل کی تلاش کے لیے یہ مطالعہ جنوری 2014 میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے شروع کیا گیا جو رواں ماہ مکمل ہوا اور اس میں تیل و گیس کے مذکورہ ذخائر کی تصدیق ہوئی۔تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیوں نے ہائیڈروکاربنز کے جو ذخائر دریافت کیے ہیں ان میں 6 کنویں شامل ہیں جن سے مجموعی طور پر 50.1 ملین کیوبک فٹ گیس اور 2,359 بیرل تیل روزانہ حاصل ہوگا۔
ذخائر کی اکثریت سندھ میں دریافت ہوئی ہے جو ہائیڈروکاربنز کی دریافتوں میں پہلے ہی سب سے نمایاں صوبہ ہے۔ 4 ذخائر صوبہ سندھ اور 2 صوبہ خیبر پختونخوا میں دریافت ہوئے ہیں اور دریافت کی رو سے خیبرپختونخوا سے 31.6 ملین کیوبک فٹ گیس اور 339 بیرل روزانہ تیل نکالا جائے گا جب کہ سندھ سے 2,020 بیرل تیل روزانہ اور 18.5 ملین کیوبک فٹ گیس ملے گی۔
نتائج مرتب کرنے کے لئے ایک ہزار 611 کنوؤں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا اور ایک ہزار 312 کنوؤں کی کھدائی عمل میں لائی گئی اور یہ مطالعہ وسطی اور زیریں سندھ طاس میں کیا گیا۔
2018 نومبر میں ایکزون نے تین دہائیوں بعد مجموعی حیثیت میں پاکستان کا رخ کیا اور ایگریمنٹ طے پایا کہ جو ذخائر نکلیں گے ان کا 25 شئیر ایکزون رکھے گی اس ڈرلنگ کی سربراہی ای این آ ئی کے ذمے آئی جو کہ چین کی دست راس کمپنی ہے۔یہ ڈرلنگ کا بزنس بہت پیچیدہ ہے پوری دنیا میں کمپنیز اپنا پیسہ ایک طرح سے رسک پر لگا رہی ہوتی ہیں اگر انہیں اتنی کھدائی کے بعد کچھ نہیں ملتا یا اندیشہ ملتا ہے کہ خشک ہے تو وہ اور توانائی اور ریسورس خرچ نہیں کرتے۔
اطالوی کمپنی ENI اپریل 2019 کے آخر میں نمونہ جات اٹلی کے شہر Milan بھجوائے گی۔ واضح رہے کہ یہ ڈرلنگ 4800 میٹرز تک مکمل کرلی گئی ہے جبکہ حقائق معلوم کرنے کے لیے اسے 5500 کلو میٹر تک ڈرلنگ مکمل کرنی ہوگی کہ یہاں ذخائر موجود ہیں یا یہ بھی خشک ہو چکے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ اصل فرنٹ فٹ پر ای این آئی کام کر رہی ہے جبکہ ایکزون و دیگر کا  آفشور جوائنٹ venture ہے

Advertisements
julia rana solicitors

ایکزون موبل. جون ڈی راکفیلر کی کمپنی ہےجان ڈی راکفیلر صاحب کی سٹینڈرڈ آئل کمپنی کے دو حصے 1999 میں نیوجرسی والے حصہ کو ایکزون اور نیو یارک والے حصہ کو موبل کے نام سے جانا جاتا تھا انہیں ملا کر ایکزون موبل پرائمری برانڈ بنا دیا گیا۔ ای این آئی Sapiem 12000 کی ڈرلنگ خدمات لے رہی ہے اور اچھنبے کی بات یہ ہے کہ اہم شراکت داری کرنے والی ایکزون کے ارتضیٰ سید بھی پیشرفت سے لاعلم نظر آتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان سے بین ہونے والی ایکزون کس کھو کھاتے میں پاکستان کے گہرے سمندروں پر اپنی من مانی کرتی پھری ہے۔اب وینزویلا کو بھی امریکہ سے تحفظات ہیں کہ وہ اس کا سارا تیل نکال کر قیمت ادا نہیں کرتا۔ چین میں بھی ENI باقاعدہ مہارت سے تیل کا بڑا ذخیرہ نکالنے کے لیے پرتول رہی ہے جس کی عمیق وجہ یہ ہے کہ چین کا بینک اس کمپنی کی سپانسرشپ وقتاً فوقتاً کرتا رہتاہے۔ اب جب دنیا کی بڑی طاقتوں کا مسئلہ تیل پائے جانے والے ملک کو اپنی مٹھی میں بند کرنا ہے تو وہیں وزیراعظم عمران خان نے قبل از وقت بڑی خوشخبری کا باضابطہ اعلان کرنے کے بعد عوام کو گھبرانے پر لگا دیا ہے اور مہنگائی پانچ سالوں کی بلند سطح کو چھو چکی ہے ان کا بیان باد نسیم کا جھونکا تو تب ثابت ہوتا اگر ان کے دعوے حقیقت کے قریب ہوتے۔
پاکستان کے لئے مئی 2018 میں ایگریمنٹ ہواتھا ان کے ساتھ اس سے پہلے ODGC اور PPL اور ایک اٹالین کمپنی ،کمپنی ENi آفشور ڈرلنگ میں 33%کے 3 پارٹنر تھے پھرExon mobil کی انٹری سے 25 %کے 4 پارٹنر ہوگئے
اور ابھی ابتدا ہی ہے فزیبیلٹی رپورٹ بنتی ،چانسز ہوتے تو کام سٹارٹ فارن کمپنیز بلاوجہ سردرد نہیں لیتی ہیں۔
اور گورنمنٹ کو ملکی مفاد کی خاطر ہر کام کا کریڈٹ خود لینے کی روش سے باز آناچاہیے اور پہلے عوام کے دکھ درد کی نبض پر ہاتھ رکھنے کی اپنی ترجیحات درست کرنے کی نگہداشت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply