خاک نشین۔۔۔۔رمشا تبسم توقیر

مارچ میں مارچ ،بے ہودہ پلے کارڈ
ہمارے معاشرے کی ایک معصومیت یہ بھی ہے کہ   اس میں کوئی پیدائشی برائی نہیں۔ برائی کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کے اگر یہ پیدائشی  ہو تو  کسی حد تک وقت رہتے اسکا علاج ممکن ہے اسکو ختم  کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے مگر  بعد میں حادثاتی طور پر یا شوق سے برائی پیدا ہو تو یہ ایک مہلک  مرض کی طرح حملہ آور ہوتی ہے جسکا علاج بعض اوقات اس لئے بھی  ممکن  نہیں کیونکہ بیماریوں کی طرح یہ  برائی  کا بھی وقت رہتے علم  نہیں ہوتا۔
انسان گناہ یا تو ارادی طور پر کرتا ہے یا  حادثاتی طور پر ۔جو انسان ارادے سے  گناہ کرتا ہے کبھی نہ کبھی اسکو ندامت ہو ہی جاتی ہے اور جس سے گناہ حادثاتی طور پر غیر ارادی طریقے سے سرزد ہو وہاں بھی ممکن ہے کہ  وقت رہتے اصلاح کی کوشش کی جائے۔
مگر گناہ کو ایک گناہ نہ سمجھنا اور دوسرا ارادی طور پر کرنا سب سے مہلک  مرض ہے یہاں ہی معصوم معاشرے کا قصور ہے کہ اس کو پیدائشی برائی کے ساتھ جنم لینا چاہئے تھا تاکہ اسکا علاج ممکن ہو سکتا مگر جو برائی اب پیدا کی جا رہی ہے اسکو ایک تو ارادی طور پہ کیا جا رہا ہے پھر اسکو برا بھی نہیں سمجھا  جاتا ایسے میں اصلاح  کی کبھی کوشش نہ ہو گی؟ نہ ہی معاشرے کی معصومیت کو ان گناہ گاروں، گھٹیا، سستی سوچ و شہرت رکھنے والوں سے بچایا جا سکتا ہے۔
کراچی میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے  منعقد ہونے والی ایک تقریب میں انتہائی مجبور و بے بس مفلس و پریشان، گھٹن میں  زندگی گزارنے والی اسلامی تعلیمات کی قیدی اور معاشرے کی تنگ  نظر لوگوں سے تنگ اور گھبرائی ہوئی عورتوں نے بھرپور شرکت کی۔اس کمزور اور مجبور طبقے نے بے بسی کی وہ تصویر پیش کی کہ صاحبِ عقل ،صاحبِ علم کی آنکھوں سے  زارو قطار آنسو چھلک اٹھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک  انتہائی مظلوم بے بس لڑکی  جسکا جسم اس کے گلے سے خوب جھلک رہا تھا ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے کھڑی تھی جسکی عبارت تھی کہ “میں اکیلی آوارہ آزاد ” ان نگاہوں نے ایک ایسی ہی جینز میں ملبوس بے بس لڑکی دیکھی جسکے گلے میں دوپٹے کی جگہ کوئی پٹہ سا تھا پلے کارڈ کی عبارت تھی کہ “میں آوارہ میں بد چلن”
مفلسی اور بے بسی کا یہ بھی عالم تھا ایک بغیر ڈوپٹے کے انتہائی مجبور بہن لڑکوں کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھیں کہ “دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پہ باندھ لو”
ہر طرف ان بے بس و مجبور و لاچار خواتین کا رش تھا  ذرا  اور حوصلہ کر کے سنیے کہ اس بے بس طبقے میں ایک بہن انتہائی باریک لباس میں ملبوس  پرکشش  لگتی ہوئی کہہ رہی تھی کہ “اب ہماری باری ہے”
اس مظلوم طبقے کی ایک ساتھی تو یہ بھی کہتی پائی گئی کہ “نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں ”
مظلومیت کا عالم یہ بھی تھا کہ انتہائی کم لباس میں نظر آنے والی  ایک مظلوم عورت کہہ رہی تھی “عورت بچے پیدا کرنے والی مشین نہیں”
ان باتوں سے ان مظلوم عورتوں کی  مظلومیت اور  کمزوری  کا اندازہ باخوبی لگایا جاسکتا ہے
میری کم عقلی یا کم ظرفی کہ  میں انکی مظلومیت سمجھنے سے قاصر رہی گھر سے تنگ چست   آدھے ادھورے کپڑے پہنے ننگے جسم لے کر  گھر کے محرم مردوں کے سامنے نکل کر ایک میدان میں غیر محرم لڑکوں کے ساتھ آکر خواتین کے عالمی دن پہ واویلا اور مظلومیت کا رونا رونے والی یہ عورتیں اگر اب بھی مجبور ہیں  تو معذرت کے ساتھ بس اب انکو اس بات کی آزادی دینی باقی ہے کہ بازار حسن میں آدمی اپنی مرضی سے حسن نہ خریدے بلکہ یہ خود مردوں کی بولیاں لگائیں جس مرد پہ ہاتھ رکھ دیں اس مرد کو منہ مانگے داموں خرید  کر عیائشی کریں۔
یہ سوچ یہ آدھا پاؤ لوگ بس نام  کے مسلمان ہیں جو آزادی کے نام پہ فحاشی کو فروغ دے رہے اور مظلومیت کا رونا روتے اپنی عصمت اور حرمت کو تار تار کرنے کے راستے بنانے  والے در حقیقت  معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہیں۔
برائی کو برائی نہ سمجھتے ہوئے معاشرے کو آزادی کے نام پہ ناپاک کرتے یہ لوگ در حقیقت گناہ کو مظلومیت کی آڑ میں پروان چڑھا رہے ہیں نا انکو یہ گناہ لگتا ہے نا ہی ایسے لوگوں کی اصلاح کبھی ممکن ہے۔کوئی اس طبقے کو نظر اٹھا کر دیکھ لے تو یہ مظلوم مگر چست تنگ لباسوں میں بازاروں میں جسم کی نمائش کرنے والی لبرل آنٹیاں یہ چاہتی ہیں کہ  دیکھنے والا مرد نگاہ نیچے کرے، مگر کیوں؟ تو مظلوم لبرل بیبیوں پھر ان مرد حضرات کی  زندگی اور  انکی مرضی وہ جو چاہیے جتنا چاہیے دیکھیں پھر شکوہ شکایت کیسی؟ “میری زندگی میری مرضی” کا نعرہ صرف تمہارا نہیں سب کا حق ہے۔
تم آوارہ کہو خود کو ٹھیک ہے کوئی مرد کہے تو گالی کیوں؟ ہاں من پسند مرد کہہ دے  آوارہ پھر بھی ٹھیک ہے محبت سمجھ کر ہنس دو گی مگر کوئی انجان آوارہ بد چلن  کہے پھر تم مظلوم اور وہ ظالم کیوں؟
تم جو بھی کرو ٹھیک کوئی دوسرا آزادی انجوائے کرے تو غلط؟
کسی مظلوم شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے
“تم کرو تو چمتکار
ہم کریں تو بلتکار”
افسوس صرف اور صرف  افسوس کہ یہ معاشرہ کچھ اس طرح کی گھٹیا مخلوق کی وجہ سے ایک ایسے گناہ کی طرف گامزن ہے جس کو نہ گناہ سمجھا جاتا ہے نہ اصلاح ممکن ہے ان کی  برائی معصوم عزتوں کو تار تار کر رہی ہے انکا آزادی کے نام پہ فحاشی کو فروغ دینا معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور بعض معصوم عورتیں اس فحاشی اور آزادی  کا شکار ہو رہی ہیں۔ افسوس
تمام عورتیں بری ہیں نا تمام مرد! ہاں کچھ ناسور اس معاشرے میں ان جیسے موجود ضرور  ہیں۔
صاحبِ عقل صاحبِ علم کے آنسو انکی مظلومیت پہ نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں ان ناسوروں کی کھلم کھلا  فحاشی کے فروغ  کی جستجو اور لگن پہ تھے  جن کا کہنا تھا کہ “جب تک عورت تنگ رہے گی جنگ رہے گی جنگ رہے گی”یعنی کے ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے آگے آگے دیکھیے  ہوتا ہے کیا۔
شبِ سیاہ میں گم ہو گئی  ہے راہِ حیات
قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے
(فراق گورکھپوری)
اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہے تو صرف عورتوں کے حقوق کی مارچ نہیں بلکہ انسانیت مارچ کی ضرورت ہے جس میں اس معاشرے میں ہونے والے ہر فرد کے ساتھ  ظلم و ستم پہ آواز اٹھائی جائے خواہ وہ عورت ہو مرد ہو یا خواجہ سرا جسم سب کا ہے جینے کا حق سب کا ہےدل و روح سب کی ہے سب کو ایذا پہنچانے  والے عناصر کے خلاف آواز اٹھانی چاہئیے مگر مناسب  الفاظوں کے ساتھ  بے ہودگی کا سہارا لے کر حق مانگنے والے خود سوالیہ نشان ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 8 تبصرے برائے تحریر ”خاک نشین۔۔۔۔رمشا تبسم توقیر

  1. ماشاء اللہ بہت خوبصورتی سے آپ نے لبرل آنٹیوں کو آئینہ دیکھایا ہے… جئیو محترمہ… اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

  2. بہت خوب تجزیہ کیا ہے آپ نے… مغرب میں مسلمان عورتوں کے پلے کارڈز ہوتے ہیں “پردہ ہمارا حق ہے”. یہاں یہ چند ایمان فروش، بےحیائی کے سوداگر برہنہ ہونے کا حق مانگ رہی ہیں.. اصل مظلوم واقعی یہی خواتین ہیں جنہیں نہ عزت چاہیے نہ رشتے نہ دین نہ خدا و آخرت. الحمد للہ اسلام نے عورت کو جو حقوق اور عزت دی ہے وہ ہمارے لیے کافی ہے. ہم اس بے حیا طبقے کی بھرپور مزمت کرتے ہیں، ہمیں ایسی ناقدری، بے حیائی اور آزادی نہیں چاہیے.

  3. ماشاءاللہ رمشا آپ نے بہت خوب صورتی سے مغربی تہذیب کے پہلو کی عکاسی کی جو آجکل ھمارے معاشرے میں بھی شمولیت اختیار کر تا جا رہا ھے۔ اور مجھ یہ کہتے ھوۓ تشویر ہوتی ھے جو عورت مشرق کی شان ہوا کرتی تھی وہ کس طرح بے توقا دلیلوں سے دوسروں کو سیٹسفاۓ کرتی ھے۔ بلاشبہ رمشا تبسم آپ نے روحانیت کے ساتھ بیان کیا ۔ اللّٰہ آپ کو سدا خوش رکھے آمین

    1. اس ٹوپک پے کافی تحریریں پڑھیں لیکن یہ سب سے اچھی تحریر ????
      مہذب الفاظ میں بہت اعلی پیغام
      چھا گئ ہیں

  4. اس ٹوپک پے کافی تحریریں پڑھیں لیکن یہ سب سے اچھی تحریر ????
    مہذب الفاظ میں بہت اعلی پیغام
    چھا گئ ہیں

  5. اسلام علیکم!
    تم نے اپنی کاٹ دار تحریر سے دل?جیت لیا…. کیا ہی شاندار (منہ توڑ) جواب دیا ہے….. میں تمہیں( اس امر بالمعروف نہی عن المنکر پر عمل کرنے) پر سلام عظمت پیش کرتی ہوں…..تم نے واقعی سچ کہاکہ جو برائی ارادتاً اور ڈھٹائی سے کی جائے وہ ایک ایسی مہلک بیماری ہے جو لاعلاج ہے ….ایسا زخم ہے جو ناسو ر بنتا جا رہا ہے. … آج کی عورت کو کون سمجھائے کہ عزت چادر اور چار دیواری میں ہے. …عورت چھپی ہوئی چیز کا نام ہے. … تمہارا تقدس حیاکے بغیر پامال ہے. ..الحیا من الایمان. … ہمارے نبی کا فرمان ہے یہ ….آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نےیہ بھی فرمایا کہ اگر تمہیں حیا نہیں تو پھر جو چاہے کر و…. … مگر آج کی عورت حدیث کے اس حصے کا بخوبی استعمال کر رہی ہے … وه حیا کے علاوہ جو چاہے کر رہی ہے. … ارے نادان ….. کیوں نہیں سمجھتی. .. کہ یہ بیہودہ پلے کارڈز. .. تمہاری حرمت کا ساماں نہیں بلکہ تمہارے زوال اور بے حرمتی کا باعث ہیں. ..ابھی بھی وقت ہے سمجھو ….سنبھل جاو …اور جان لو… کہ پهل اپنے چھلکے میں محفوظ رہتا ہے. …چھلکے کے بنا…. یا وہ کسی کا لقمہ بن جاتا ہے یا گل سڑ جاتا ہے ….اللہ رب العزت! عورت کو اپنے تقدس سے روشناس اور اسکی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے … آمین یارب العالمین. ..

  6. واااہ۔ خواتین کے عالمی دن پر اس تماشے نے شرمندہ کردیا۔ بے ہودگی میں سب سے آگے یہ عورتیں ابھی واقعی تنگ ہے۔ آزاد ہو تو نہ جانے کیا کریں۔ مگر کچھ مظلوم عورتیں بھی ہیں۔ جن کی بات ہی نہیں کی جاتی۔ کچھ عورتوں کو لڑکی پیدا کرنے پر سزا ملتی ہے۔ کسی کو بد صورتی پر کسی کو کسی کی محبت ٹھکرانے پر ایزاب سے جلا دیا جاتا ہے اگر ان موضوع پر بات کی جاتی خواتین کے عالمی دن پر تو ذیادہ بہتر ہوتا۔ البتہ اچھی تحریر ہے۔ اچھے الفاظوں میں آئنہ دیکھایا ہے۔

Leave a Reply