• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیاں اور دفتر خارجہ کا بیان۔

گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیاں اور دفتر خارجہ کا بیان۔

محترم قارئین گلگت بلتستان کا ریاست جموں کشمیر سے تعلق بھی عجیب ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی اتنا مضبوط ہے کہ اس تعلق کو ختم کرنے کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے۔ اس سے پہلے ہماری خواہشات کی  تکمیل کی اُمیدیں سنگین مسئلہ بن چُکی ہیں۔گلگت بلتستان کے عوام کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اس علاقے کے لوگوں نے مہاراجہ کشمیر کا الحاق بھارت کی وجہ سے یکم نومبر 1947 کو بغاوت کرکے مہاراجہ کی سلطنت سے آزادی حاصل کی ہے ۔لہذا اس علاقے کو کشمیر سےنتھی کرنے کے بجائے پاکستان کا صوبہ بنائیں۔ گلگت بلتستان میں صوبہ بناو تحریکوں کی ایک طویل تاریخ ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں جس طرح دنیا کی قومیں اپنی جداگانہ حیثیت اور علحیدگی کیلئے مختلف قسم کی تحریکیں چلاتی ہیں اُس سے بالکل مختلف گلگت بلتستان میں شاملیت کی تحریک چل رہی ہے جس میں اب نظر آرہا ہے کہ کچھ حد تک کمی آئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ کمی کیوں آئی؟ عوامی سطح پر اس حوالے سے یہی کہا جاتا ہے کہ اسکی بنیادی وجہ پاکستان کے سیاست دانو ں اور حکمرانوں کا گلگت بلتستان کے حوالے سے مسلسل متضاد بیانات نے یہاں کی  نئی نسل کو اپنی تاریخ پڑھنے پر مجبور کیا ۔اب لوگ سمجھ رہے ہیں  کہ جب تک مسئلہ کشمیر زندہ ہے گلگت بلتستان صوبے کا خواب ادھورا ہے۔ لہذا اس پر مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے متنازعہ حیثیت کے مطابق حقوق کا مطالبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

محترم قارئین مسئلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان  کے حوالے سے یہ ریاست پاکستان کا قومی بیانیہ ہے کہ یہ خطہ بھی دوسرے خطوں کی طرح اپنی آزادی کے باوجود متنازعہ ہے اور مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے گلگت بلتستان میں بھی دیگر اکائیوں کے ساتھ اقوام متحدہ کی موجودگی میں رائے شماری ہونا باقی ہے ۔لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان کو اُس بنیاد پر حقوق حاصل نہیں ہوئے اور سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی گلگت بلتستان کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ مثال کے طور پر گلگت بلتستان کی آزاد ی کے بعد کی صورت حال کا ذکر کئے بغیر اگر ہم اُس وقت کی صورت حال اور اس مسئلے کو اقوام متحدہ تک لے جانے کی ضرورت پیش آنے اور اقوام متحدہ میں یواین سی آئی پی کمیشن بننے پر بات کریں تو اُس کمیشن میں گلگت اور مظفر آباد میں لوکل اتھارٹی کے قیام کا حکم دینے کے باوجود گلگت بلتستان کے حوالے سےاُس حکم کی تعمیل نہ ہوئی۔ بلکہ معاہدہ کراچی میں اقوام متحدہ کی قراداد کی موجودگی کے باوجود وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی اور چند کشمیر ی قیادت نے ملکر گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر اس خطے کو وفاق کی جھولی میں ڈالنے تک کی تاریخ بھی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے جس پر اب جاکر لوگوں نے پوچھنا شروع کیا ہے۔ جب سے سوشل میڈیا  آیا ہے لوگ اسطرح کے ایشوز پر کھل کر برملا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ اُس سے پہلے گلگت بلتستان میں پرنٹ میڈیا ایک تو نہ ہونے کے برابر تھا  جب کچھ اخبارات نے کام شروع کیا تو اُنہوں نےاپنے مالی مفادات کیلئے صرف وقت کے حکمرانوں کی آشیرباد حاصل کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھا  اور گلگت بلتستان اور مسئلہ کشمیر کے درمیان موجود رشتے کے بارے میں کبھی عوام کو  آگاہ نہیں کیا۔

محترم قارئین میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز اسلام آباد میں ہفتہ وار میڈیا بریفینگ کے دوران صحافی کے سوال پردفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجکٹ رول موجودہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھارتی آئین کی  شق نمبر 370کو گلگت بلتستان کے معاملے سے مختلف قرار دے دیا۔یہاں اگر ہم آرٹیکل 370 کی مختصر تعریف کریں تو یہ بھارت کی آئین کی ایک خصوصی شق ہے جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی بھارت کے دیگر صوبوں سے جداگانہ اور متنازعہ حیثیت کو واضح کرتی ہے ۔جس کے تحت سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون بھی محفوظ ہے جسکو ختم کرنے کیلئے بھارتی حکومت سرتوڑ کوشش کر رہی  ہے لیکن کشمیری قیادت کی مسلسل مداخلت کی وجہ سے آج تک اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔ یہی سلسلہ آزاد کشمیر کا بھی ہے جو گلگت بلتستان کے ایک ضلع کے برابر رقبہ رکھتے ہیں لیکن مملکت پاکستان نے ایکٹ 74کے تحت آزاد کشمیر کو متنازعہ بنیاد پر الگ شناخت دی ہوئی ہے۔لیکن گلگت بلتستان جو ریاست جموں کشمیر کی سب سے بڑی اکائی ہے لیکن اس خطے کا قومی پہچان آج بھی مبہم ہے ۔حالانکہ اس خطے کو بھی اقوام متحدہ کے 13 اگست 1948 کی قراداد کے مطابق پہچان مل جانی چاہئے تھی  لیکن بدقسمتی سے آج بھی اس حوالے سے کوئی مثبت آثار نظر نہیں آتے۔ستم ظریفی ہے کہ گلگت بلتستان کی آزادی کو تسلیم نہ کرنے اور متنازعہ حیثیت کے باوجود بھٹودور حکومت میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا عمل شروع ہوا اور 1974 میں اُس وقت کے ڈی سی نے یہ فیصلہ کیا کہ جن بھی غیرریاستی باشندوں  نے گزشتہ پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کے اندر زمین خریدی ہوئی ہے وہ یہاں کا ڈومیسائل حاصل کرسکتےہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ آگے جاکر 1956 میں سکندر مرزا کے دور میں اُس وقت کے پولیٹیکل سردار جان محمد خان نے ایک سازش کے تحت اُس وقت کچھ مقامی لوگوں کو خریدے اور اس بہانے سے گلگت بلتستان میں سیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کی جس کے مطابق کہا گیا کہ باہر سے لوگ نہ آئے گا تو یہاں کاروبار کیسے ہوگا نظام زندگی کیسے چلے گا۔ یہی فارمولہ آج بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے نافذ ہیں۔ بدقسمتی سے اس وقت گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار اور ناتوڑ قانون کے نام پر عوامی املاک کو سرکاری زمین قرار دیکر مختلف سرکاری اداروں کے نام پر انتقال کرنے کا سلسلہ گزشتہ دہائیوں سے جاری ہے ۔ ماضی میں کئی ہزار کنال عوامی چراگاہوں کو بغیر کسی معاوضے کے مختلف سرکاری اداروں کے نام انتقال کیا ہے۔ دوسری طرف عوام کو اپنے زیر استعمال ایک کنال پشتی زمین بھی اپنے نام انتقال کرنے کا اختیار نہیں ۔کہا یہ جارہا ہے کہ گلگت بلتستان میں قانون انتقال 1984 سے معطل ہے اور اسمبلی جنکا اصل کام خطے کے مسائل کے حل کیلئے قانون سازی کرنا تھا لیکن آج تک یہ اہم عوامی مسئلہ قانون ساز اسمبلی کیلئے نان ایشو بنا ہوا ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں عوامی املاک پر بغیر معاوضے کے مسلسل سرکاری قبضے کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج پر لینڈ ریفارم کمیشن بنایا اور اُس کمیشن کی جانب سے کوئی فیصلہ آنے تک عوامی چراگاہوں پرقبضے کرنے کے سلسلے کوروک دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مختلف اضلاع میں زبردستی عوامی زمین ہتھیانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس سلسلے میں تازہ ترین واقعہ ضلع کھرمنگ میں پیش آیا جس کے مطابق ضلعی انتظامیہ عوامی کھیتوں پر بغیر کسی معاوضے کے سرکاری باغ بنانا چاہ رہا تھا مگر زمین مالکان کی جانب سے انکاری پر ایک دس افراد کو سمن جاری کرکے زمین کی ملکیت واضح کرنے کو کہا ہے کیونکہ ضلعی انتظامیہ کی اصطلاح کے مطابق یہ زمین خالصہ ہے اور خالصہ کا مطلب سرکاری زمین ہے۔ اس حوالے سے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے ضلع انتظامیہ کو تنبیہ تو کردیا ہے لیکن نہیں لگتا کہ متاثرین کو انصاف ملے گا۔ یوں اس وقت گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ نہ ہونے کی وجہ اس اس قسم کے ہزاروں کیسز ہیں اور عوام قانونی اور تاریخی حوالے سے لاعلمی کی وجہ سے اپنی زمینوں مسلسل ہاتھ دوھونا پڑھ رہا ہے۔

اب اگر دفتر خارجہ کا بیان آیا ہے تو یہ نہایت نیک شگون ہے اور عوام سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی مسلسل خلاف ورزیوں میں کون ملوث ہے؟ اور دفتر خارجہ کے ریاستی بیان سے ہٹ کر وہ کونسے ادارے اور لوگ ہیں جو گلگت بلتستان جیسے حساس ترین خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کرکے یہاں کے سادہ لوح عوام کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کر رہا ہے؟ یقینا دفتر خارجہ اس حوالے سے چھان بین کرنے کی ضررورت ہے کیونکہ سٹیٹ سبجیکٹ سابق ریاست جموں کشمیر کا قانون ہے جو آذاد کشمیر اور لداخ جو گلگت بلتستان کی اٹوٹ انگ ہیں، سمیت جموں کشمیر میں نافذ ہیں لیکن گلگت بلتستان بھی دفتر خارجہ کے مطابق مسلہ کشمیر سے منسلک ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہونے کے باوجود یہاں اس قانون کی سنگین خلاف ورزی لمحہ فکریہ ہے۔ اس حوالے سے گلگت بلتستان کی حکومت سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اُنہوں نے آج تک گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کے معاملے کو دفتر خارجہ سے کیوں چھپائے رکھا اور اس سلسلے میں وفاقی حکومتوں کو اگاہ کیوں نہیں کیا۔ یقینا یہ بات گلگت بلتستان حکومت کے حوالے سے بھی سوالیہ نشان ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی بیانئے پر عمل کیوں نہیں کر رہا

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہےاس وقت گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کا سوال زور پکڑ رہا ہے اس حوالے سے گزشتہ ماہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اس قانون کی خلاف ورزی روکنے کیلئے بل لانے کی کوشش کی جسے حکومت اور اتحادیوں نے کامیاب ہونے نہیں دیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی سمیت دیگر سیاسی مذہبی جماعتوں کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیوں کو روکیں اس سے یہاں کے عوامی حقوق کی استحصالی ہورہا ہے ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply