سوشل میڈیا اور بنیادی اخلاقیات….فرحین اختر

سوشل میڈیا یعنی سماجی روابط کی ویب سائٹس کا بنیادی کام وقت ، فاصلوں اور ثقافتی فرق کو ختم کرنے کا ہے۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں جہاں ہر ٹیکنالوجی ہر شخص کی دسترس میں ہے وہیں دوسری طرف اہم مسئلہ اس سے ہم آہنگ ہونے کا ہے ۔ اسی طرح ہمیں سوشل میڈیا تک رسائی تو مل گئی ہے پر اس کا استعمال سیکھنے اور اس سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمیں وقت درکار ہے ۔ ہمیں سب سے پہلے یہ بات سمجھنی ہو گی کہ سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہماری زندگی کے اعمال کو دو فرشتے لکھتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی ویب سائٹ پر آپ کی کی گئی ہر سر گرمی بھی اس سرور کا حصّہ بنتی رہتی ہے اور آپ کے چاہنے یا ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی وہ چیز مکمّل طور پر ختم نہیں ہوتی . اس لیے بنیادی اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ کچھ بھی اپلوڈ کرنے سے پہلے سوچا اور سمجھا جاۓ. کوئی ایسی بات یا چیز نہ شیئر کی جاۓ جو آگے چل کر شرمندگی کا سبب بنے .
فرانس میں والدین کو اس بات کا پابند بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بچپن کی ایسی تصاویر اپلوڈ نہ کریں جو آگے چل کر ان بچوں کے لیے شرمندگی کا سبب بنیں . دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا اپنی بات کہنے کا پلیٹ فارم ہے نہ کے دوسروں پر مسلط کرنے کا . اس لئے یہ ہمیں ہم مزاج لوگوں کو دوست بنانے کا موقع دیتا ہے . اختلاف کی صورت میں بلاک کرنے کا آپشن بھی موجود ہوتا ہے۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہر ایک کی ذاتی زندگی اور پرسنل سپیس کا خیال رکھا جائے. یاد رکھیے غیبت کی نئی قسم “ڈیجیٹل غیبت” ہے . بنا تحقیق کسی کے متعلق معلومات یا تصویر اور ویڈیوز شیئر کرنا ایک نہایت خطرناک عمل ہے . چند ماہ پہلے ایک پاکستانی ماڈل کی خودکشی کا سبب بھی ایسی ہی وجوہات تھیں .ٹوئیٹر پر چلنے والے ٹرینڈ ہوں یا فیس بک کی وائرل پوسٹس ہوں، جہاں یہ انسان کو پہچان دلواتی ہیں وہیں نقصان دہ نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں. احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی مہم کا حصّہ بننے سے پہلے تحقیق کر لی جاۓ.

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہمیں لوگوں سے داد پانے اور اہمیت حاصل کرنے کا ایک نیا ہتھیار بھی میسّر آ گیا ہے. جس کی بنا پر ہم صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک کی تفصیلات لوگوں کے ساتھ بانٹ رہے ہوتے ہیں. اپنے گھومنے پھرنے سے لے کر کھانے پینے اور شاپنگ کی تفصیلات تک، یہاں تک کہ میّت کے ساتھ لی جانے والی سلفیز تک لوگوں کو دکھانا نہیں بھولتے۔ یہ ساری چیزیں جہاں ہماری تسکین کا باعث بنتی ہیں وہیں کسی محروم طبقے کے ذہنی ہیجان اور انتشار کا سبب بھی بنتی ہیں. جو بالآخر لوگوں میں شدّت پسندی ، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کو جنم دیتا ہے.
خلاصہ یہ کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو زندگی کا حصّہ بنائیں ، زندگی کو اسکا حصّہ مت بنائیں . اس سے لطف اندوز ہوں ، علم بھی حاصل کریں پر اسکے استعمال کو محدود رکھیں اور احتیاط برتیں ۔ سوشل میڈیا جو سماجی طبقاتی تفریق کو واضح کر کے ڈپریشن کا سبب بن رہا ہے اس کے آگے بند باندھیں۔ اور بوریا بستر سمیت سوشل میڈیا پر بسیرا نہ کر لیں. خوشگوار یادوں کو فیس بک کی میموری میں بنانے کے بجاۓ اصل زندگی میں تشکیل دیں. زندگی کے اصل رنگوں سے بھی مستفید ہوں . اختلاف کو برداشت کریں اور سب کی عزت نفس کا خیال رکھیں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply