ہاف چمچ۔۔۔۔گل نوخیز اختر

برداشت کرنے والوں میں شاعروں، فوک گلوکاروں اور پتے کے مریضوں کا کوئی ثانی نہیں۔میرا شمار موخر الذکر میں ہوتا ہے ۔ آج سے تین سال پہلے جب مجھے پہلی بار پتے کی تکلیف ہوئی تو پتا ہی نہ چل سکا کہ یہ درد ہے کس چیز کا؟ ہسپتال کی ایمرجنسی میں گئے، سریع الاثرپین کلر لگوایا اور دو تین گھنٹے بعد کھکھلاتے ہوئے گھر آگئے۔ ٹھیک ایک سال بعد دوبارہ یہی کام ہوا۔ اب کی بار ماتھا ٹھنکا۔ ڈاکٹر حفیظ صاحب سے مشورہ مانگا تو انہوں نے کچھ ٹیسٹ تجویز کیے۔ لیبارٹری جاکر ان کے حکم کی تعمیل کی تو پتا چلا کہ پتے میں پتھریاں ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب چونکہ دیرینہ دوست بھی ہیں لہذا تسلی دی کہ اگر پتے کی پتھریوں کو کچھ نہ کہا جائے تو یہ بھی کچھ نہیں کہتیں۔میں نے اسی دن سے پتے کی پتھریوں سے پردہ شروع کردیا۔یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحب معدے کے ڈاکٹر ہیں اورسمن آباد کے ’پٹھورے نہایت شوق سے تناول فرماتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے جو خاص نصیحت کی وہ یہ تھی کہ اب آپ نے درج ذیل اشیاء بالکل نہیں کھانی۔۔۔مثلاً نہاری، سری پائے، دیسی گھی، چھوٹا بڑا گوشت، مکھن وغیرہ۔ عرض کی ٗ حضور یہ چیزیں آج کے بعد منع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آج سے پہلے بھی میں نے کبھی ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ میری تو گنتی کی چند چیزیں ہیں ان سے باہر جاؤں تو مجھ سے کھانا ہی نہیں کھایا جاتا ۔ڈاکٹر صاحب نے میری پرہیز گاری کی تعریف اور میرے ذوق پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پوچھاکہ اگر آپ اتنا ہی پرہیزی کھانا کھاتے ہیں تو پھر پتھریاں کیسے بن گئیں؟ سوال بہت اچھا تھا۔ میں نے کچھ دیر سوچا، پھر گہری سانس لی۔ڈاکٹر صاحب اس بارے میں میرا ایک شعر ہے ، امید ہے پتھریاں بننے کی وجہ سمجھ آجائے گی، عرض کیاہے’کارِ عشق میں ہوئیں اتنی سنگ باریاں۔ آج تک بھی پتے سے پتھریاں نکلتی ہیں۔‘
ڈاکٹر صاحب کے مشورے سے میں نے ایک سال مزید پتھریوں کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔احتیاط اور بھی سخت کردی۔ اس کے باوجود میں کئی دفعہ صحت مند ہوتے ہوتے بچا۔یہ سال بھی پورا ہوا اور پچھلے ہوتے پھر چیخیں نکل گئیں۔اب کی بار تمام تر معائنے کے بعد طے پایا کہ آپریشن ناگزیر ہوچکا ہے اور اب پتے کو نکال باہر پھینکنا ہوگا۔ڈاکٹرز احباب سے معلومات لیں تو پتا چلا کہ آج کل پتا (گال بلیڈر)نکالنے کے لیے لیپروسکوپک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتاہے۔ یعنی مریض کا پورا سینہ چاک کرنے کی بجائے تین سوراخ کیے جاتے ہیں ۔ ایک سوراخ کے ذریعے کیمرہ اندر داخل کیا جاتاہے اور دیگر دوسوراخوں میں سے آلات کی مدد سے پتے کو کاٹ کر باہر نکال لیا جاتاہے۔ یہ سارا آپریشن وڈیو کے ذریعے ہوتاہے۔نہ چاہتے ہوئے بھی آپریشن کی حامی بھر لی۔قریبی دوست احباب کو سختی سے تاکید کردی کہ اس آپریشن کے بارے میں کوئی بھی خبر یا دُعائیہ سٹیٹس فیس بک پر اپ لوڈ نہ کیا جائے ۔ مجھے قارئین کو ہنسانے میں مزا آتاہے، انہیں اپنی پریشانیوں میں شامل کرنے سے نہیں۔احباب نے مختلف ذرائع سے خوشی کی خبر سنائی کہ آپریشن بہت آسان سا ہوتا ہے اور ڈیڑھ دن بعد ہی مریض گھر چلا جاتاہے ۔واقعی اچھا لگا ورنہ میرے جیسے بے ہنگم ترین مصروفیات والے بندے کے لیے تین چار دن ہسپتال رہنا ممکن نہیں۔بہرحال یہ آپریشن ہوچکا۔ مجھے ڈیڑھ دن بعد گھر آنا تھا لیکن آپریشن میں پرابلم کی وجہ سے آٹھ دن ہسپتال میں گذارنے پڑے
جس کی اذیت کا کوئی شمار نہیں۔حالانکہ مجھے اگر کسی نے یہ بتایا ہوتا کہ پتے کے آسان آپریشن بھی خطرناک بن سکتے ہیں تو میں ذہنی طور پر اس گڑبڑ کے لیے تیار ہوکر جاتا۔ ویسے بھی سابقہ تجربات کی بنا پر اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی جگہ اگر خطرے کا صرف پوائنٹ ون پرسنٹ چانس ہو تو یہ پوائنٹ ون پرسنٹ سیدھا میرے حصے میں آتاہے۔ہسپتال میں کئی کردار ملے جن میں دو کردار مجھے زیادہ مزیدار لگے۔
میرے سامنے والے کمرے میں ایک ٹوانہ صاحب زیرعلاج تھے۔ خاصے صحت مند تھے۔ شوگر، بلڈ پریشر اور’دیگر امراض چشم‘میں مبتلا تھے اورپرہیز سے زیادہ علاج کے قائل تھے۔ اپنے خاندان میں وہ سب سے زیادہ دولت مند تھے اور اسی وجہ سے خاندان کے غریب افراد پر ان کا شدید رعب بھی تھا۔ موصوف کا ایک پچاس سالہ غریب کزن شمسی بھی ان کی دیکھ بھال پر مامور تھا جسے وہ دن میں ڈیڑھ سو گالیوں سے نوازتے ۔ شمسی اکثر اُدھر سے تھک جاتا تو میرے پاس چائے پینے آجاتا۔شمسی ان پڑھ آدمی تھا اور لاہور سے باہر کی ایک بستی میں کرائے کے گھر میں رہتا تھا۔ انتہائی متوسط دماغ کا بندہ تھا جسے صرف دو جمع دو کا پتا تھا۔وہ ٹوانہ صاحب کی گالیاں سن کر بھی بے مزہ نہ ہوتا بلکہ یوں تاثر دیتا گویا ٹوانہ صاحب جیسے احمق بندے کی گالیوں کا کیا جواب دینا۔ایک دن میں نے ٹوانہ صاحب کے کمرے میں بار بار ڈاکٹروں کا آنا جانا دیکھا تو شمسی کو بلا کر پوچھا کہ کیا ماجراہے؟ شمسی نے بتایا کہ ٹوانہ صاحب سخت ترین قبض کا شکار ہوچکے ہیں اور کوئی دوائی اثر نہیں کر رہی۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر ز چلے گئے تو میں اٹھ کر ٹوانہ صاحب کی عیادت کو چلا آیا۔ ٹوانہ صاحب ادھ موئے ہوئے جارہے تھے۔ ان کے بیٹے نے بتایا کہ ڈاکٹر نے ایک امپورٹڈ میڈیسن لکھ کر دی ہے کہ ہے تو تیز لیکن اب یہی آخری حل ہے۔ اسی دوران بیٹے نے باپ سے لجاجت سے کہا’ابو جی میں ذرا گھر سے ہوآؤں؟کپڑے بدل کر آجاؤں گا‘۔ ٹوانہ صاحب نے نقاہت سے سرہلایا اور بولے’میرے پاس کون رہے گا؟‘۔ بیٹا جلدی سے بولا’شمسی انکل ہیں ناں۔۔۔ویسے بھی تھوڑی دیر تک باجی اور امی بھی آرہی ہیں‘۔ ٹوانہ صاحب نے نیم وا غضبناک آنکھوں سے شمسی کی طرف دیکھا او ر دوبارہ پلکیں موندلیں۔دوگھنٹے بعد نرس دوائی لے کر کمرے میں آئی تو ٹوانہ صاحب گہری نیند سوچکے تھے۔شمسی نے جلدی سے دوائی وصول کی اور نرس کو تسلی دی کہ میں خود ہی بھائی جان کو اٹھا کر دوائی پلا دیتا ہوں۔ نرس نے سرہلایا اور نسخے کی طرف اشارہ کرکے بولی، خوراک اوپر لکھی ہوئی ہے۔ شمسی صاحب نے سرہلایا اور نرس چلی گئی۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد میں اپنے روم سے وہیل چیئر پر نکل کر کاریڈور میں تازہ ہوا لینے نکلا تو دوسری طرف سے شمسی جلدی سے میری طرف لپکا۔ میں رک گیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ڈاکٹر کا نسخہ میرے سامنے کیا ، نسخے پر دوائی کی مقدار ایک بٹا دو (1/2 ) لکھی تھی۔ شمسی بولا’بھائی جان یہ کتنے چمچ بنتے ہیں؟‘۔ میں ہنس پڑا’کتنے نہیں، صرف آدھا چمچ لکھا ہے‘۔یہ سنتے ہی شمسی کی آنکھیں پھیلیں اور حلق سے سانس پھنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے معاملہ پوچھا تو کانپتی ہوئی آواز میں بولا’میں سمجھا ایک بڑا چمچ اور دو چھوٹے چمچ دینے ہیں‘۔شمسی کی بات سن کر میں چونک اٹھا۔ مستقبل کا سارا نقشہ میرے سامنے گھوم گیا۔ میں نے آہستہ سے شمسی کا ہاتھ دبایا’بھاگ شمسی بھاگ‘۔شمسی شائد اسی جملے کے انتظار میں تھا۔ اس نے ایک زقند بھری اور اگلے دروازے سے غائب ہوگیا۔میں نے اسی وقت ٹوانہ صاحب کے بیٹے کو کال کی اور بتایا کہ جہاں بھی ہو فوراً پہنچ جاؤ۔دیر نہ ہوجائے کہیں دیر نہ ہوجائے۔یہی اطلاع ہسپتال کی ایمرجنسی کو بھی دی اور اپنے اٹینڈنٹ لڑکے سے کہا کہ بیٹا جتنی جلدی ہوسکے میری وہیل چیئر کو ہسپتال کے اُس مقام پر لے جاؤ ’جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے‘۔ تاہم ہسپتال کے آخری کونے تک پہنچنے سے پہلے ہی اطلاع آگئی کہ ’بگ بینگ‘ ہوچکا ہے۔شمسی اس دوران نارووال والی بس پکڑ چکا تھا اور سیٹ پر 1/2 ہوا بیٹھا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ہاف چمچ۔۔۔۔گل نوخیز اختر

Leave a Reply