• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کا احتجاج ۔۔۔ حکومت کہاں ہے؟ آصف محمود

پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن کا احتجاج ۔۔۔ حکومت کہاں ہے؟ آصف محمود

پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن کے اساتذہ لاہور میں سڑک پر بیٹھے ہیں لیکن بیوروکریسی کو حیا آ رہی ہے نہ پنجاب حکومت کو کچھ احساس ہے ۔ نئے پاکستان میں شاید اب صرف ثانیہ نشتر کا ’احساس‘ ہے۔

اساتذہ عزت نفس کے معاملے میں حساس ہوتے ہیں اس لیے افسران کے ناجائز فیصلوں کو بھی برداشت کر جاتے ہیں ۔ یہ سڑکوں پر آئے ہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی نفسیاتی اذیت ہو گی جس نے انہیں اس پر مجبور کیا ہو گا ۔یہ تین مطالبات لے کر آئے ہیں ۔ کیا حادثاتی وزیر اعلی کی کابینہ سے لے کرمخمور اور متکبر بیوروکریسی تک کوئی ہے جو کسی ایک مطالبے کو بھی ناجائز قرار دے سکے؟

مطالبات کیا ہیں؟ یہ بھی جان لیجیے۔ یہ واردات شہباز شریف کے بابرکت دور میں ہوئی تھی ۔ ایک خفیہ نوٹی فیکیشن نکالا گیا اور لیکچررز کی تنخواہوں میں کھڑے کھڑے بیس پچیس ہزار کی کمی کر دی گئی ۔ محکمہ تعلیم کے ایک بڑے بیوروکریٹ نے تجویز دی کہ پہلے مرحلے میں اس نوٹی فیکیشن کو چھوٹے شہروں میں لاگو کرتے ہیں تا کہ یہ ایشو نہ بن جائے۔ چنانچہ عمران خان کے ضلع میانوالی سے اس کام کا آغاز ہوا۔

اس دوران کچھ لیکچرر ترقی پا کر اسسٹنٹ پروفیسرز بنے تو وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ملنے والی نئی تنخواہ لیکچرر کے طور پر اب تک لی گئی تنخواہ سے بیس پچیس ہزار کم ہے۔ پنجاب سپیڈ کے مالی معاملات کی یہ غالبا بے ہودہ ترین واردات تھی ۔ آپ ان کا بغض ، تعصب اور نفرت دیکھیے کہ اس واردات کا شکار صرف وہ لیکچرر ہوئے جو 2002 اور 2005میں یعنی مشرف دور میں بھرتی ہوئے تھے ۔ پنجاب سپیڈ نے مسلمہ اصول سے انحراف کرتے ہوئے ان اساتذہ کو پے پروٹیکشن سے محروم کر دیا ۔ اساتذہ کو جب اس واردات کا علم ہوا تو انہوں نے عدالت سے رجوع ہوا اور ہائی کورٹ نے اساتذہ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اس فیصلے کی کاپیاں لے کر اساتذہ جب بقایا جات لینے اکاؤنٹ آفس جاتے تو آگے سے انہیں ٹرخایا دیا جاتا۔ تنگ آ کر اب اساتذہ لاہور کی سڑکوں پر آن بیٹھے ہیں ۔

دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ سالوں سے جو اساتذہ کی پروموشن کے معاملات التواء کا شکار ہیں ان پر فیصلہ کیا جائے۔ عشروں کی نوکری کے باوجود اساتذہ اسی گریڈ میں رہتے ہیں لیکن احد چیمہ جیسے لوگوں کو ایسی پنجاب سپیڈ لگتی ہے وہ مختصر عرصے میں گریڈ بیس تک جا پہنچتے ہیں ۔ باقی تمام محکموں میں ترقی کے عمل کا ایک میکنزم ہے جس پر باقاعدہ عمل ہوتا ہے۔ لیکن اساتذہ عشروں تک دائرے کا سفر کرتے رہتے ہیں۔

تیسرامطالبہ پانچ درجاتی ترقی کے عمل کا حصول ہے ۔ یعنی اساتذہ کو گریڈ سترہ سے گریڈ اکیس تک ان کی اہلیت ، قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کے مطابق ترقی دی جائے ۔ یہ منصوبہ خود تحریک انصاف کی حکومت 2008 میں کے پی کے میں لاگو کر چکی ہے ۔ جب یہ منصوبہ کے پی کے میں لاگو کیا گیا تو عمران خان صاحب نے جی سکس والے دفتر میں ہمیں ایک طویل لیکچر دیا کہ اساتذہ کے لیے ترقی کے دروازے کھولے اور انہیں جائز مقام دیے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ سوال یہ ہے کہ جو کام کے پی کے میں جائز ہے وہ پنجاب میں ناجائز کیسے ہو گیا ؟ نیز یہ کہ پے پروٹیکشن اور پانچ درجاتی ترقی کا اصول اگر باقی اداروں میں لاگو ہے تو اساتذہ پر اس کا اطلاق کیوں نہیں ہو سکتا؟

معاملہ یہ ہے کہ ہم نے بیوروکریسی کو فرعون بنا رکھا ہے ۔ نا اہلی اور کرپشن اس کے سوا ہے ۔ ایک کمزور وزیر اعلی میں یہ صلاحیت ہی نہیں وہ اس بیوروکریسی کو قابو کر سکے۔ بیوروکریسی بھی سمجھتی ہے کہ پاکستان میں عمران خان کی نہ کوئی اولاد ہے نہ اس نے خاندان والوں سے بنا کر رکھی ہوئی ہے اس لیے اس کا تو کوئی سیاسی مستقبل نہیں ۔ بیوروکریسی ایک ایسے بادشاہ کی وفادار کیسے ہو سکتی ہے جس کا کوئی ولی عہد ہی سلطنت میں موجود نہ ہو اور وزراء کی وفاداریاں بھی کسی اور کے ساتھ ہوں؟ بیوروکریسی ان خاندانوں کی وفادار ہے جن کا مستقبل اسے روشن نظر آ رہا ہے ۔ کیا عجب عمران خان کے لیے دانستہ طور پر یہ بحران پیدا کیا گیا ہو۔

لاہور دھرنے پر آنے والے اساتذہ کو شوکاز جاری کر دیے گئے کہ کیوں نہ آپ کو ملازمت سے نکال دیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو احتجاج پہلے صرف لاہور میں ہو رہا تھا اب پورے پنجاب میں پھیل چکا ہے۔ یہ صرف مزاج کی رعونت ہے ورنہ بیوروکیٹ بابو اتنا تو جانتے ہی ہوں گے کہ اساتذہ کی سروس کمپلسری سروس نہیں ہے اور آئین پاکستان کا آرٹیکل سولہ اور انیس انہیں احتجاج کا حق دیتے ہیں ۔ جو حق آئین دیتا ہے وہ حق سیکرٹری تعلیم کیسے چھین سکتے ہیں ۔ وہ اگر خود کو آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں تو انہیں پہلی فرصت میں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

چند ماہ پہلے بیوروکریسی نے ایک مخبوط الحواس قسم کا نوٹی فیکیشن جاری کیا کہ جب تک اساتذہ کا کوئی خو نی رشتہ دار مر نہ جائے وہ رخصت اتفاقیہ نہیں لے سکتے۔ شور مچا تو نوٹیفیکیشن واپس لے کر نیا حکم نامہ جاری فرمایا گیا کہ ایک ماہ میں دو سے زیادہ چھٹیاں نہیں کی جا سکیں گی۔ سیکرٹری تعلیم کسی وقت تشریف لائیں میں اپنے منشی سے کہہ کر انہیں سمجھاؤں کہ رخصت اتفاقیہ کیا ہوتی ہے اور اس کے بارے قوانین کیا ہیں ۔ سال کی چوبیس رخصت اتفاقیہ اساتذہ کا قانونی حق ہے اور انہوں نے کس ماہ کتنی چھٹیاں لینی ہیں اس کا فیصلہ کوئی بانکا بابو نہیں کرے گا ہر استاد خود کرے گا ۔ سیکرٹری تعلیم کو معلوم ہونا چاہیے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایسی سہولیات جو ملازمت کی ’’ ٹرمز اینڈ کنڈیشنز ‘‘ میں آتی ہوں چھینی ہی نہیں جا سکتیں۔

نیب کسی روز تحقیقات کرے تو معلوم ہو محکمہ تعلیم کی بیوروکریسی پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے بھی تنخواہ لے رہی ہے یا نہیں ؟ ایسا تو نہیں جان بوجھ کر سرکاری اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہو؟ ان بیوروکریٹوں کی بھی ایک فہرست بننی چاہیے جو راولپنڈی اور جہلم کے کالجز کا دورہ فرمانے لاہور سے ہفتے کو نکلتے ہیں تا کہ فیملی کے ساتھ مری کا ٹرپ سرکاری پیسوں سے کیا جائے؟ آدھے سے زیادہ تعلیمی سال فلاں ’’ ایام‘‘ اور ’’ ویک‘‘ منانے میں گزروا دینا اتفاق ہے یا سرکاری اداروں کی تباہی کے لیے بیوروکریٹس کا ایک منصوبہ؟

پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی خواہش رکھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے ، سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا تھا : میں معلم بنا کر بھیجا گیا ۔ کیا زبردستی کے وسیم اکرم کو معلوم ہے معلم کیا ہوتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

.

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply