• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • خواتین اور مردوں کو مساوی حقوق دینے والے چھ ممالک کون سے ہیں؟

خواتین اور مردوں کو مساوی حقوق دینے والے چھ ممالک کون سے ہیں؟

دنیا بھر میں مردوں اور خواتین کو مساوی قانونی اور اقتصادی حقوق دینے والے ممالک کی تعداد صرف چھ ہے۔
ورلڈ بینک کی طرف سے جاری کردہ `ویمن، بزنس اینڈ دی لا` رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 187 ممالک کے مشاہدے کے بعد `مکمل مساوات` صرف چھ ممالک میں پائی گئی۔
واشنگٹن سے قائم ادارے نے 10 سال تک مالی اور قانونی عدم مساوات اور نقل و حرکت کی آزادی، زچگی، گھریلو تشدد اور اثاثہ جات کے انتظام کے حقوق جیسے پہلوؤں کا مشاہدہ کیا۔
ورلڈ بینک کی جانب سے صرف بیلجیئم، ڈینمارک، فرانس، لیٹویا، لیگزم برگ اور سویڈن کو ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا جہاں ان تمام پہلوؤں پر دونوں جنسوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

عالمی سطح پر مردوں کو ملنے والے حقوق میں سے خواتین کو 75 فیصد حقوق ہی مل پاتے ہیں۔
مختلف علاقوں کے درمیان اوسط تعداد میں واضع فرق دیکھنے میں آیا۔ یورپ اور وسطی ایشیا میں اوسط تعداد84.7 فیصد تھی جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یہ تعداد 47.3 فیصد تک گر گئی۔
83.75 فیصد تعداد کے ساتھ امریکہ کا شمار فہرست میں شامل پہلے 50 ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔
سعودی عرب کے قوانین عورتوں کو حقوق فراہم نہ کرنے کے لیے بدنام ہیں اور اسی وجہ سے 25.6 فیصد تعداد کے ساتھ سعودی عرب فہرست میں سب سے نیچے ہے۔
ایک بیان میں ورلڈ بنک کی قائم مقام صدر کرسٹالینا جورجیوا کا کہنا تھا `یہ انڈیکس جائزہ لیتا ہے کہ 25 سال کی عمر میں پہلی نوکری حاصل کرنے والی لڑکی یا بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ نوکری کرنے والی خاتون سے لے کر نوکری سے ریٹائر ہونے والی خاتون کے اقتصادی فیصلوں پر قانون کیسے اثرانداز ہوتا ہے۔`

`بہت سے قوائد و ضوابط اور قوانین عورتوں کو باہر کام کرنے یا کاروبار شروع کرنے سے روکتے ہیں اور اس امتیازی سلوک کے خواتین کی معیشت میں حصہ لینے اور افرادی قوت والی سرگرمیوں کو سر انجام دینے پر دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔`

رپورٹ کچھ ملکوں کی طرف سے لیے گئے مثبت اقدامات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔
ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں 131 ممالک کے قوانین اور قوائد میں 274 اصلاحات ہوئی ہیں جس کی وجہ سے صنفی مساوات میں بہتری آئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے`ان اصلاحات میں 35 ایسے ممالک شامل ہیں جہاں پر خواتین کو کام کرنے کی جگہ پر جنسی ہراس سے بچانے کے لیے قوانین متعارف کروائے گئے اور گزشتہ دہائی کے مقابلے میں دو بلین سے زائد خواتین کو تحفظ ملا۔`

صحرائے صحارا کے زریں علاقے میں دنیا کے چند سب سے غریب ممالک پائے جاتے ہیں جہاں پر گذشتہ دہائی میں صنفی مساوات کو فروغ دینے والی سب سے زیادہ اصلاحات ہوئی ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ایک عورت کے کام کی مکمل زندگی کے ان عوامل جیسا کہ نوکری کی تلاش سے کاروبار چلانے اور پینشن لینے تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ 33 ممالک میں پیٹرنٹی لیو کا قانون متعارف کروایا گیا جبکہ 47 ممالک میں گھریلو تشدد کے خلاف قانون پاس کیا گیا۔
کرسٹالینا جورجیوا کہتی ہے `ہم جانتے ہیں کہ صنفی مساوات حاصل کرنے کے لیے صرف قوانین میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ قوانین کو بامقصد طریقے سے لاگو کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سیاسی طور پر مسمم ادارے، معاشروں کے آر پار خواتین اور مردوں کی قیادت اور معاشرے میں رچے بسے ثقافتی معمولات اور رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔`

`بلآخر ڈیٹا ہمیں دکھاتا ہے کہ قوانین ہمیں ہماری صلاحیات پر پورا اترنے سے روکنے کی بجائے عورتوں کو بااختیار بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔`

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ بی بی سی

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply