لا اکراہ فی الدین۔۔۔سلمان اسلم

وہ مرے بازو میں ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھ گیا، کچھ باتوں کے تبادلے کے بعد اس نے کہا میں نے نوٹ کیا ہے تمہاری سوچ اسلام کے متعلق متشد قسم کی ہے۔ میں نے کہا جناب اسلام میں احکام کے نفاذ کے حوالے سے زبردستی پائی جاتی ہے۔ تو وہ بولا اسی  رویے کی وجہ سے تو لوگ ہمیں متشدد (extremist) مسلمان کہتے ہیں ۔ یہ اسکا کوئی پہلی بار نہیں تھا بلکہ اک دوبار پہلے بھی وہ مجھے ایسے کہہ چکا تھا۔ اور صرف یہ ہی نہیں مرے اپنے گھر کے افراد میں سے بھی ایک بار اک فرد نے کچھ ایسے ہی الفاظ میں کہا تھا کہ اسلام میں اتنی سختی نہیں ہے۔ میں ان سوالوں و فتووں اور ان  قضیوں کے جواب میں فی الفور کوئی تسلی  بخش جواب تو نہ دے سکا سوائے اس ایک جملے کے کہ اللہ کے دین میں سختی ہے۔ یہ یقین اور تیقن شعور میں کہیں موجود تھا مگر قوت بیان کو اس سے ابھی آشنائی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور بڑھتے ہوئے آزاد خیال اور سہل پسند طبیعیت کے حامل ان اسلامی برادران سے ملاقاتوں کے احوال سے میری اس اضطرابی کیفیت  میں اضافہ ہوتا رہا۔ کچھ سوال مرے اندر سر اٹھاتے گئے جن کے جواب شریعت کے سائے تلےمستند اور قابل علم عالم کے توسط سے حاصل کرنا مرے لیے ناگزیر ہو گیا تھا۔
عہد حاضر میں امت کے اتنے سارے المیوں میں اک المیہ یہ بھی ہے  کہ ہر دوسرے شخص نے بشمول مرے قرآنی آیات کے کچھ حصے بمع ترجمہ کے ازبرکیے ہوتے ہیں اور پھر گونا گوں مکالموں میں قرآنی آیات کے ان یاد کردہ حصوں کے سطحی غیر مبہم معانی کو بطور دلیل پیش کرتے رہتے ہیں ۔ اور مرے جیسے کمزور ایمان کے متحمل اور ناقص العلم مسلمان اس بیانیے پہ بہ امر مجبوری  چپ سادھ لیتے ہیں کہ دلیل میں قرآنی آیات کا ازبر کیا ہوا حصہ پیش کیا جا چکا ہوتا ہے۔ جبکہ اہل علم و دانش ، علما و فقہاء کے علم کی روشنی میں جب ان آیات کا شان نزول اور تفسیر و تشریح دیکھی و پڑھی جائے تو معاملہ اکثر بہت بڑے فرق کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے۔ مری  اضطرابی کیفیت کو فروغ بھی اسی  قسم کے مکالموں میں پیش کیے جانے والے اور  ازبر کیے ہوئے قرآنی آیات کے کچھ حصوں کی دلالت کے مرہون منت رہی۔ بالآخر میں نے اپنے استاد محترم کے سامنے ان قضیات پہ اٹھنے والے سوالات پیش کیے ۔۔۔۔ وہ ذیل میں  آپکی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔۔۔

(الف) مولانا صاحب حدیث پاک میں آتا ہے کہ ۔۔۔
ابوسعید خدری ؓ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے روایت کرتے ہیں ، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ، اگر وہ طاقت نہ رکھے تو پھر اپنی زبان سے ، اگر وہ (اس کی بھی) استطاعت نہ رکھے تو پھر اپنے دل سے (بدلنے کے لیے منصوبہ بندی کرے اور اس سے نفرت رکھے) ، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ۔‘‘
رواہ مسلم ۔ (مشکاة المصابیح # 5137)
اس حدیث پاک کو سامنے رکھ کر سوال یہی بنتا ہے کہ “پھر دین میں سختی کیسے نہیں ہے کیا کسی برائی کو روکنے کے لیے نرمی ہر جگہ کار آمد ثابت آتی ہے ؟”
(ب) کیا کوئی اصول ، قانون ، قاعدے و ضابطے محبت سے بھی کبھی نافذ ہوئے ہیں ؟
(ج) کیا کسی چیز کا غلبہ کسی نظام کا غلبہ نرمی سے کبھی ممکن ہوا ہے ؟
(د) اگر نہیں تو پھر مذکورہ بالا آیت ( لا اکراہ فی الدین) کی صحیح تفسیر اور مفہوم کیا ہے ؟ فقط آیت کے ترجمہ  کے ضمن میں یہ کہہ دینا کہ “دین اسلام میں زبردستی نہیں ” کافی ہے؟

(ر) اور اگر اسلام میں سختی واقعی نہیں ہے تو پھر مذکورہ بالا احادیث پاک کے معنی کیا بنیں گے ؟ جہاد فی سبیل اللہ کی حکمت و حکم کیا ہوگی ؟ نماز کے متعلق سات سال تک بچے کو نصیحت اور دس سے اوپر ہونے پہ مارنے تک کے حکم کی حقیقت کیا ہوگی۔۔۔۔ ؟

(س) اور سب سے بڑا سوال کہ نفس بالذات سے لے کر گھر سے ہوتے ہوئے مملکت خداداد تک چکا چوند اس نظام ابلیسیت کو غالب آتے ہوئے اس لیے دیکھتے رہنا چاہیئے کہ اسلام میں زبردستی نہیں ہے،کے استدلال کی قطعی حیثیت کیا رہ جاتی ہے ؟

اپنے استاد محترم کا مختصر مگر جامع انداز سے دیے گئے جواب کو پیش کرتا ہوں تاکہ ہمارے ذہنوں میں اس بابت اٹھنے والے  اس تضاد کا آسانی سے قلع قمع کیا جا سکے ۔۔۔ فرماتے ہیں ۔۔

“لا اکراہ فی الدین” (سورہ بقرہ آیت 256)
مذکورہ بالا آیت قبول دین کے لیے ہے۔ جلالین شریف میں ہے کہ

لااکراہ فی (قبول) الدین
کہ دین قبول کرنے میں جبر نہیں ہے۔

ایک بار دین قبول کرلیا۔ تو پھر جبر تو نہیں مگر حدود و قواعد اور ضابطے لاحقے موجود ہیں۔ جیسے کہ کیڈٹ کالج کا حال دیکھ لیں۔

کیڈٹ کالج میں آپ کے بچے کا داخلہ
اس پر کسی قسم کا جبر آپ پر نہیں۔۔ آپ کی اپنی منشاء پر منحصر ہے۔ مگر جس دن بچے کا  ایڈمیشن ہوگیا۔ اس دن کے بعد کیڈٹ کالج کے اندر کے قوانین، سختیاں ، ترتیب، اور شیڈول پر عملدرآمد کرنے پر جبر بھی کرسکتے ہیں اور سختی بھی ۔
ایسی  بھی قرآن میں دسیوں آیات ہیں۔
جو بے نمازیوں یتیموں کا مال کھانے اور دیگر گناہ کرنے والوں پر سختی کرتا ہے۔
اگر “لااکراہ فی الدین” کا وہی معنی مراد لیں۔ تو پھر تو وہ سب، جہنم اور آزمائش یہ سب بھی جبر میں شمار ہوگا۔

اس آیت کریمہ کا درست مفہوم نہ سمجھنے کے سبب کئی مخلص مسلمان کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ عیار لوگوں نے انہیں بتایا ہوتا ہے کہ:

دیکھو! قرآن خود کہہ رہا ہے کہ دین میں کوئی  جبر نہیں لہذا جس کی جو مرضی ہو کرے۔ لوگ کون ہوتے ہیں کسی کو ٹوکنے والے؟

دراصل قرآن کے جس حصے میں یہ آیت واقع ہوئی ہے اور جس طرح یہ قرآن کے دیگر حصوں سے ربط و آہنگ (Connection & Coherence) رکھتی ہے اس سے   باآسانی اس کے مفہوم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ان شاء اللہ کسی دن پوری تکنیکی تفصیل بھی پیش کردوں گا لیکن فی الوقت مختصر بات یہ کہ اس آیت کا مفہوم درج ذیل بنتا ہے:

۱- اللہ تعالی نے انسان تک اسلام کی دعوت پہنچانے کا انتظام کیا اور اس کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

۲- انسان کو مکمل آزادی و اختیار عطا کیا کہ وہ اسلام کو بطور دین چن لے یا نہ چنے۔

۳- اگر انسان اسلام کو بطور دین چن لے تو پھر اس کے لئے لازمی قرار دیا کہ اسلام کی صورت جو اصول زندگی قرآن و سنت میں بتا دئیے گئے ہیں ان پر عمل لازمی و ضروری ہے۔

۴- جو ان اصولوں پر عمل کرے وہ محبوب’ جو نہ کرے وہ گناہگار و محروم ہے۔

۵- گناہگار و محروم کو تربیت کے  ذریعے درست راستے کی طرف لانے کا انتظام کیا اور جو تربیت سے بھی درست نہ ہو تو پھر اسکی اصلاح کے لئے مناسبِ حال سرزمین و سزا مقرر کی ۔

لہذا اس آیت میں لفظ “اکراہ” یعنی ( قبولیت پہ مجبور کرنا یا دباو ڈالنا Coerce to Acceptance) اپنے مفہوم کے لحاظ سے قبول اسلام سے قبل کی حالت کے لئے وارد ہوا ہے نہ کہ قبول اسلام کی بعد کی کیفیت کے لئے؟
قبول اسلام کے بعد تو اسلام مسلمان سے اپنے اصولوں کی پیروی کا دوٹوک مطالبہ (Demands to Obedience) کرتا ہے۔
اب  ذرا خود سے پوچھیں!
کسی ملک کی شہریت اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ انسان خود ہی کرتا ہےلیکن جب وہ کسی ریاست کا شہری بن جاتا ہے تو پھر کیا اسے ریاست کے آئین و قانون کی پابندی کرنا ہوتی ہے یا وہ اپنی من مانی یہ کہہ کر کر سکتا ہے کہ آئین و قانون میں کوئی  جبر نہیں؟؟؟

قارئین کرام ! اگر مذکورہ بالا آیت کے شان نزول کے متعلق بات کی جائے تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بس دو روایات پہ ہی اکتفا کرنا کافی سمجھوں گا۔
(1) مفسرین اس  آیت کے شان نزول میں اک روایت نقل کرتے ہیں کہ اسلام سے قبل جن عورتوں کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوتا تھا۔ تو وہ منت یا نذر مانتی تھیں کہ اگر ان کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو وہ انہیں یہودی بنادیں گی۔ لہذا اہل مدینہ کے کئی بچے یہودیوں کے پاس ہوا کرتے تھے۔ جب مدینہ طیبہ میں دین اسلام کا فروغ ہوا۔ اور یہودیوں کی خلاف ورزیوں اور اندرونی سازشوں سے نجات پانے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نضیر کے یہودیوں کو جلاوطن کرنے کا حکم فرمایا ، تو اس وقت انصار کے جو بچے یہودیوں کے پاس تھے وہ انہوں (انصار) نے طلب کر لیے۔ تاکہ انہیں مسلمان بنایا جاسکے۔ تو اس پر اِس آیت کریمہ کا نزول ہوا کہ ” جبر اور زبردستی نہ کرو۔”
(2) دوسری روایت میں آتا ہے کہ انصار کے قبیلے میں بنو سالم بن عوف کا اک شخص تھا۔ جس کے دو لڑکے نصرانی تھے جبکہ وہ خود (والد) مسلمان ہو گیا تھا۔ اس شخص نے نبی کریم علیہ الصلواة والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ  اسے اجازت دی جائے کہ وہ  ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بناسکے ۔ تو  اس پہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور جبراًمسلمان کرانے کی ممانعت کردی گئی۔

اس آیت کریمہ کے شان نزول اور معنی و مفہوم کے حوالے سے مفسرین نے اور بھی اقوال و روایات نقل فرمائے ہیں جو اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ کا معنی و مفہوم قبولیت اسلام کے مرحلے میں کوئی جبر نہیں ۔ لیکن اک بار جب کوئی ذی شعور النفس اسلام کو بطور دین اختیار کرلے / اپنا لے تو پھر اللہ کے متعین کردہ اصول و قواعد کی پابندی اور عمل کی سخت وعید ہے۔ دین میں آسانی ضرور ہے مگر من مانی نہیں ۔ اور عہد حاضر میں تعفن بھری یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور یہ جو دین میں جبر یا سختی کے قائل ہیں دراصل متشدد ذہنیت کے مسلمان ہیں اور یہی اسلام کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ یوں یہی آزاد لبرل اور خود پسند ناقدین دین کے اصل مفاہیم کو اپنی دانست و من مانیوں کی  بھینٹ چڑھا رہے ہیں ۔ پشتو کے اک عالم دین نے بڑی خوبصورت انداز میں ان من پسند اور سہل پسند مسلمانوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ حلوے جیسے میٹھےاور نرم خو سنن مبارکہ کے بڑے دلدادہ ہوتے ہیں اور جو سنت مبارکہ ان کی  نفسانی خواہشات پہ گران گزرتی ہیں ان سے مکمل طور پر پہلو تہی کرتے ہیں۔
یقین مانیں ایسے لوگ دین کے ہر حکم میں جو انکی طبیعت کو ناگوار گزرتی ہے اس پہ عقلی قضیات سے حیل وحجت بازی کرتے رہتے ہیں اور اصل احکام کو بدلنے کی سعی نامراد کر رہے ہوتے ہیں ۔
خدارا اس غفلت بھری سوچ و فکر سے نکل آئیں ورنہ ایسے نہ ہو اس حدیث پاک مصداق بنیں کہ ” صبح اٹھیں گے مسلمان ہونگے اور شام تک ایمان سے فارغ ہو چکے ہونگے اور یوں شام کو ایمان کی حالت میں ہونگے جبکہ صبح ایمان سے فارغ ہو چکے ہونگے (مفہوم) ۔ اسلام میں ہمارے لیے خود ساختہ عقلی من مانی کی گنجائش نہیں ہے دین کو رب کائنات نے مکمل و اکمل فرما  دیا ہے ۔ اور ہمارے اسلاف  آئمہ کرام نے فقہ کی صورت میں اسلام کو معنی خیز اور آسان فہم انداز میں نہایت ذمہ داری اور اجتہاد حق سے پیش کر دیا ہے ۔ خدارا اب اسی پہ تقلید رکھیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کریں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا ہمارے ایمانوں کو تقویت بخشے اور انکی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔ آمین ثم آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply