• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پیپلز پارٹی:انقلاب سے مفاہمت اور پھر زوال تک/کامریڈ فاروق بلوچ

پیپلز پارٹی:انقلاب سے مفاہمت اور پھر زوال تک/کامریڈ فاروق بلوچ

6 نومبر 1968ء کو پاکستان میں ایک انقلاب کا آغاز ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب طاقت ایوانوں سے نکل کر گلیوں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں آ گئی۔ طلبہ، مزدور، اور نوجوان اس تحریک کا ایندھن بنے، اور اسی عوامی بیداری کی گونج میں 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

پیپلز پارٹی کا منشور اپنے وقت کا انقلابی صحیفہ تھا۔ سامراج کے شکنجے سے آزادی، سرمایہ داری کا خاتمہ، اور ایک مساوی معاشرے کا قیام—یہ وہ وعدے تھے جنہوں نے پارٹی کو عوامی تحریک کا محور بنا دیا۔ منشور میں درج تھا:

> “سرمایہ دارانہ نظام استحصال کا منبع ہے، اور اس سے نجات صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔ تمام بڑی صنعتوں اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے گا۔ طبقات سے پاک معاشرہ ہمارا حتمی مقصد ہے۔”

یہ نعرے محنت کش عوام کی امنگیں بن گئے، اور اسی بنیاد پر پارٹی نے تین مرتبہ اقتدار حاصل کیا۔ لیکن آج، نصف صدی بعد، پیپلز پارٹی نہ صرف انقلابی نظریات سے منحرف ہو چکی ہے بلکہ خود ایک استحصالی نظام کا حصہ بن گئی ہے۔

انقلاب سے مفاہمت تک

پارٹی کے قیام کے چند ہی سال بعد قیادت نے ان نظریات سے منہ موڑ لیا جن پر یہ جماعت کھڑی کی گئی تھی۔ سوشلسٹ نعروں کی جگہ مفاہمت اور مصالحت نے لے لی۔ وہ جماعت جو عوامی امنگوں کی آواز تھی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی محافظ بن گئی۔ قومی تحویل کی پالیسیاں قصۂ پارینہ بن گئیں، اور عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنڈے پر عمل درآمد پارٹی کی شناخت بن گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہونے والا انحراف بینظیر بھٹو کے دور میں مزید گہرا ہوا۔ اور آج، بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی اپنی شناخت کو مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ وہ پارٹی جس نے سامراج سے آزادی کا نعرہ لگایا تھا، آج انہی طاقتوں کی چوکھٹ پر سر جھکائے کھڑی ہے۔

زوال کی انتہا

موجودہ دور میں پارٹی کی سیاست مفاہمت اور اقتدار کی ہوس تک محدود ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتے نے ثابت کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی اب ایک عوامی تحریک نہیں رہی بلکہ حکمران طبقات کا آلہ کار بن چکی ہے۔ وہ منشور جس میں مفاہمت کو “لوگوں کو جھوٹی امید دلا کر دھوکہ دینا” کہا گیا تھا، آج پارٹی کی پالیسی کا محور ہے۔

کیا واپسی ممکن ہے؟

یہ سوال آج ہر کارکن کے ذہن میں ہونا چاہیے: کیا پارٹی اپنے انقلابی منشور کی طرف واپس آ سکتی ہے؟ یا کیا یہ وہی راستہ اپنائے رکھے گی جو اسے تباہی کی طرف لے جا رہا ہے؟
یومِ تاسیس کے موقع پر پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ عوام کی امیدوں کا محور بننا چاہتی ہے یا تاریخ کے کچرا دان میں دفن ہونا چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے پاس آج بھی وقت ہے کہ وہ سرمایہ داری کے شکنجے سے نکل کر سوشلسٹ بنیادوں پر واپس آئے۔ لیکن اگر قیادت نے آنکھیں بند رکھیں، تو یہ جماعت ایک سبق بن کر رہ جائے گی کہ نظریات سے انحراف کا انجام ہمیشہ زوال ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس صرف ایک یاد دہانی نہیں بلکہ ایک تنبیہ ہے کہ انقلابی نظریات کے بغیر عوامی حمایت ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply