شکر ہے،شکر ہے۔۔۔آصف محمود

وہ مغلیہ دور حکومت تھا جسے ہم نصابوں میں پڑھتے آئے تھے ، یہ شغلیہ دور حکومت ہے جسے ہم حیرت اور صدمے سے پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔تو کیا یہ واقعتا ایک سونامی ہے جس نے ہنستے بستے شہروں کا رخ کر لیا ہے۔ وزرائے کرام کے ارشادات گرامی پڑھ کر پہلے غصہ آتا رہا پھر ہنسی، اب خوف آتا ہے۔حریفوں کے اختراع و تصرف کی عمران کو کیا حاجت، اس کے لیے تو اس کے خوش زباں وزراء ہی کافی ہیں، باغِ عالم میں ایسی بلبلیں کب کسی کے حصے میں آئی ہوں گی؟ ارشادِ تازہ ہے شکر کریں ہم نے پٹرول کی قیمت میں بارہ روپے اضافہ نہیں کر دیا۔ یہ گویا اعلان ِ عام ہے کہنئے پاکستان میں ایسی تبدیلی آئی ہے شکر کے مقامات بھی بدل گئے ہیں۔ شکر اب اس بات پر نہیں ہو گا کہ حکومت نے عوام کی فلاح اور بھلائی کا کوئی کام کیا اور عوام کی زندگی آسان ہو گئی۔ شکر اس بات پر ہو گا کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں آپ کا مکمل خانہ خراب نہیں ہوا بلکہ آپ کی قسمت اچھی تھی اور گھر میں کچھ باقی بچ گیا ہے۔ یعنی ابھی تک آپ کا صرف ستیاناس ہوا ہے اور نونہالان انقلاب کے بابرکت عہد میں آپ سوا ستیاناس سے بچے ہوئے ہیں تو لازم ہے آپ شکر کریں۔ ستیا ناس اور سوا ستیا ناس کے درمیان کی منزل اگر مقام شکر ہے تو پھر بہت سے شکر ہم پر واجب ہیں۔محض اس بات پر کیوں شکر کریں کہ حکومت نے پٹرول کی قیمت بارہ روپے نہیں بڑھائی؟ ہمیں اس پر بھی تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ حکومت نے یہ قیمت تیرہ روپے نہیں بڑھائی۔اور پھر تیرہ ہی کیوں ، حکومت چاہتی تو چودہ روپے بھی بڑھا سکتی تھی، گویا اس پر بھی شکر ادا کرنا چاہیے۔اس سے آگے گنتی گنتے جائیے اور شکر ادا کرتے جائیے ۔ حکومت اگر پرانے منصوبوں کا افتتاح فرما سکتی ہے تو وہ یہ بھی تو کہہ سکتی ہے اٹھائیس مئی کو ہم نیا ایٹمی دھماکہ کریں گے ، پچھلے دھماکے کی آواز نہیں آئی تھی۔وہ نیا پاکستان بنا سکتی ہے تو نیا مینار پاکستان بنانے سے اسے کون روک سکتا ہے؟وہ چاہتی تو نئی قرارداد پاکستان بھی لا سکتی تھی۔اس کے دست ہنر میں تھا وہ پرانا کیلنڈر منسوخ کر کے اس دن سے نیا کیلنڈر جاری کرتی جس دن عمران خان نے وزارت عظمی کا حلف اٹھایا تھا۔وہ بہت کچھ کر سکتی ہے۔ حکومت چاہتی تو پانی پر بھی ٹیکس عائد کر دیتی ،لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ،شکر ادا کیجیے۔حکومت معیشت کی بہتری کے لیے گھریلو استعمال کی بجلی پر بھی کمرشل ریٹ کا اطلاق کر سکتی ہے ، نہیں کیا ، شکر ادا کیجیے۔وزیر اطلاعات پنجاب اگر نرگس کو قومی اثاثہ قرار دے سکتے ہیں تو ابرار الحق کو شاعر مشرق قرار دینا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کام تھا ، نہیں بنایا ، شکر ادا کیجیے۔حکومت کہہ سکتی تھی کہ ٹکٹ کٹائو، نالے لین بنائو اور سچ سچ بتائو ہمارے با برکت عہد میںکس کس کا ’نچنے نون دل کردا‘ ہے اور جس نا ہنجار کا نچنے نوں دل نہ کرتا اس پر مبلغ دو ہزار روپے ٹیکس لگا دیتی، نہیں لگایا ، شکر ادا کیجیے۔حکومت ہوا ، دھوپ ، چھائوں پر بھی ٹیکس لگا سکتی تھی، اس نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا نہیںکیا ،شکر ادا کیجیے۔ وزرائے کرام کے رویے دیکھیے اور سر پیٹ لیجیے۔ بسنت کا معاملہ تھا، اعتراض اٹھا اس سے جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ ارشاد ہوا جانیں تو عید الاضحی پر بھی ضائع ہوتی ہیں کیا اس پر بھی پابندی لگا دیں۔معلوم انسانی تاریخ میں علم و فضل کا ایسا مظاہرہ چشم فلک نے کب دیکھا ہو گا۔ایم ڈی پی ٹی وی کا انتخاب حکومت نے کیا ۔ اب فواد چودھری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ ایم ڈی بہت غلط کام کر رہا ہے لیکن کیا کریں اس کے وزیر اعظم ہائوس میں بڑے تعلقات ہیں ، یہ ہر وقت وزیر اعظم ہائوس میں ہوتا ہے۔میرے جیسا عامی حیران ہے فواد چودھری کس پر الزام لگا رہے ہیں؟ کیا وزیر اعظم ہائوس کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کر رہا ہے؟ کوئی ہے جو ان کو بتائے نواز شریف اب وزیر اعظم ہائوس میں نہیں رہتے۔ نوازز شریف دور میں پٹرول مہنگا ہوتا تھا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوتی تھی ، اب مہنگا ہوا ہے تو ارشاد ہے اس کا ذمہ دار اوگرا ہے۔ گیس مہنگی ہو گی تو کہیں گے ذمہ دار او جی ڈی سی ایل ہے ، بجلی کے معاملات وپڈاکے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔حکومت کیا ہم نے صرف ٹویٹ کرنے کے لیے بنا ئی ہے؟ نواز دور میں عالمی منڈی میں قیمتوں کا عذر دیا جاتا تو اسد عمر فرماتے یہ ایک فضول جواز ہے ، اب وہی جواز پوری استقامت سے پیش کیا جا رہا ہے۔تب کیلکولیٹر لے کر کہا جاتا کہ عالمی منڈی میں ریٹ بڑھ گئے تو کیا ہوا حکومت ٹیکس کم کر دے ، اب کیلکولیٹر کے سیل ختم ہو چکے ہیں، سمندر سے تیل نکلے گا تو نئے سیل منگوا لیے جائیں گے۔نواز شریف دور میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ’’ انتہائی شرمناک ‘‘ حرکت قرار دی جاتی تھی اپنے ہاتھوں ہونے والے اضافے کو کوئی ’’بے شرم حرکت‘‘ بھی نہیں کہہ رہا؟ پچھلے دور حکومت میں ایمنسٹی سکیم غلط تھی ، بد نیتی پر مبنی تھی۔ ارشاد ہوا ہم آئیں گے تو اس سکیم کو ختم کر دیں گے۔ صرف اس ایک ارشاد گرامی نے اس سکیم کو عملا تباہ کر دیا اور سر مایہ دار یہ سوچ کر رک گیا کہ آج اثاثے شو کر کے ایمنسٹی لے لیں اور کل عمران خان آ کر یہ سکیم واپس لے لے تو ہم تو مارے جائیں گے۔ لیکن آج خود حکومت ملی تو ارشاد ہوا ہم ایک نئی ایمنسٹی سکیم لا رہے ہیں۔تو کیا صرف ایک شخص کی نفرت میں اس وقت اس سکیم کی مخالفت کی گئی؟ایسی حرکتوں کے بعد آدمی تھوڑا سا شرمندہ ہی ہو جاتا ہے۔ لیکن کوئی شرمندہ نہیں ہو رہا۔ ایسی استقامت پر شکر ادا کرنا تو بنتا ہے؟تصور کیجیے انہیں دو تہائی اکثریت ملی ہوتی تو کیا ہوتا ؟ افتخار سید نے پوچھا : تمہاری تبدیلی کیسی جا رہی ہے؟ مجھے استاد ذوق یاد آ گئے: ’’پہلے بتوں کے عشق میں ایمان پر بنی پھر ایسی آ بنی کہ میری جان پر بنی‘‘

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply